نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شارق جمال خان کی خرد پسندی|| وجاہت مسعود

آج کے پاکستاں میں جہاں ہم جہل، جنون اور ضعیف العتقادی کی غلام گردشوں میں فان گوگ کی پینٹنگ "قیدی” کے کرداروں کی مانند رائیگانی کے سفر پر ہیں، شارق جمال کی شاعری مجھے فرانسسکو گویا کی پینٹنگ یاد دلاتی ہے

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پطرس کے مضامیں ہم سب نے پڑھ رکھے ہیں۔ اردو مزاح کی یہ کلاسیک تصنیف 1927 میں شائع ہوئی جب پطرس کیمبرج سے انگریزی ادبیات میں ٹرائی پوز مکمل کر کے لاہور لوٹ آئے تھے۔ یہ بات قدرے کم معروف ہے کہ برطانیہ میں قیام کے دوران پطرس بچوں کے منفرد رسالے پھول کے لئے ہلکی پھلکی تحریریں بھی بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے دو نثر پارے بچپن میں میرے ہاتھ لگے۔ ’لندن کا سپاہی‘ اور ’لندن کی ٹیوب‘۔ کیا دل آویز بیان تھا۔ ایسی لطیف نثر کہ چھوٹے بچوں کے دل و دماغ روشن کر دے۔ ’لندن کا سپاہی‘ کا بنیادی پیغام تھا کہ پولیس شہریوں کی محافظ اور مددگار ہے۔ پولیس تمدن کا حصہ ہے، جبر کا آلہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ انگریز بہادر نے یہ انتظام اپنے ملک میں قائم کیا تھا۔ ہندوستان جیسی نوآبادیوں میں پولیس عوام کا حصہ نہیں بلکہ بیرونی حکمرانوں کا خوف قائم رکھنے کا ہتھیار تھی۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ 1928ءمیں سائمن کمیشن کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے لالہ لاجپت رائے پر لاہور کے ایس پی جیمز سکاٹ نے خود تشدد کیا تھا جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔ برطانوی ہند میں حسرت موہانی، سیف الدین کچلو اور جے پرکاش نرائن جیسے اہل حریت کو ناپسندیدہ گروہ سمجھنا پولیس کی تربیت کا حصہ تھا۔ اگر آزادی محبان وطن کی جدوجہد کا نتیجہ تھی تو پاکستان کی نوآزاد ریاست میں پولیس اور عوام کا رشتہ تبدیل ہونا چاہیے تھا۔ ہماری تاریخ مگر پیچیدہ پگڈنڈیوں کا جاں گسل سفر رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے نہ صرف پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا بلکہ جبر و تشدد کے اس بندوبست میں نامعلوم کے شاخسانے بھی شامل ہوتے گئے۔ حسن ناصر، نذیر عباسی اور حمید بلوچ تو چند استعارے ہیں، ریاستی تشدد کی اندھیری گلیوں میں کھو جانے والوں کی فہرست بے حد طویل ہے۔ قانون کی کتاب نے ریاست کو عوام کے تحفظ کے لئے جو قوت نافذہ بخشی تھی، اسے عوام کو بے دست و پا کرنے کا حیلہ بنا لیا گیا۔ اس بدصورت تصویر میں اگر عوام بے بس ہوئے تو خود پولیس کی اہلیت اور تشخص پر بھی دھبے لگے۔ یوں سمجھیے کہ صاحبزادہ عبدالرو¿ف اور راو¿ رشید جیسے ناموں میں اصغر خان ہلاکو اور مسعود محمود جیسے کرداروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ قلم کی آوارگی دیکھیے، پطرس بخاری سے چلے تو مسعود محمود کی خبر لاتا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ پولیس اگر خوف، تشدد، لاقانونیت اور جبر کی علامت ٹھہرے تو اس صحرا میں تمدن کی قلم کیسے لگائی جائے۔ شعر و ادب، علم اور فکر کی امید کیسے باندھی جائے؟ لیکن نہیں صاحب، ہماری دھرتی بنجر نہیں، امکان کا معدن ہے۔ لو دیتا ہے کیا کیا یہ چراغ تہ داماں….

علی افتخار جعفری جیسے سلجھے ہوئے، خوش ذوق اور صاحب طرز شاعر سے برسوں ملاقات رہی۔ کار سرکار میں طاق مگر حلقہ احباب میں صرف علم و ادب پر بات ہوتی تھی۔ ایک مختصر مجموعہ ’مٹی ملے خواب‘ شائع ہوا مگر اس سوختہ نصیب نے جانے میں عجلت دکھائی۔ 9 فروری 2014 کو 44 برس کی عمر میں رخصت ہو گئے۔ کچھ برس بعد حلقہ ارباب فکر کے ایک مشاعرے میں شارق جمال خاں سے تعارف ہوا۔ نشست و برخاست کے سبھاؤ اور تکلم کی حلاوت سے علی افتخار کی یاد تازہ ہو گئی۔ یہ معلوم تھا کہ ان کا ایک مجموعہ ’آتش زیر پا‘ کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے تاہم پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اب ان کا دوسرا مجموعہ ’فسانہ کون و مکاں‘ پڑھا تو ایک منفرد رنگ کے حقیقی شاعر سے تعارف کی خوشی نصیب ہوئی۔ شارق کلاسیکی ذوق رکھتے ہیں، لغت پر فارسی کا رنگ غالب ہے۔ قدما میں بیدل اور غالب سے فیض اٹھایا ہے اور جدید شاعروں میں راشد کی چھوٹ دکھائی دیتی ہے۔ ان تین ناموں سے آپ نے جان لیا ہو گا کہ شارق جمال کو کائناتی سوالات سے تعلق ہے اور وہ اوہام کی اس بستی میں خرد کا چراغ لئے وارد ہوئے ہیں۔ ان کی نظم ’بتانِ اوہام‘ کا ایک ٹکڑا دیکھیے:
خرد ہی شرعِ ہنروراں ہے
خرد ہی اسلوبِ کاملاں ہے
خرد کی پیکر طرازیوں نے جمال فکر و نظر تراشا
حقیقتوں نے دروغ و وہم و یقیں کے غم سے نجات پا کر
بتانِ اوہام و خوف و دہشت کو ان کے معبد میں توڑ ڈالا
اب شارق جمال کی غزل کا رنگ ملاحظہ ہو
مکاں تو ہے ہی نہیں لامکاں تو ہے ہی نہیں
مرے شعور سے ہٹ کر جہاں تو ہے ہی نہیں
گو مثل آئنہ ہیں یہ کون و مکاں مگر
بے چہرگی عذاب ہے آئنہ ساز کی
مجھ کو جہان ناقص و کہنہ سے کیا غرض
اک کائنات ہے کہ پریشان مجھ میں ہے
حریفان ہوس، اے منکرین چشم و گیسو
بدن کی آگہی تو سب سے پہلی آگہی ہے
آج کے پاکستاں میں جہاں ہم جہل، جنون اور ضعیف العتقادی کی غلام گردشوں میں فان گوگ کی پینٹنگ "قیدی” کے کرداروں کی مانند رائیگانی کے سفر پر ہیں، شارق جمال کی شاعری مجھے فرانسسکو گویا کی پینٹنگ یاد دلاتی ہے ’جہاں عقل و خرد کو اونگھ آ جائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں‘۔ 36 نظموں اور 59 غزلوں کا یہ مجموعہ اردو شعر میں خرد افروزی کی مثنوی کہا جا سکتا ہے۔

بشکریہ : ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author