جب آپ کے سامنے کوئی بھکر شھر کا نام لیتا ہے تو آپکے دل و دماغ میں کرنے کے پھول کی خوشبو مہکنے لگتی ہے اس کی وجہ اس شھر کی سوغات کرنے کا تیل ہے ۔
میرے لاھور کے دوست دو چیزوں سے واقف نہیں تھے ایک ڈیرہ اسماعیل خان کا سوہن حلوہ اور دوسرا بھکر کا کرنے کا تیل۔ جب لاھوری دوستوں کی محفل میرے کمرے میں جمتی تو ایک بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی ہوتی اور دوست مجھ سے پوچھنے لگتے یہ کہاں سے آ رہی ہے۔
میں ان کے سامنے کرنے کے تیل کی ایک خوبصورت بوتل رکھ دیتا کہ وہ خود دیکھیں اور وہ اس خوشبو بھرے تیل کو ہاتھوں پر لگانے لگتے۔
بھکر کا یہ مشھور تیل برسوں سے ہمارے گھروں میں موجود تھا کیونکہ جو بھی بھکر آتا جاتا وہ یہ تیل ضرور ساتھ لاتا۔ میرا لاھور آنے جانے کا راستہ بذریعہ ٹرین دریا خان سے ہو کر جاتا تھا۔ لیکن جب خان بس سروس شروع ہوئی تو بھکر کا بس سٹینڈ ہمارا ٹھکانہ بنا اور پھر یہ نیو خان بس سروس بن گئی اور ڈیرہ۔دریا خان پل بننے کے بعد ہمارے شھر ڈیرہ میں نیو خان نے ایک بڑا بس سٹینڈ بنا لیا جو آج تک چل رہا ہے۔
ماضی کے دور میں میانوالی اور بھکر ڈیرہ ڈویژن سے منسلک تھے پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ یہ ہم سے علیحدہ کر دیے گیے مگر صدیوں پرانے دلوں کے رشتے تو ٹوٹ نہیں سکتے۔
جب گومل یونیورسٹی بنی تو بھکر کے طلبا و طالبات ہمارے ساتھ پڑھنے لگے اور ڈیرہ دریا خان پل بنا تو بھکر کے لوگ کپڑوں اور زیورات کی خریداری کے لیے ہماری مارکیٹوں میں نظر آتے کیونکہ باڑے کا غیرملکی کپڑا۔برتن اور سامان یہاں مل جاتا تھا۔
اس وقت بھکر میں اچھے ہسپتال نہیں بنے تھے تو بھکر کے لوگ علاج کے لیے بھی یہاں آنے لگے۔ریڈیو پاکستان ڈیرہ کی نشریات شروع ہوئیں تو اس ریڈیو کے سرائیکی پروگرامز ڈیرہ سے زیادہ ضلع بھکر میں سنے جاتے اور پھر بھکر کو ریڈیو پاکستان نے باقاعدہ اپنے کوریج ایریا میں شامل کر لیا۔
بھکر کی ثقافتی سرگرمیاں یہاں سے نشر ہونے لگیں۔ بھکر کے ممتاز ادیب ۔شاعر صحافی نجف علی شاہ بخاری تو ہمارے ساتھ ایسے جڑے کہ وہ ریڈیو کے ہو کے رہ گیے اگرچہ آجکل وہ اسلام آباد میں تعینات ہیں لیکن ڈیرہ ریڈیو ان کی پہچان بن گیا۔
آجکل بھکر کی سرگرمیاں ناصر رضا پروڈیوسر کور کرتے ہیں۔ ریڈیو ڈیرہ کے ابتدائی دنوں میں ہمارے کنٹرولر اور سینئر براڈکاسٹر عمر ناصر صاحب ہمارے تلفظ کو ٹھیک کرنے پر بہت زور دیتے تھے۔
ہم میں اکثر لوگ بھکر کو بالہجہ سکھر اکثر بکھر پڑھتے تھے مگر ناصر صاحب سختی کرتے کہ بھکر کو اصلی طریقے سے پڑھا جاۓ بس پھر کیا تھا ہمارے نیوز ریڈرز کنول بخاری۔ آمنہ نقوی۔ محمد خالد۔ نیاز حسین زیدی۔ محمد عاشق ۔جلیل بلوچ ۔زکوڑی صاحب سب کی خبریں پڑھنے سے پہلے تلفظ ٹھیک کرنے کی کلاس لگتی۔
مجھے آج تک اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ بھکر شھر میں کیا رومانس ہے کہ میں جب اس شھر سے گزرتا ہوں تو میرے دل و دماغ پر ایک رومانٹک وجد طاری ہو جاتا ہے ۔
اس شھر کے کچے کا علاقہ دل میں کھب جاتا ہے اور تھل کے ریت کے ٹِیلوں کے سرابوں میں مجھے ہرنیاں چوکڑیاں بھرتی نظر آتی ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کی جائےپیدائش بھی بھکر ہے کیونکہ ایران سے ایک قافلہ یہاں سے گزر رہا تھا اور وہ یہاں کچھ دن کو ٹہرا اور ملکہ نورجہان کی پیدائش یہاں ہوئی۔
ملکہ نورجہاں کا اصل نام مہرالنسا تھا بعد میں وہ نور جہاں بنیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک شاعر جب مقبرہ نور جہاں دیکھنے لاھور گئے تو وہاں کی خاموشی اور ویرانی کو دیکھ کر یہ شعر کہا تھا:
دن کو بھی یہاں رات کی تاریکی کا سماں ہے ۔۔
کہتے ہیں کہ یہ آرام گاہِ نورِ جہاں ہے۔
مغل بادشاہ ہمایوں نے بھکر میں ایک تاریخی دلکشا باغ بنوایا تھا جبکہ قصر زینبؓ یہاں کی ایک مشھور مذھبی عمارت ہے۔
ہمارے ڈیرہ کے ایک ممتاز ماہر تعلیم ریاض انجم صاحب اور ہمارے دوست مشتاق حسین شاہ صاحب بھی اس خوبصورت شھر میں آباد ہیں۔
ریاض انجم صاحب فوٹو بنانے کے ماہر ہیں اس لیے بھکر کے خوبصورت مناظر ہمارے سامنے لاتے رہتے ہیں۔
دریا کے بیٹ کے علاقے میں اب اس طرح تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے کہ ایک دن ڈیرہ بھکر اس طرح مل جائینگے جیسے شیخوپورہ لاہور سے مل چکا ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ