رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے ڈومیسٹک ہیپلر مجاہد کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ مجاہد دراصل بہاول پور میں میرے سگے بھتیجے ڈاکٹر احمد حسین کی دریافت ہے جو بہاول وکٹوریا ہسپتال میں آئی سپیلسٹ ہے۔
مجاہد کبھی کبھی بڑی گہری باتیں کرے گا۔ نوجوان ہے۔ تائیس چوبیس برس عمر ہے۔ میں وقت نکال کر اس سے باتیں کرتا ہوں کہ اسے بھی اپنے دکھ سکھ شئیر کرنے کے لیے کوئی سامع چاہئے۔ دیر تک گپئں لگاتا ہوں جس سے اس کا من کچھ ہلکا ہوتا ہے۔ سمجھدار اور محنتی ہے ( امید ہے یہ جملہ میری بیگم صاحبہ تک نہیں پہنچے گا نہ کوئی سکرین شاٹ لے کر بھیجا جائے گا۔میرا جن کی طرف اشارہ ہے وہ خود سمجھ جائیں) ۔
ہم سرائیکیوں کو ویسے پردیس کاٹتا ہے۔ پردیس ہمارا ولن ہے۔ لہذا کبھی وہ اداس ہو تو میں اس ساتھ بیٹھ کر اس کی زبان میں باتیں کرتا ہوں تو اس کے دل کا بوجھ ہلکا اور اس کی مونجھ کم ہوتی ہے۔
مجاہد نے سکول کا منہ نہیں دیکھا لیکن وقت نے اسے سب کچھ سکھا دیا ہے۔ ایک دن بتا رہا تھا وہ آٹھ برس کا تھا کہ اس کے باپ سے کچھ لوگ لڑنے آئے کہ انہوں نے کچھ قرضہ دینا تھا۔ باپ کی ذلت دیکھ کر اس بچے نے اس دن قسم کھائی باپ کا قرضہ واپس کرے گا اور مزدوی شروع کی۔ سکول چھوٹ گیا اور آج تک وہ مزدوری کررہا ہے۔
اس کی لمبی کہانی ہے۔ اپنی دل خراش آپ بیتی کے کچھ پارٹس مجھے سناتا رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے اپنی خاکوں کی کتاب میں اس کا بھی خاکہ لکھوں۔
کچھ ماہ پہلے اس کی شادی ہوئی ہے۔
اس کی بیگم صاحبہ آٹھ دس جماعتیں پڑھی ہوئی ہیں۔
پچھلے سال مجھے ہنستے ہوئے بتایا کہ جب سے علاقے میں پتہ چلا ہے کہ میں آپ کے ہاں رہتا ہوں تو میرے تین چار رشتے آگئے ہیں۔ اب فیصلہ نہیں کرپارہا کہاں کروں۔
میرا ہنس کر برا حال ہوگیا۔ میں نے مذاق میں کہا ایک آدھ سے خود کر لے، ایک آدھ سے میری کرا دے۔ فورا ہی میری ہنسی کو بریک لگی اور کہا اوئے شیانے سن زرا اب باجی کو یہ بات نہ بتانا ورنہ انہوں نے تمہاری تنخواہ کاٹ لینی ہے کہ مفت میں ایسے ایسے فائدے اٹھا رہا ہے اور تنخواہ بھی لے رہا ہے۔
خیر وہ اپنی ساری تنخواہ باجی کو کہہ کر اپنے گھر باپ کو بھجوا دیتا ہے۔ ایک بیٹا پردیس میں رہ کر ماں باپ کو کما کر دے رہا ہے۔ ان کا خیال رکھ رہا ہے۔ اس سے بڑی عظمت کیا ہوسکتی ہے اور میں اس وجہ سے مجاہد کی زیادہ عزت کرتا ہوں۔
ایک دن اداس تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟
بولا باجی نے ڈانٹا ہے۔
میں نے اسے دیکھا اور اسے کہا احمد اور مہد کو زرا بلا کر لائو۔
وہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا تمہاری اماں تمہیں ڈانٹتی ہیں؟
وہ دونوں حیران کہ کیا سین چل رہا ہے۔
میں نے کہا جو پوچھا ہے جواب دیں۔
دونوں نے کہا جی ڈانٹتی ہیں۔ بلکہ ایک بولا آپ کو بھی تو ڈانتی ہیں۔
میں نے مجاہد کو دیکھا اور کہا سن لیا۔ ہم باپ بیٹے سب ڈانٹ کھاتے ہیں۔اگر تجھے پڑ گئی ہے تو دیوداس بن کر پھر رہا ہے۔ چل دوڑ جا۔
مجاہد کی نئی نویلی بیوی کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ اس نے کہیں میری لکھی کتابیں دیکھیں تو مجاہد کو میرا کہا اگلی دفعہ گھر آتے ان کی سب کتابیں لے آنا۔ میں نے پڑھنی ہیں۔ خیر اسے وہ کتابیں دیں۔
مجاہد چائے بڑی اچھی بناتا ہے۔ دال سبزی بھی بہت اعلی پکاتا ہے( چند برس ہمارے ساتھ گزارنے بعد سمجھدار ہوگیا ہے کہ اگر کہوں دال اچھی پکائی ہے تو کہے گا باجی نے سکھائی ہے) میں کہتا ہوں پتر تو جو گر چند سالوں میں سیکھ گیا وہ میں بیس بائیس میں نہ سیکھ سکا کہ ہر کریڈٹ تمہاری باجی ( بیگم صاحبہ) کو دینا ہے۔
خیر اس نے مجھے چائے بنا کر دی تو میں نے دعا دی اللہ تمہیں بیٹا دے اور پوچھا ویسے اس کا نام کیا رکھو گے؟
وہ رکا اور بولا تھوڑا حیران ہو کر بولا بیٹا کیوں صاحب؟ بیٹی کیوں نہیں۔میری تو خواہش ہے پہلی بیٹی ہو۔
مجھے حیران دیکھ کر مجھ پر مسکراتا باہر نکل گیا۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر