دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر راجہ یاسر ہمایوں سرفراز سے گفتگو||نعیم مسعود

رینکنگ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ فائدہ مند رینکنگ وہ جس کی ریسرچ معیاری ہو اور وہ بولتی ہے، اور یہ اعداد و شمار کی جادوگری والی رینکنگ کسی کام کی نہیں، اور نہ یہ چھپتی ہے۔

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*پنجاب ایچ ای سی کا فائدہ نہیں انٹرنیشنلزم اور کوالٹی کے لئے ایچ ای سی پاکستان کافی ہے * : *راجہ یاسر ہمایوں *

*وزیراعظم سے ہائیر ایجوکیشن پر بات ہوتی رہتی ہے وہ میرٹ کے متمنی ہیں *
*وائس چانسلرز میرٹ پر بھرتی کیے ، ٹریننگ کا فقدان ہے، ریسرچ پر توجہ نہ دے سکا*

*پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا بل اسمبلی سے پاس بھی ہو جائے تو انہیں بنیادی ڈھانچہ پورا کیے بغیر اجازت نہیں ہوگی، راستے میں لاء کھڑا ہے *

*تین سالہ دور میں 15 سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن بدلے اور کام متاثر ہوا* : *وزیر برائے اعلیٰ تعلیم*

لاہور ( ) اصلاحات کی ضرورت ہے ورنہ تعلیمی نظام درست ہونا ممکن نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان پنجاب کی ہائیر ایجوکیشن کے حوالے سے فکرمند ہیں، بہتری اور میرٹ چاہتے ہیں، میری ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور وہ گائیڈ بھی کرتے ہیں ان باتوں کا اظہار پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے معروف کالم نگار اور ممتاز ماہر تعلیم نعیم مسعود سے ایک گفتگو میں کیا۔ راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کا یہ بھی کہنا تھا کہ وائس چانسلرز میں نیت کی کمی نہیں تاہم تربیت کی کمی ہیں۔

انہیں کم ازکم اپنا ایکٹ تو پڑھنا چاہیے۔ جن وائس چانسلرز نے محنت کی وہ درست ہو گئے۔ اس حوالے سے انہوں نے وومن یونیورسٹی فیصل آباد کی ایک مثال بھی دی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ پنجاب کی ایچ ای سی بے مقصد ہے صرف ایچ ای سی پاکستان کو کام کرنا چاہیے کیونکہ بین الاقوامیت اور کوالٹی ایجوکیشن کے تقاضے ہیں کہ ایک قومی جذبہ اور ایک قومی ادارہ ہو جو قومی ریسرچ اور تعلیم کو قوم کے لئے آگے لے کر چلے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کل چونکہ چیئرمین پنجاب ایچ ای سی کوئی نہیں چنانچہ ضروری ہے سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ہی قائم مقام چیئرمین ہو۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کمیشن ہی کے کسی ممبر کو کیوں نہ قائم مقام چارج دے دیا جائے تو ان کا دو ٹوک موقف تھا کہ اس صوبائی ایچ ای سی کا کوئی فائدہ نہیں۔ واضح رہے کہ سندھ اور پنجاب ہی نے اپنی ایچ ای سی 18 ویں ترمیم کے تحت بنائیں بلوچستان نے وسائل کی کمی کا کہا اور کے پی کے کا کہنا تھا کہ مرکزی ایچ ای سی پی کافی ہے چونکہ کے پی کے کرتا دھرتا بانی چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمن ہیں اور ان کے مطابق بھی بھی صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن نقصان دہ ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے تین سال میں 15 سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بدلے، آپ کا قصور ہے یا اس میں سیکرٹریوں کا قصور؟ ان کا کہنا تھا کہ میرے سب سیکرٹریز اچھے تھے مجھے کسی پر اعتراض نہیں رہا نہ ان کو مجھی پر اعتراض رہا۔ اس پر نعیم مسعود نے کہا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنے سیکرٹری کیوں بدلے اور آپ سے مشاورت بھی نہیں ہوئی تو گڑبڑ کہاں ہے؟ نعیم مسعود کا اشارہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب تھا مگر راجہ یاسر اس کا جواب دینے کے موڈ میں نہ تھے تاہم نعیم مسعود نے پھر دہرایا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس آپ سے بغیر پوچھے بدل دیتا ہو گا۔

جس کا واضح جواب راجہ یاسر نے دانستہ نہ دیا۔ وہ بیوروکریسی کا دفاع کرتے رہے مگر ایک یونیورسٹی کی مثال دی گئی کہ آخر وہاں ایک وی سی ایڈیشنل چارج کے ساتھ کام کر رہا ہے جو کہ تین ماہ کی منظوری تھی جب ابھی مستقل وی سی کی تعیناتی نہیں ہوئی تھی، تو بیوروکریسی کو چاہیے تھا مزید تین ماہ کی ایڈیشنل منظوری آٹومیٹیکلی دے دیتی ایک لمبے عمل میں متذکرہ یونیورسٹی کا دو ہفتوں سے کوئی والی وارث نہیں مزید کتنی دیر لگے؟

یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ اس پر راجہ یاسر کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق چانسلر آفس سے ہے۔ گویا بیوروکریسی کو وہ پھر بچا گئے۔ اس سوال پر کہ آپ کا وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ورکنگ ریلیشن کیسا ہے، تو وزیر برائے اعلیٰ تعلیم پنجاب کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے کم پالا پڑتا ہے مگر گورنر صاحب سے ورکنگ ریلیشن ٹھیک ہے۔

راجہ یاسر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 2009 کے ایکٹ والی یونیورسٹیوں کا بہت سا کام ابھی باقی تھا جسے کافی حد تک کر لیا تاہم نئی آنے والی یونیورسٹیوں کو اب ان سے ملا کر چلیں گے۔ چکوال یونیورسٹی کو وینیو کے لحاظ سے انہوں نے مستقبل کی ایک بہترین یونیورسٹی قرار دیا۔ کوہسار یونیورسٹی مری سے بھی وزیر راجہ یاسر کی بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں تاہم انہوں نے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان کی بنیادوں، جلد سیکھنے اور ٹریک پر آنے کو خوش آئند قرار دیا اس پر نعیم مسعود کا کہنا تھا کہ اس کا سہرا سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے سر ہے۔

سیاسی حوالے سے تذکرہ کرتے ہوئے راجہ یاسر کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے بل منظور ہونے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قاف لیگ ہماری حلیف ہے اور نون لیگ حریف کہیں دونوں مل کر اسمبلی میں یونیورسٹیوں کے بل منظور کرانے میں ایک صفحہ پر ہوجاتی ہیں مگر کام وہی یونیورسٹی کرے گی جس کے لوازمات پورے ہوں گے۔

راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کا کہنا تھا کہ ایسی ریسرچ کا کوئی فائدہ نہیں جو انڈسٹریل لنک میں مدد نہ دے خالی پیپر چھاپنا فائدہ مند نہیں۔ یونیورسٹی اساتذہ اور وائس چانسلرز کو سیاست کے بجائے ریسرچ کرنی چاہیے۔

رینکنگ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ فائدہ مند رینکنگ وہ جس کی ریسرچ معیاری ہو اور وہ بولتی ہے، اور یہ اعداد و شمار کی جادوگری والی رینکنگ کسی کام کی نہیں، اور نہ یہ چھپتی ہے۔

راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا مقصد ہائیر ایجوکیشن کا قبلہ درست کرنا ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر ہائیر ایجوکیشن کا بیڑا اٹھایا ہے گویا ہائیر ایجوکیشن میں بہتری لانا میرا ذوق ہے اور مقصد بھی پس میری سیاست مشنری ہے محض چوہدراہٹ کے حصول والی نہیں۔ جتنا بھی وقت ملا اس کو بہتر کروں گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میرا شوق انفارمیشن ٹیکنالوجی تھا اور میں امریکہ میں رہ کر کروڑوں کما سکتا تھا مگر میں نے قوم اور تعلیم کو فوقیت دی مال و زر کو نہیں

راجہ کا یہ بھی کہنا تھا میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن علاقائی سیاست کے سبب پنجاب اسمبلی تک پہنچا اور مطمئن ہوں میرے دادا بھی رکن رہے مگر والد صاحب سیاست سے دور رہے میں اور دادا کی لیگیسی میں واپس آیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ ممبر قومی اسمبلی راجہ ریاض کو اپ پی ٹی آئی میں لائے یا راجہ ریاض آپ کو پی ٹی آئی میں لائے، تو راجہ صاحب نے بتایا کہ فیصل آباد سے پیپلز پارٹی کے سابق سینئر وزیر پنجاب راجہ ریاض رشتے میں میرے ماموں بھی ہیں اور چچا بھی کیونکہ میرے والدین کے وہ کزن ہیں۔

مگر نہ وہ مجھے تحریک انصاف میں لائے نہ میں لایا۔ میں عمران خان کی باقاعدہ دعوت سے پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا۔ جب راجہ صاحب سے پوچھا گیا کہ شروع میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے والوں میں آپ کا بھی نام تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت نہیں معلوم تھا اور نہ میرا تجربہ تھا اس پر نعیم مسعود کا کہنا تھا کہ، معلوم تو سردار عثمان بزدار کو بھی نہیں تھا کہ ان کی لاٹری نکل آئے گی اور نہ انہیں ہی کوئی تجربہ تھا۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

About The Author