ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پینتالیس برس کی دلکش عورت، ویران، بجھی بجھی آنکھیں اور اداس مضمحل چہرہ لئے سامنے بیٹھی تھی۔
”ڈاکٹر میں پیمپر اور پیڈ پہن پہن کے تھک چکی ہوں۔ کئی برس ہو گئے اس تکلیف میں مبتلا ہوئے، جسم پہ قابو ہے ہی نہیں۔ نہ کہیں آ جا سکتی ہوں، نہ کسی کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں۔ ریح اٹھتے بیٹھتے خارج ہوتی ہے، شرمندگی کے مارے برا حال، میں نے احباب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے۔ تقریبات میں جانے سے گریز کرتی ہوں۔ پاخانے کا بھی یہی قصہ ہے، حمام پہنچتے پہنچتے نکل جاتا ہے۔ کہیں بہت ضروری جانا ہو تو پیمپر پہنتی ہوں۔ لیکن پاخانہ خارج ہونے سے زخم بن جاتے ہیں۔ میری زندگی عذاب ہے ڈاکٹر“
وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھیں۔
”حوصلہ رکھیے، میں آپ کو دیکھ لیتی ہوں“
معائنے کی غرض سے میز پر لٹا کر انہیں دیکھتے ہی ہمارا کلیجہ اچھل کر حلق میں آ گیا۔
مقعد ( Anus) کے گرد جلد سرخ تھی، جیسے خون نکلنے ہی والا ہو، کھرونچوں کے نشان، کچھ مندمل کچھ تازہ۔ مقعد کے پیچ کی چوڑیاں دیکھنے میں ہی غائب تھیں، مقعد کے ارد گرد پاخانے کے نشان موجود تھے۔
دستانہ پہن کر مقعد میں انگلی ڈالی تو مقعد کی گرفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مقعد ایک ڈھیلے ڈھالے کٹے پھٹے عضو میں بدل چکا تھا۔ معائنے کے دوران ریح خارج ہوتی رہی، جس پہ ہر بار وہ ندامت بھری آواز میں سوری کہتیں۔
کیا ان کے بچوں کی زچگی اس قدر مشکل تھی کہ ان کے مقعد کو مکمل طور پہ تباہ کر گئی تھی؟ ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔ ان کی حالت دیکھ کر ہم خود دکھی ہو چکے تھے۔
”آپ کے کتنے بچے ہیں؟“ ہم نے پوچھا
”چار“ ، جواب ملا،
”کیا ان کی زچگی کے دوران آپ کے مقعد کو ضرب پہنچی تھی؟“
”جی نہیں، میرے چاروں بچے سیزیرین سے ہوئے ہیں“
”کیا؟ یعنی کوئی بچہ ویجائنا کے راستے پیدا نہیں ہوا۔ پھر مقعد کی یہ حالت کیسے؟“ ہم بوکھلا چکے تھے،
وہ چپ رہیں!
”دیکھیے جب تک آپ بتائیں گی نہیں اس کا علاج کیسے ہو گا؟“
ہم نے پوچھا،
ان کے چہرے پہ اضطراب، دکھ، بے چینی اور درد سب کچھ ہی لکھا نظر آتا تھا۔
بالآخر وہ دھیمی سی آواز میں بولیں،
”ہمارے شوہر کو یہ پسند ہے“
”کیا پسند ہے؟ سمجھی نہیں“ ، ہم اپنی سادگی کی انتہا پر تھے۔
”وہ جی، میاں بیوی کا تعلق مقعد کے راستے“
”اوہ۔ کب سے؟“
”ازدواجی زندگی کی ابتدا سے، تقریباً پچیس برس ہو گئے یہ عذاب سہتے ہوئے۔ وہ نارمل طریقہ پسند نہیں کرتے“
”پھر بچے کیسے ہوئے؟“
”بس جی، صرف حمل کی غرض سے مختصر مدت کے لئے“
”آپ کی تکلیف سے کیا ناواقف ہیں وہ؟“
”جی نہیں، سب علم ہے“
پھر بھی؟
”جی پھر بھی“
”کیوں؟“
”دوسری طرح سے ان کی خواہش کی تکمیل نہیں ہوتی، وہ خوش نہیں ہوتے“
”لیکن آپ اس حالت میں، کہ زندگی اجیرن ہو چکی ہے“
”ان کا خیال ہے کہ یہ شوہر کا حق ہے، جیسے چاہے ازدواجی تعلق قائم کرے“
”اف اف۔“ ہم نے شدت درد سے آنکھیں میچ لیں۔
”کیا آپ نے کبھی انہیں چھوڑنے کا سوچا؟“
”جی کئی بار“
”پھر علیحدگی کیوں نہیں اختیار کی؟“
”کبھی بچوں کا خیال آ گیا، کبھی والدین نہیں مانے، کبھی عزت کی خاطر بھرم رکھنا پڑا، کبھی شرم آ گئی، کبھی معاشرے سے ڈر لگا، کبھی گھر کی چھت نہ ہونے سے خوفزدہ ہو گئی، کبھی اخراجات منہ کھول کر سامنے آ کھڑے ہوئے۔ بس کیا بتاؤں؟“
کچھ منٹ کی خاموشی، اور پھر ان کی سسکیوں بھری آواز نے توڑی،
”کچھ کریں ڈاکٹر صاحب، میں جہنم میں ہوں“
” دیکھیے آپریشن تو ہو جائے گا، مقعد کے پیچوں کی سلائی کر دی جائے گی، ریح اور پاخانے پہ کچھ حد تک قابو پا لیا جائے گا۔ جس حد تک ممکن ہوا لیکن میرا ایک سوال ہے؟“
”جی“
”کیا یہ ممکن ہے کہ آپریشن کے بعد آپ کے شوہر یہ عادت ترک کر دیں؟“
خاتون کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور وہ ہونٹ بھینچ کر بولیں،
”نہیں“
”پھر تو آپریشن کامیاب نہیں ہو گا۔ پہلے سے تباہ حال چیز کو محض رفو کیا جا سکتا ہے، نئی تو نہیں بن سکتی“
وہ چپ چاپ ہمیں دیکھتی رہیں،
”کیا آپ کے شوہر تعلیم یافتہ ہیں؟“
”جی وہ ایک سرکاری محکمے میں گریڈ بیس کے ملازم ہیں“
ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، کہ کیا کہیں، ان کے لئے کیا کریں؟ کس طرح سے ان کی زندگی کے جہنم میں ایک کھڑکی بنائیں جس سے زندہ رہنے کے لئے وہ سانس لے سکیں۔
ہمیں لگا کہ اس دنیا کے تمام اصول، ضوابط، اخلاقیات، قاعدے پدرسری نظام طاقتور کو خوش کرنے کے لئے مرتب دیتا ہے۔ وہ بیڑیاں جو عورت کو قابو میں رکھنے کے لئے پہنائی جاتی ہیں۔
کیا آپ کو وہ عورت زندہ لگتی ہے؟ ہمیں تو یوں محسوس ہوا کہ وہ پچیس برس پہلے ستی ہو گئی تھی، اب محض راکھ ہے جو اڑ اڑ کر معاشرے کو آئینہ دکھا رہی ہے!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر