عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے قوی امید ہے کہ اب تک پیارے پاکستانیوں کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہو گا کہ امریکہ سے زیادہ بزدل فوج کوئی نہیں اور اس سے زیادہ ڈرپوک جنرل کسی اور فوج میں شاید ہی دستیاب ہوں۔ اس قیاس کے پیچھے رموز یہ ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پرایک وڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک امریکی جنرل جس نے سینے پر ڈھیر سارے تمغے سجائے ہوئے ہیں اور وہ بھیگی بلی بنے چند امریکی سینیٹرز کے روبرو پیش ہے۔ بد زبان سینیٹرز کی جرات تو دیکھیے کہ نہ صرف کہ ایک جنرل سے سوال کر رہے ہیں بلکہ چند ایک نے تو جنرل کی بات کاٹنے کی گستاخی بھی کی، چند بدبخت سینٹرز جنرل صاحب سے اونچی آواز میں بولنے کے گناہ گار بھی ہوئے، ان گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کے باوجود وہ بزدل جنرل نہ صرف تحمل سے رندھے گلے کے ساتھ ان دو ٹکے کے سینیٹرز کے گستاخانہ سوالات کا جواب دیتا رہا اور حد تو یہ ہے کہ جب ایک بدزبان سینٹر نے نعوذ باللہ جنرل صاحب سے استعفے کا مطالبہ کیا تو بھی جنرل صاحب کو طیش نہیں آیا۔ امریکی تاریخ کے اس نازک موقع پر نہ کسی کا مورال ڈاؤن ہوا نہ اداروں کے احترام کی بحث کا آغاز ہوا۔ نہ ملکی سلامتی خطرے میں پڑی، نہ ہی کسی نے سینیٹرز کی کرپشن کے راگ عوام الناس کو سنوائے۔
کیا فائدہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور فوج کے جنرل ہونے کا، کیا فائدہ تمغوں سے بھری چھاتی کا، کیا فائدہ اتنی طاقت، اسلحے اور انٹیلی جنس کا، جب ایک جنرل ان سینیٹرز کا منہ توڑ جواب نہ دے سکے، ان کو جمہوریت کے سبق کا عبرت ناک انجام نہ بتا سکے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ نہ صرف امریکی فوجی بزدل ہیں بلکہ ان میں دور اندیشی، جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ اس وڈیو کو آئے کئی دن بیت گئے ابھی تک کسی ایک سینیٹر کی بھی کوئی نازیبا وڈیو منظر عام پر نہیں آئی، ابھی تک ان شبینہ داستانوں کے قصے میڈیا پر زبان زد عام نہیں ہو سکے، ابھی تک کسی سینیٹر نے شمالی علاقہ جات کی سیر نہیں کی، ابھی تک کسی کی بیوی، بیٹی کا کوئی سیکنڈل سوشل میڈیا کو گرما نہیں رہا۔ یہ بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ تھڑ دلی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ فرائض سے غفلت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کام چوری نہیں تو اور کیا ہے؟
ہم نے امریکہ کو ماضی میں بہت سبق سکھائے ہیں۔ انھیں اسباق کے آموختے کی بازگشت اب امریکی سینٹ میں سنائی دی جا رہی ہے، بائیس سینیٹرز اکٹھے ہو کر ہمارے ماضی کی جارحانہ اور حکیمانہ حکمت عملی پر بحث کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سنا ہے ہمارے جذبہ ایمانی سے لبریز افغان جہاد پر خرچ ہونے والی رقم پر بھی ”رسیداں کڈو“ کا نعرہ لگانے کو تیار ہیں، اس طرح کی گفتگو بزدل قوموں کی نشانی ہے، ہمارے ہاں کسی کی ایسی جرات نہیں کہ کسی حاضر سروس جنرل سے تو کجا کسی ریٹائر جنرل سے بھی ایسا احمقانہ سوال کر سکے، ہمارے ہاں اپنے جرنل اتنے دلیر اور شجیع ہیں کہ ان سے نہ سینٹ میں سوال کرنے کی کسی کو جرات ہوئی، نہ اسمبلیوں کے اراکین کو کبھی اتنی ہمت ہوئی ہے، نہ عدالتیں اس کفر کی کبھی مرتکب ہوئی ہیں، نہ میڈیا سے کبھی ایسی گستاخی سرزد ہوئی۔ حالاں کہ اس کے لیے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بس رعب داب، شو شا ہی کافی ہوتی ہے، اکثر تو ”دبکا“ لگانے سے ہی کام بن جاتا ہے۔
نواز شریف کے مطابق 1999 ء میں بارہ افراد بندوقیں تانے ان کے بیڈروم میں داخل ہوئے۔ ان بارہ جوانوں کی دلیرانہ قیادت جنرل محمود اور جنرل اورکزئی کے سپرد تھی، ان بہادر جوانوں نے اپنی قیادت کے ہمراہ ملک منتخب وزیر اعظم سے استعفی مانگا اور بس اسمبلیاں توڑنے کا معمولی سا مطالبہ کیا۔ نواز شریف کو دلیری کے اس شان دار مظاہرے کے بعد اسمبلیاں توڑ دینی چاہیں تھیں، وزارت عظمٰی سے فی الفور دستبردار ہو جانا چاہیے تھا مگر میاں صاحب ضد پر آ گئے اور ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگا دی۔ بہادر اور دلیر لوگ پہلے ہی اس مرحلے کی منصوبہ بندی کر چکے تھے۔ نواز شریف کو جیل میں ڈالا، ہائی جیکنگ کا مقدمہ کھڑا کیا، وطن بدر کیا اور جنرل مشرف جیسے سورما کو عنان حکومت سونپ دیا۔ بس پھر کیا تھا ایک معجزے سے عدالتیں بھی راہ راست پر آ گئیں، میڈیا بھی سر بسجود ہو گیا، اسمبلی بھی تحلیل ہو گئی، صدر مملکت نے بھی ایوان صدر سے رخصت چاہی، پی ٹی وی نے مٹھائیاں تقسیم کرنے کے وڈیو چلائی، آئین ردی کی ٹوکری میں گیا اور ”جاگ اٹھا ہے پاکستان“ کے ایمان افروز نغموں سے پی ٹی وی گونج اٹھا۔
بس یہی معمولی سی بات امریکہ کے بزدل جنرلز کو سیکھنی چاہیے کہ حکمت عملی، منصوبہ بندی اور جنگی چالوں سے لمحوں میں سویلین بالادستی جیسی فروعی چیزوں کا نقشہ بدلا جا سکتا ہے، بارہ مسلح لوگوں سے انقلاب لایا جا سکتا ہے، آئین کو ردی کی ٹوکری کے سپرد کیا جا سکتا ہے، عدالتوں کو من مانے فیصلوں پر مجبور کیا جا سکتا ہے، میڈیا کو وٹس ایپ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، سیاست دانوں کو مصلوب کیا جا سکتا ہے، ذرا سی جرات سے ان کی وطن بدری کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ لیکن لگتا ہے امریکی جنرل بزدل ہونے کے ساتھ کام چور بھی ہیں، جو ہمارے ہاں ہوتا ہے اس میں پڑتی ہے کچھ محنت زیادہ، اس میں دور اندیشی درکار ہوتی ہے، برسوں ڈرائنگ رومز میں منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے، کہیں دور نہاں خانوں میں سینکڑوں دفعہ کی گئی ریہرسل درکار ہوتی ہے، امریکی جنرل ابھی تک اس محنت شاقہ سے کترا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹکے ٹکے کے سینیٹرز ان کے منہ کو آتے ہیں، ان کو احتساب سے ڈراتے ہیں، ان سے حساب مانگتے ہیں۔
ہم سے تو آج تک یہ گناہ سرزد نہیں ہوا کہ کسی فوجی آپریشن کا حساب مانگیں، کتنے خرچ ہوئے، کتنے بچ گئے، اس پر سوال پوچھیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کی مد میں کیا وصول پایا، کیا خرچ ہوا، ٹڈی دل کی روک تھام میں ”کھاتے“ کیا بتاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے ہم بنیے تھوڑی ہیں جو حساب کتاب رکھتے، ہمارا کام جنگ کرنا ہے چاہے وہ آئین سے ہو، چاہے وہ عوامی نمائندوں سے ہو یا چاہے اس کا ”ٹارگٹ“ اپنے ہی عوام کیوں نہ ہوں۔ ہمارے جرنیلوں کو کیا لگے اس دنیاوی حساب کتاب سے، وہ تو جذبہ ایمانی سے لبریز، شوق شہادت میں مارشل لاء لگاتے ہیں، جان ہتھیلی پر رکھ کر سرینا ہوٹل سے شاپروں میں فیصلے لے کر آتے ہیں، میڈیا کے ایک ایک فریم پر نظر رکھنے کا دقیق فریضہ سر انجام دیتے ہیں، غدار صحافیوں کے ٹویٹس کی مانیٹرنگ کرتے ہیں، اپنے خرچوں پر بد زبانوں اور گستاخوں کو شمالی علاقہ جات کی سیر کرواتے ہیں۔
ہمارے لوگوں کو امریکی جرنیلوں کی اس قبیح مثال سے متاثر ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جناب والا۔ آپ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہیں، یہ وطن آپ کا ہے، آپ کے لیے ہی بنا ہے، یہاں کسی کی جرات نہیں کہ آپ سے سوال کر سکے، یہاں حکومت بھی آپ کی منشا کے بغیر سانس نہیں لیتی، اپوزیشن بھی آپ کا دل لبھانے کے بہانے تلاش کرتی ہے، سینٹ بھی اپنے چیئرمین کے انتخاب کے لیے آپ کی مرہون منت ہے، عدالتیں بھی آپ کے آگے سرنگوں ہیں۔ میرا مشورہ تو اس ملک کے اصل حکمرانوں کو یہی ہے کہ حضور آپ کا اقبال بلند ہو! آپ یہ آئین وغیرہ کی بحث میں نہ پڑا کریں، بائیس کروڑ خدام کو آپ کا ہر فیصلہ منظور ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر