نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محمود نظامی:آوارہ گرد،قوم پرستی اور مارکسزم کا مبلغ||اسلم رسولپوری

اس نے اپنی آوارہ گردی کے دوران بے شمار راتیں میرے ہاں رسول پور گزاریں۔وہ کڑک چائے پیتا۔ایک بار اس نے چائے واپس کر دی اور کہا چینی کم اور پتی زیادہ ہونی چاہئیے۔پھرجب کالی دھوں چائے بن کر آئی تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔

اسلم رسولپوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا تم یہ بتائو کہ شاہ لطیف بڑا شاعر تھا یا شیخ ایاز۔اس نے سندھ سے آئے ہوئے میرے ایک مہمان سندھی شاعر سے سوال کیا۔شاہ لطیف ۔میرے مہمان شاعر نے جواب دیا
بے وقوف انسان۔ایک انقلابی شاعر سے ایک صوفی شاعر کیسے بڑا ہوسکتا ہے۔میرا مہمان بوکھلا کر میرا منہ تکنے لگا
میں نے اسے کہا چلو یہاں سے تجھے مہمان سے بات کرنی نہیں آتی۔وہ خاموشی سےاٹھ کر مہرے والا کے میلے کے مجمع میں کہیں بیٹھ گیا۔
میرا اس سے انیس سو پینسٹھ کے لگ بھگ رئیس عدیم کے پاپوش کدہ پر تعارف ہوا۔وہ ان دنوں ڈیرہ غازی خان کالج میں پڑھتا تھا۔رئیس عدیم کی دکان بائیں بازو کے دانشوروں کا گڑھ تھا۔اس چھوٹی سی تجاوزتی دکان پر بیٹھنے کی جگہ کم ہوتی تھی۔ایک بار وہ آیا توبیٹھنے کی جگہ نہ تھی وہ بنچ کے نیچے لیٹ گیا۔دوران گفتگو صوبدار معینوی نے کہا ۔طلباء پیٹی بورژوا کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔اس نے نیچے سے سر نکالا اور کہا اچھا۔میں جو اس حالت میں پڑا ہوں پیٹی بورژوا کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔معینوی چپ۔
اس نے اپنی آوارہ گردی کے دوران بے شمار راتیں میرے ہاں رسول پور گزاریں۔وہ کڑک چائے پیتا۔ایک بار اس نے چائے واپس کر دی اور کہا چینی کم اور پتی زیادہ ہونی چاہئیے۔پھرجب کالی دھوں چائے بن کر آئی تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔
پورے پچپن برس کی دوستی میں ہمارا کسی مسئلے پر اختلاف نہیں ہوا۔بعض سیاسی مسئلے پر میں فون کر کے مشورہ کرتا۔ہم نے بہت سے اجلاس ایک ساتھ بھگتائے۔کوئٹہ میں پونم کا اجلاس تاج لنگاہ۔ منصور کریم کے ساتھ اکٹھے بھگتایا۔اور اجمل خٹک ۔محمود اچکزئ ۔عطاءاللہ مینگل۔اختر مینگل سے ملاقایں کیں اور دعوتیں کھائیں۔اس طرح ملتان میں قسور گردیزی کی کوٹھی پر ملتان میں مولانا بھاشانی سے
لمبی نشست لگائی۔پھر قلعہ پر اور قسور گردیزی کی کوٹھی پر جی بھر کر مولانا کی تقریریں سنیں
ملتان میں وہ زیادہ تر وقت منصور کریم کی کوٹھی پر گزارتا یا پھر پاکستان سرائیکی پارٹی کےدفتر میں۔جہاں بھر پور سیاسی بحثیں ہوتیں اور اس کا سیاسی تجزیہ سب کو بے بس کر دیتا
وہ ایک سچا اور کھرا انسان تھا اس نے کبھی اپنے نظریے سے نہ انحراف کیا اور نہ مفاہمت کی
اس کی ایک شناخت اس کا قہقہ بھی تھا جو قدرت نے اسے ودیعت کیا تھا وہ ہر بات کے خاتمے پر ایک طویل قہقہ لگاتا۔
استاد محمود نظامی تجھے سرخ سلام اور خدا حافظ ۔مرشد۔آوارہ گردی میں اتنی دور جانے کی اجازت نہیں ہوتی

اسلم رسول پوری کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author