رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویران ہوتا ہوا ڈیرہ غازیخان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتابوں کے سکڑتے ، سمٹتے مراکز ” ملک نیوز ایجنسی ” اور ناصر نیوز ایجنسی "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ غازیخان جسے میں اپنی دوسری جنم بھومی سمجھتا ہوں ۔ جس شہر کی گلی گلی میں میرے ساتھ ، مجھ سے سینئر اور مجھ سے بعد میں پڑھنے والے دوستوں کے گھر ہیں۔ جس کے گورنمنٹ ڈگری کالج سے ایف اے اور بی اے کیا، جس کے ہاسٹل میں چار سال گزارے۔ جس کالج کی گیلریوں، کرش ہال، کمروں اور گراؤنڈز سے آج بھی میرے کانوں میں بھٹوازم بھٹوازم ؟ سوشلزم سوشلزم ، بھٹو ھم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں ، ھم بدلہ لیں گے بھٹو کا، امریکہ کا جو یار ھے غدار ھے غدار ھے ، قاتل قاتل ضیاء قاتل ، سردار وڈیرے بے غیرت، چور لٹیرے بے غیرت کے نعروں کی گونج اور تالیوں کی جھنکار صاف سنائی دیتی ھے۔ جس شہر کے چار ہائی سکولوں کے معصوم بچوں کی چھٹی کی اس بجتی گھنٹی کی ناقابلِ بیان خوشی اور چہکار کے منظر آج بھی سلامت ہیں کہ جو گھنٹی ڈگری کالج کے طلباء اپنے مسائل کے حل کیلئے بطور احتجاج بجا کے زبردستی چھٹی کراتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج چھوڑے ہوئے مجھے اگرچہ پینتیس سال ہوگئے ہیں مگر مَیں اب تک جب کبھی بھی اداس ہوا تو ان سب مناظر میں خود کو محسوس کرنے ڈیرہ غازیخان چلا جاتا ہوں۔ ان پینتیس سالوں میں ڈیرہ غازیخان آتے جاتے ایسا کوئی ایک دن بھی یاد نہیں کہ میرا ڈیرہ غازی خان ڈویزن میں شعور پھیلانے کے مرکز ملک نیوز ایجنسی اور ناصر نیوز ایجنسی پر کچھ وقت نہ گزارا ہو اور وہاں بیٹھ کے کوئی نیا اخبار، نیا رسالہ اور کوئی نئی کتاب نہ پڑھی ہو یا نہ خریدی ہو ۔
میرا تعلق چونکہ مارکسی مکتبِ فکر سے ھے تو میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اس سارے عرصہ میں مارکسی فلسفہ اور تعلیمات سے جڑی ہوئی ایسی کونسی کتاب تھی جو پاکستان میں کہیں چھپی ہو اور ان دو مراکز اور بالخصوص ملک نیوز ایجنسی پر دستیاب نہ ہوئی ہو۔ بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ھوا کہ جو مطلوبہ کتاب ملتان اور لاھور سے نہیں ملی یہاں سے مل گئی ۔۔۔۔۔۔ یہی کچھ مذہبی کتب اور سرائیکی شعر و ادب سے متعلقہ کتابوں بارے کہا جا سکتا ھے۔۔۔
اب کی بار دو چار دن قبل ڈیرہ غازیخان گیا تو ناصر نیوز ایجنسی کو بمشکل دیکھ پایا۔ اور ملک نیوزایجنسی کے سامنے تو بیتابی سے دو چار چکر لگانے کے باوجود تلاشنے میں نا کام رہا۔ ایک تو اس دکان پر ایک ناشناسا نوجوان (ملک شاھد کا بیٹا ) کھڑا تھا۔ دوسرا اس دکان (ملک نیوزایجنسی ) کو موسمی چادروں، کوٹ، جیکٹس، جرابوں، مفلرز اور دستنانوں نے گھیر کے چھپا رکھا تھا ۔ یقین کریں کہ جب مجھے پاس کھڑے ایک دوست نے بتایا کہ یہی ملک نیوزایجنسی ھے اور پھر جب میں نے وہاں کھڑے نوجوان سے پوچھا کہ بیٹا یہ کیا ۔۔۔؟ اور جب جواب ملا کہ کتابیں کوئی لیتا ھی نہیں، کتاب پڑھنے والے ختم ہوتے جارھے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیر ہو گیا ہو ۔ جیسے کوئی مردنی چھا گئی ہو ، مجھے اپنی زبان گنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ہو ۔ جیسے میرا سب کچھ لُٹ سا گیا ہو اور جیسے سارا ڈیرہ غازیخان مٹی کے ایک ڈھیر میں بدل گیا ہو ۔۔۔۔
یہ سڑکیں، یہ چوکوں، چوراھوں کے دمیان بنے مینار یا سجائے گئے مجسمے اور گھوڑے کس کام کے کہ جس شھر سے کتابیں ملنا نصیب نہ ہو ( یہاں کتابوں سے مراد درسی کتابیں نہیں کیونکہ تعلیم کے تجارت بن جانے سے تو ان کا کاروبار چمک رہا ھے ) ۔ کتاب اسے کہتے ہیں جو دلیل کی امین ہو ۔ جو شعور دینے کا منبع ہو ۔ جس کے پڑھنے سے مذہب، سیاست، ثقافت، تاریخ، فکر و فلسفے اور تہذیب و تمدن کی ایسی فضا قائم ہو جہاں انسانوں کا دم گھٹتا ہوا محسوس نہ ہو ۔۔۔۔۔
یہاں یہ کہا جائیگا کہ آج جدید دور ھے دنیا کی ہر کتاب پی ڈی ایف یا کسی اور ترقی یافتہ ایپ میں مل سکتی ھے۔ جدیدیت سے انکار جہالت ھے۔ مگر جدیدیت کے مقاصد سمجھنا ضروری ہیں کہ کیا کسی نئی ایجاد کا مقصد اس عہد کے انسانوں کو سھولت مہیا کرنا ھے یا شرح منافع کی تیزی اور زیادتی سے انسانوں کا خون نچوڑ کے انسانیت کو لہولہان کرنا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
آج ضرورت لہو نچوڑتے اس نظامِ زر کے خاتمے کی ھے۔ جس کے خاتمے سے ھی ہر جدیدیت انسانیت کو سکھ فراہم کرے گی ۔ سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خاتمے سے نہ صرف کتابوں کو پڑھنے اور محفوظ کرنے کے نئے ہزاروں طریقے دریافت ہونگے بلکہ کتاب چھپنے کی گرانی اور اخراجات کے خاتمے سے مفت کتابوں کی اشاعت اور دستیابی سے ہر شہر، ہر چوک اور ہر گلی میں ہر سھولت کی حامل پرسکون اور دیدہ زیب لائبریریاں انسانیت کی پیشانی پر سربلندی، فخر اور سرخروئی کا جھومر بنیں گی ۔۔۔۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر