نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اچھے عشاق و برے عشاق || عادل علی

اسے مکافات عمل ہی کہا جاسکتا ہے جو لوگ کل کو انہی لوگوں کے درد میں گھلے جا رہے تھے وہ ہی آج اپنے انہی معصوم بچوں کو دہشتگرد قرار دیے جارہے ہیں۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ مجھ پہ کفر کے فتوے لگیں تو ایک بات تو پہلے ہی واضح کردوں کہ نہ تو میں قادیانی ہوں نہ میں کسی بیرونی ایجنڈے کا آلہ کار ہوں نہ میں کسی فرقے یا جماعت کا نمائندہ ہوں۔
الحمداللہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ﷺ میں مسلمان بھی ہوں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ میرے بھی آخری نبی ہیں اور میں ختم نبوت کے عقیدے پہ بھی مکمل ایمان رکھتا ہوں اور کسی طرح سے اس بات کے حق میں بھی نہیں ہوں کہ ناموس رسالت پہ کسی بھی قسم کا کوئی بھی سمجھوتا کیا جائے۔
اب آئیے کام کی بات کی طرف !
بات کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے نہ لوگوں کی ذہنوں سے فیض آباد کے دھرنوں کی یادیں مٹی ہیں اور نہ لوگ اس دوران پیدا ہونے والے حالات اور واقعات بھولے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ تحریک احرار سے لے کر تحریک لبیک تک اور اس بیچ کبھی ایم کیو ایم، حقیقی، امن کمیٹی جیسی سیاسی و لسانی تنظیمیں اور کچھ مذہبی شدت پسندوں کے گروہ جن میں جیش محمد وغیرہ اور ایسی کئی اور تنظیمیں جن کے ناموں سے لشکر کا لفظ جڑا ہوا تھا یہ سب انہی کے ہاتھوں اپنے انجاموں کو پہنچیں جنہوں نے انہیں تخلیق کیا تھا۔
ایسے سیٹ اپ ہمیشہ کسی نہ کسی کو اپ سیٹ کرکے ڈی سیٹ کرنے کے لیے ہی قائم کیے گئے اور جب جہاں کسی کی طاقت کا پلڑہ بھاری ہونے لگا تو کسی نہ کسی گروہ کو مساوی طاقت فراہم کر کے طاقت کے نظام کو متوازن کر لیا گیا۔
ایک دوسرے سے لڑوا کر عوام کو الجھا کر اپنے مظموم عزائم کی تکمیل تک تو معاملہ ٹھیک تھا پر تحریک لبیک والا معاملہ کچھ یوں ہوا کہ آبیل مجھے مار والی بات ہوئی۔
چند سال قبل جن کی کوئی شناخت تک نہ تھی وہ لوگ ایک دم سے تحفظ نبوت کے سب سے بڑے علمبردار بن بیٹھے اور ریاست نے انہیں اپنی اولاد تصور کیا یہاں تک کہ اپنے لوگوں پہ طاقت کے استعمال سے بھی گریز کیا! انہیں محفوظ پڑاو بھی کرنے دیا گیا اور تو اور مقصد نکلنے کے بعد گھروں کو واپسی کے لیے کرائے تک فراہم کیے گئے وہ بھی اس یقین دہانی کے ساتھ کہ کیا ہم آپ میں سے نہیں ہیں؟
حالیہ وزیر اعظم اس وقت لبیک لبیک کی صدائیں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ لوگ معصوم ہیں حکومت ان پر جبر و ستم بند کرے جبکہ موجودہ وزیر داخلہ صاحب اپنے الیکشن بینرز پہ لکھوایا کرتے تھے محافظ ختم نبوت!
الغرض کہ تحریک انصاف نے الیکشن جیتنے کے دوران ہر طرح سے ختم نبوت کے کارڈ کو استعمال کر کے سیاسی فائدہ اٹھایا۔
یہاں تک کہا گیا کہ کیا آپ غداران ختم نبوت والوں کو ووٹ دینگے؟
تو بات یہ ہے کہ اب وہ تمام وزراٗ، حکمران بمع ریاستی اداروں کے اپنے ہی بچوں پہ غداری کے الزام کیوں لگاتے پھر رہے ہیں؟
جبکہ انہیں دودھ پلا کر پال پوس کر بڑا تو آپ ہی نے کیا تھا.
کیا ہوا جو وہ ایک ایسے اژدھے کا روپ اختیار کر گئے کہ اب آپ کے اپنے سنبھالنے سے بھی نہیں سنبھل رہے کیونکہ انہیں بلاوہ تو حضور ہربار آپ کی ہی طرف سے دیا جاتا رہا ہے اپنے آپ تو وہ اپنی جگہوں سے ہلنے سے بھی رہے ہاں بس اتنا ہے کہ پچھلی ہر بار ہدف کوئی اور تھا اور اس دفع ہدف موجودہ حکومت ہے.
اسے مکافات عمل ہی کہا جاسکتا ہے جو لوگ کل کو انہی لوگوں کے درد میں گھلے جا رہے تھے وہ ہی آج اپنے انہی معصوم بچوں کو دہشتگرد قرار دیے جارہے ہیں۔
تنظیمی سرپرست اعلیٰ سرکاری مہمان خانے میں ہیں جبکہ عام عوام کو عشق رسول ﷺ میں جان پر صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے سڑکوں پر سنگین تشدد کا نشانہ بنانے سمیت شہید تک کیا جا رہا ہے۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی ہر معاملہ بھارت پر ڈال دیے جانے والی رسم اب بھی برقرار ہے اور کہنے والے شاید یہ بھول گئے ہیں کہ پچھلی بار لفافے کس نے بانٹے تھے۔
حقیقت میں آنکھیں اب اس بھولی عوام کو کھولنی پڑینگی جو ہر بار ان کا آلہ کار بنتی چلی آرہی ہے اور نقصان در نقصان اٹھائے جا رہی ہے۔۔ سوچیے۔۔ اسی میں آپ کی بہتری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

About The Author