گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کل مردان سے ایک نئی شائیع شدہ کتاب ۔۔ابی و مرشدی ۔۔کے ٹائیٹل سے موصول ہوئی جو دراصل ہمارے دور کے ایک جید عالم دین مولانا سید محمد امین الحؒق مرحوم کی سوانح حیات ہے ۔یہ سوانح حیات ان کی صاحبزادی محترمہ ذکیہ طورو نے لکھی ہے جو خود تعلیمی ادارے میں پرنسپل رہ چکی ہیں۔ مولانا امین الحق دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل عالم تھے اور مولانا انور شاہ کاشمیرؒی کے شاگرد خاص۔ پھر وہ حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علیؒ لاھوری صاحب کے خلیفہ مجاذ بھی تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سید امین الحق صاحب مسلم لیگ شیخوپورہ کے صدر کی حیثیت سے مارچ 1940 میں قرار داد پاکستان کے اعلان میں شریک ہوئے۔ طورو ضلع مردان میں پیدا ہونے والا یہ عالم چالیس پینتالیس سال جامع مسجد شیخوپورہ میں خطابت کے جوہر دکھاتا رہا۔ سید امین الحق 1904 میں طورو مردان پیدا ہوئے ۔ابتدائ تعلیم مردان حاصل کی اور 1918 میں دارلعلوم دیوبند میں داخلہ لیا ۔ وہاں سے 1926 میں سند لے کر واپس لوٹے ۔1929 میں شیخوپورہ کے ڈپٹی کمشنر نواب سعیداللہ کی خواہش پر شیخو پورہ میں خطابت شروع کی اور پھر کچھ وقفوں کے ساتھ 45 سال ادھر ہی خطیب رہے۔
آپ 29 اگست 1981 کو اپنے قصبے طورو مردان میں انتقال کر گیے۔
یہ جو میں نے اس کالم کا عنوان۔راوی کے سینے میں اباسین ۔۔رکھا ہے یہ دراصل اپنے پیارے دانشور دوست مصنف اور ممتاز شاعر مشتاق الرحمان شفق کی نظم سے لیا ہے جو انہوں نے سید امین الحق ؒ کی وفات کے موقع پر پشتو میں لکھی تھی۔ انہوں نے لکھا مولانا شیخوپورہ میں پختونوں کی روایات کے ایسے آئینہ دار تھے جیسے دریاے سندھ دریائے راوی کے سینے پر موجزن ہو۔
مولانا امین الحق لڑکیوں کی تعلیم کے بہت سپورٹر تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی صاحبزادی ذکیہ طورو پڑھ لکھ کر پرنسپل بنیں اور مولانا کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیےیہ کتاب لکھی۔ ذکیہ طورو نے مجھے اسلام آباد مولانا کی لکھی کتاب تذکرة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بھیجی تھی جسےپڑھ کر میں نے تبصرہ لکھا تو وہ تبصرہ بھی اس کتاب کے ص 53 پر درج ہے۔ پرانی بات ہے جب مولانا امین الحق شیخوپورہ میں خطیب تھے تو وہاں ایک خالی پلاٹ پر مسلمانوں کے دو مسالک کا ملکیت پر تنازعہ چلا آ رہا تھا۔دونوں مسالک اس پلاٹ کی ملکیت کے دعوے دار تھے۔ جب جھگڑا طول پکڑنے لگا تو ان لوگوں نے مولانا امین الحق کو منصف بنانا قبول کر لیا اور کہا آپ جو بھی فیصلہ کریں گے قبول ہو گا۔ مولانا نے دونوں فریقین کے دلائیل سننے کے بعد کہا کہ اللہ کے بندو ہماری بچیاں تعلیم کے زیور سے محروم ہیں یہاں ان کا باقاعدہ کوئ سکول نہیں اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ اس جگہ پر بچیوں کا سکول قایم ہو۔ کیونکہ یہ بچیاں کل کی مائیں ہیں اور آنے والی نسلوں کی تربیت کا انحصار انہی کی تربیت پر ہے۔ خدا کے لیے ان بچیوں پر علم کے دروازے کھولنے کا اہتمام کرو ۔دونوں فریقین کی بچیاں اس سکول میں تعلیم حاصل کریں گی اسی میں ہماری بہتری اور کامیابی ہے۔ ان کی اس تجویز کو فورا” قبول کر لیا گیا اور لوگ خوشی سے آپس میں بغلگیر ہو گیے۔ چنانچہ سب لوگوں کی کوششوں سے ایک سکول قایم ہوا جو ایم بی گرلز پرایمری سکول کے نام سےشیخوپورہ کی معروف درسگاہ بن چکی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ پاک مولانا سید امین الحق کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر