گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خورشید ربانی ہمارے وسیب کا وہ دانشور ۔مصنف ۔صحافی اور شاعر ہے جس نے سخت محنت اور لگن کے ساتھ پورے ملک اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا ۔
وہ ایک صاحبِ طرز اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شخصیت کا سب سے بہترین اور نفیس پہلو ان کی عجز و انکساری ہے ۔شاعری میں ان کی تین کتابیں پہلے ہی شائیع ہو چکی ہیں جن میں ۔رخت خواب ۔۔۔کفِ ملال اور پھول کھلا ہے کھڑکی میں۔ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق و تنقید سے متعلق وہ چار کتابوں کے مصنف ہیں۔کئی کتابوں کی تدوین و ترتیب میں بھی شامل رہے۔
حال ہی میں جو انکی نئی کتاب شائیع ہوئی ہے اور اس وقت میرے ہاتھ میں ہے اس کا ٹائیٹل ۔غبارِ آئینہ ہے۔وہ یہ کتاب مجھے دینے کے لیے خود یونائیٹڈ بک سنٹر پر آے مگر میں ان کے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے نکل چکا تھا ۔ ان کی محفل سے تو محروم رہا مگر جب کتاب کو پڑھا تو ایک گلستان کا دروازہ کھل گیا جس کی مہک چار سُو پھیل گئی۔ اس کتاب کا ایک ایک شعر سونے کی تاروں سے لکھنے کے قابل ہے ۔ مجھےیہ کتاب پڑھ کر ڈیرہ کی سرزمین پر فخر محسوس ہونے لگا کہ اس سر زمین میں کیسے کیسے لعل وگوہر پوشیدہ ہیں۔ خورشید ربانی ایک حساس شاعر ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے حقیقتیں جذب کر کے لفظوں کی کوزہ گری کرتا ہے۔ وہ غالب کی طرح فقیروں کا بھیس بدل کر تماشا اہل کرم اور فطرت کی گلکاریاں دیکھنےدور نکل جاتا ہے ؎
پھرتے ہیں شھر شھر یہی سوچتے ہوئے۔
اک روز راستے میں تیرا گھر بھی آے گا۔
اسی طرح کہتے ہیں ؎
صحرا کی خاک چھانتے ہم خاک ہو گیے۔۔
لیکن تمہارا نقش کفِ پا نہ مل سکا۔
خورشید ربانی کی شاعری تخیل کے ریشم بنتی ہے اور ان کا لباس بنا کر مارکیٹنگ کرتی ہے۔دریاے سندھ کے کنارے زندگی گزارنے والا شاعر مہران کی حسین لہروں سے متاثر ہوے بغیر کیسے رہ سکتا ہے؟؎
پھر ایک دن وہ اس سے ہم آغوش ہو گئی۔۔
دریا کو دیکھتی تھی کناروں سے روشنی ۔۔۔
*
عجب اُفتاد ہم پر آ پڑی دریا کنارے ۔
کہ کشتی مل گئی اور ناخدا ملتا نہیں۔
*
کشتی بھنور میں آئی کہ کشتی میں ہے بھنور ۔۔
مجھ پر فریبِ موجِ رواں کھل نہیں رہا۔
*
تم کنارہ سمجھ رہے ہو مجھے ۔
موج میں آ گیا تو دریا ہوں۔
*
ڈیرہ کے شورکوٹ سے رخت سفر باندھ کے قریہ قریہ گلیوں گلیوں پھرنے والا یہ شاعر کس منزل کی تلاش میں ہے پتہ نہیں چلتا ؎
شوق سفر نے اس کو سنبھلنے نہیں دیا۔
خود سے بچھڑ گیا وہ ٹھکانے کو چھوڑ کر ۔
*
مجھ کو تلاش رزق ہے حرص و ہوس نہیں۔
دیکھوں ہوں پہلے دام کو دانے کو چھوڑ کر۔
*
جاتے ہیں اس گلی میں بہانے کے ساتھ ہم ۔
مل جاے وہ تو مل لیں بہانے کو چھوڑ کر۔
میں نے نشانہ باندھ کے چھوڑا تھا تیر کو۔
جانے کدھر گیا وہ نشانے کو چھوڑ کر۔
*
اس گل زمین سے صرف نظر کر رہا ہوں میں ۔
خورشید کس ہوا میں سفر کر رہا ہوں میں۔
*
گلیوں گلیوں کبھی مٹی کی مہک ملتی تھی۔
شھر کا شھر ہوا اب تو ہمارا پتھر۔
*
خورشید ربانی ایک سیمابی کیفیت کا مسافر ہے ۔وہ کسی مشکل کسی رکاوٹ کے بغیر اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوے ہے اس کو حالات کی کٹھن نے تھکنے دیا نہ رکنے دیا۔
؎
یہ زندگی سفر ہے کڑی دھوپ کا سفر۔
سائے کی طرح چلتے رہو اور چپ رہو۔
*
خورشید ربانی کی تازہ کتاب ۔۔غبارِآئینہ ۔۔۔رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے شائیع کی ہے ۔128 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 500روپے ہے ۔کتاب حاصل کرنے کے لیے خورشید ربانی کے موبائیل
+92 333 5286790
سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر