ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرائیویٹ پریکٹس ایک گورکھ دھندا ہے جو تین لوگوں کے مفاد کے گرد گھومتا ہے، ہسپتال، ڈاکٹر اور مریض۔
بدقسمتی سے مفاد کی ترتیب بھی یہی رہتی ہے۔
ہسپتال نے سہولت تو فراہم کرنی ہے لیکن ہر حال میں منافع بھی کمانا ہے سو مریض کے سر سے پاؤں تک غیر ضروری ٹیسٹ کروانے کی ہدایت اکثر و بیشتر جاری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے اپنی مہارت، قابلیت اور وقت فروخت کرنا ہے سو اسے ہر حال میں مریض نامی خریدار ملنے چاہئیں۔ گھر سے نکل کر ہسپتال پہنچنے والے پریشان حال مریض کی تمنا بہترین علاج سے شفا یاب ہونا ہے۔
اگر مریض کے لئے سب اچھا رہے تو زیادہ تر باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ معاملہ یوں الجھتا ہے جب ان سب کے مفاد ایک دوسرے میں الجھ کر سیاہ و سفید رہنے کی بجائے دھندلا جاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کسی ایک کے مفاد پہ ضرب لگ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ ضرب زیادہ تر مریض کے حصے میں آتی ہے۔
مریض کی صحت کے بنیادی سائنسی پہلوؤں سے لاعلمی، اپنے حقوق سے نا واقفیت اور سرکاری ہسپتالوں سے بیزاری وجوہات میں شامل ہیں۔
پرائیویٹ پریکٹس میں تین طرح کے مریض ہمیں دیکھنے کو ملے۔
پہلے وہ جو جنہیں ہماری رائے قطعی طور پہ نہ بھاتی۔ وہ ہمارے کمرے سے نکلتے ہی ہم پہ نفرین بھیجتے اور کبھی ہماری شکل دوبارہ نہ دیکھنے کا عزم کرتے ہوئے روانہ ہو جاتے۔
دوسرے وہ جو ہماری کچھ باتوں پہ ایمان لاتے اور کچھ پہ ڈگمگاتے ہوئے کسی اور ڈاکٹر کی تلاش میں نکل جاتے کہ دوسری رائے لے لی جائے۔
تیسرے وہ جو ہماری ہر بات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرتے اور ہمارے در کے ہو رہتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
جب ہم نے ملک چھوڑا (یوں کہیے کہ "ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا) تو وہ سب بھی وقت کی دھول میں گم ہو گئے۔ لیکن اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان میں سے بہت سے لوگوں نے ہمیں فیس بک پہ ہمیں ڈھونڈا اور بتایا کہ آج بھی ان کی یادوں کی کتاب کے کسی ورق پہ موجود ہیں۔
پرائیویٹ پریکٹس کی سب سے مضحکہ خیز بات مریض کو اس کی بیماری سے خوفزدہ کرنا ہے اور اس ڈرامے کے کرداروں میں ڈاکٹر اور مریض دونوں شامل ہیں۔
انسانی نفسیات کی کجی شاید یہ ہے کہ افسردگی، مایوسی، ڈر اور خوف کسی بھی صورت حال کی اہمیت زیادہ کرتی ہے اور کسی انہونی کی آہٹ لواحقین کو تلخیاں بھلانے اور مریض کی ناز برداری کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
سو اگر ڈاکٹر ہنستے ہنستے، تسلی دیتے ہوئے یہ کہہ دے کہ کوئی مسئلہ نہیں، معمولی بات ہے، تو مریض اور لواحقین دونوں کے منہ اتر جاتے ہیں کہ شاید ڈاکٹر کو تکلیف کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوا اور بیماری کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹر تو سیانا نہیں، چلو کہیں اور چلیں۔
اب اگلے کلینک میں بیٹھا ڈاکٹر یہ رموز سمجھتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ جیسے یہ مریض کی زندگی کی آخری رات ہو۔ مریض کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، رشتے داروں کے لہجے میں شیرینی اتر آتی ہے، دو چار لوگ مریض کو تھام کر یوں چلتے ہیں کہ سمجھیے زندگی اب کچھ گھڑیوں پر ہی محیط ہے۔
اس رام لیلا سے ڈاکٹر کی لیاقت کا رعب سب کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے جس نے بروقت لب گور مریض کو نہ صرف پہچانا بلکہ انہیں بھی صورت حال سے آگاہ کیا۔ مریض خوفزدہ تو ہوتا ہے لیکن لواحقین کی پیار بھری تشویش اور بھرپور توجہ جو پہلے کبھی اس کے نصیب میں نہیں رہی اسے عجیب سا سکون بخشتی ہے۔ لیجیے فیصلہ ہو گیا، انہی ڈاکٹر سے آپریشن کروانا ہے۔
ان کہانیوں کا کھوج مریضوں کی داستان سے ہی پتہ چلتا ہے۔
”وہ جی، ڈاکٹر صاحب نے الٹراساؤنڈ کیا تو پتہ چلا کہ بچے نے پیٹ میں پاخانہ کر دیا ہے۔ بچے کی جان بچانے کے لئے سیزیرین کرنا پڑا“
”کیا بچے کے اردگرد پایا جانے والا پانی اور بچے کی حرکت صحیح تھی؟“
”ہاں جی، بچہ تو یوں لگتا تھا فٹ بال کھیل رہا ہو۔ اتنی زیادہ حرکت، اسی لئے تو پاخانہ نکل گیا“
ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
”وہ جی پیدائش کی تاریخ تو آ گئی تھی، درد نہیں آئے۔ پھر ڈاکٹر نے درد شروع کروانے کے لئے اندر گولی رکھی، پھر بھی کچھ نہ ہوا تو سیزیرین ہو گیا“
”کتنی دفعہ گولی رکھی؟“
”بس ایک دفعہ جی“
ہم اب بھی ٹک ٹک دیدم۔
” بچے کے پانی کی تھیلی تو گھر ہی پھٹ گئی تھی۔ ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے کہا اب یہ بچہ درد کیسے برداشت کرے گا تو پھر سیزیرین ہو گیا“
اب ہم اپنے بال نوچ لیں کیا؟
”دو انچ کی رسولی تھی جی بچے دانی میں۔ ڈاکٹر نے کہا جلدی آپریشن کروائیں، کہیں کچھ ہو نہ جائے“
”کیا کوئی اور تکلیف بھی تھی؟“
”نہیں جی“
بس بس، ہم مزید نہیں سن سکتے۔
”جی بانجھ پن کے علاج کے لئے کوئی دس دفعہ کلومڈ کھا چکی ہوں، چار دفعہ آئی یو آئی کروا چکی ہوں“
”انڈا بننے کا ٹیسٹ کبھی کروایا؟“
”نہیں جی“
یا اللہ، ہم کہاں جائیں؟
”ہم نے آئی وی ایف قرض لے کر کروایا تھا۔ پانچ لاکھ لگ گئے لیکن ڈاکٹر نے نہ تو کچھ بتایا اور نہ ہی رپورٹ دی“
ہم کیا بتائیں؟
”انہوں نے بڑا آپریشن کیا اور کہا کہ جو چیزیں اپنی جگہ سے ہل کر گڈمڈ ہو چکی ہیں، انہیں اپنی جگہ پر لا کر بٹھا دیا جائے تو بچہ ہو جائے گا۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا“
ہم چپ رہتے ہیں۔
اجازت ہو تو اب آپ کو اچھا پروفیشنل ہونے کی نشانی بتائی جائے۔ جان لیجیے جہاں مریض اور ڈاکٹر کے مفاد ٹکرا جائیں اور مریض کا مفاد جیت جائے، وہی ڈاکٹر ایک اچھا پروفیشنل ہوتا ہے۔
لیکن پھر وہی سوال کہ مفاد کے ٹکراؤ کو پہچاننے کا کیا کلیہ ہے اور مریض کے مفاد کو اہمیت دینے کی کیا نشانی ہے؟
بدقسمتی سے مفاد کی ترتیب بھی یہی رہتی ہے۔
ہسپتال نے سہولت تو فراہم کرنی ہے لیکن ہر حال میں منافع بھی کمانا ہے سو مریض کے سر سے پاؤں تک غیر ضروری ٹیسٹ کروانے کی ہدایت اکثر و بیشتر جاری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے اپنی مہارت، قابلیت اور وقت فروخت کرنا ہے سو اسے ہر حال میں مریض نامی خریدار ملنے چاہئیں۔ گھر سے نکل کر ہسپتال پہنچنے والے پریشان حال مریض کی تمنا بہترین علاج سے شفا یاب ہونا ہے۔
اگر مریض کے لئے سب اچھا رہے تو زیادہ تر باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ معاملہ یوں الجھتا ہے جب ان سب کے مفاد ایک دوسرے میں الجھ کر سیاہ و سفید رہنے کی بجائے دھندلا جاتے ہیں اور کہیں نہ کہیں کسی ایک کے مفاد پہ ضرب لگ جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ ضرب زیادہ تر مریض کے حصے میں آتی ہے۔
مریض کی صحت کے بنیادی سائنسی پہلوؤں سے لاعلمی، اپنے حقوق سے نا واقفیت اور سرکاری ہسپتالوں سے بیزاری وجوہات میں شامل ہیں۔
پرائیویٹ پریکٹس میں تین طرح کے مریض ہمیں دیکھنے کو ملے۔
پہلے وہ جو جنہیں ہماری رائے قطعی طور پہ نہ بھاتی۔ وہ ہمارے کمرے سے نکلتے ہی ہم پہ نفرین بھیجتے اور کبھی ہماری شکل دوبارہ نہ دیکھنے کا عزم کرتے ہوئے روانہ ہو جاتے۔
دوسرے وہ جو ہماری کچھ باتوں پہ ایمان لاتے اور کچھ پہ ڈگمگاتے ہوئے کسی اور ڈاکٹر کی تلاش میں نکل جاتے کہ دوسری رائے لے لی جائے۔
تیسرے وہ جو ہماری ہر بات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کرتے اور ہمارے در کے ہو رہتے۔ ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
جب ہم نے ملک چھوڑا (یوں کہیے کہ "ہم نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا) تو وہ سب بھی وقت کی دھول میں گم ہو گئے۔ لیکن اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان میں سے بہت سے لوگوں نے ہمیں فیس بک پہ ہمیں ڈھونڈا اور بتایا کہ آج بھی ان کی یادوں کی کتاب کے کسی ورق پہ موجود ہیں۔
پرائیویٹ پریکٹس کی سب سے مضحکہ خیز بات مریض کو اس کی بیماری سے خوفزدہ کرنا ہے اور اس ڈرامے کے کرداروں میں ڈاکٹر اور مریض دونوں شامل ہیں۔
انسانی نفسیات کی کجی شاید یہ ہے کہ افسردگی، مایوسی، ڈر اور خوف کسی بھی صورت حال کی اہمیت زیادہ کرتی ہے اور کسی انہونی کی آہٹ لواحقین کو تلخیاں بھلانے اور مریض کی ناز برداری کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
سو اگر ڈاکٹر ہنستے ہنستے، تسلی دیتے ہوئے یہ کہہ دے کہ کوئی مسئلہ نہیں، معمولی بات ہے، تو مریض اور لواحقین دونوں کے منہ اتر جاتے ہیں کہ شاید ڈاکٹر کو تکلیف کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوا اور بیماری کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ یہ ڈاکٹر تو سیانا نہیں، چلو کہیں اور چلیں۔
اب اگلے کلینک میں بیٹھا ڈاکٹر یہ رموز سمجھتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ جیسے یہ مریض کی زندگی کی آخری رات ہو۔ مریض کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں، رشتے داروں کے لہجے میں شیرینی اتر آتی ہے، دو چار لوگ مریض کو تھام کر یوں چلتے ہیں کہ سمجھیے زندگی اب کچھ گھڑیوں پر ہی محیط ہے۔
اس رام لیلا سے ڈاکٹر کی لیاقت کا رعب سب کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے جس نے بروقت لب گور مریض کو نہ صرف پہچانا بلکہ انہیں بھی صورت حال سے آگاہ کیا۔ مریض خوفزدہ تو ہوتا ہے لیکن لواحقین کی پیار بھری تشویش اور بھرپور توجہ جو پہلے کبھی اس کے نصیب میں نہیں رہی اسے عجیب سا سکون بخشتی ہے۔ لیجیے فیصلہ ہو گیا، انہی ڈاکٹر سے آپریشن کروانا ہے۔
ان کہانیوں کا کھوج مریضوں کی داستان سے ہی پتہ چلتا ہے۔
”وہ جی، ڈاکٹر صاحب نے الٹراساؤنڈ کیا تو پتہ چلا کہ بچے نے پیٹ میں پاخانہ کر دیا ہے۔ بچے کی جان بچانے کے لئے سیزیرین کرنا پڑا“
”کیا بچے کے اردگرد پایا جانے والا پانی اور بچے کی حرکت صحیح تھی؟“
”ہاں جی، بچہ تو یوں لگتا تھا فٹ بال کھیل رہا ہو۔ اتنی زیادہ حرکت، اسی لئے تو پاخانہ نکل گیا“
ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔
”وہ جی پیدائش کی تاریخ تو آ گئی تھی، درد نہیں آئے۔ پھر ڈاکٹر نے درد شروع کروانے کے لئے اندر گولی رکھی، پھر بھی کچھ نہ ہوا تو سیزیرین ہو گیا“
”کتنی دفعہ گولی رکھی؟“
”بس ایک دفعہ جی“
ہم اب بھی ٹک ٹک دیدم۔
” بچے کے پانی کی تھیلی تو گھر ہی پھٹ گئی تھی۔ ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے کہا اب یہ بچہ درد کیسے برداشت کرے گا تو پھر سیزیرین ہو گیا“
اب ہم اپنے بال نوچ لیں کیا؟
”دو انچ کی رسولی تھی جی بچے دانی میں۔ ڈاکٹر نے کہا جلدی آپریشن کروائیں، کہیں کچھ ہو نہ جائے“
”کیا کوئی اور تکلیف بھی تھی؟“
”نہیں جی“
بس بس، ہم مزید نہیں سن سکتے۔
”جی بانجھ پن کے علاج کے لئے کوئی دس دفعہ کلومڈ کھا چکی ہوں، چار دفعہ آئی یو آئی کروا چکی ہوں“
”انڈا بننے کا ٹیسٹ کبھی کروایا؟“
”نہیں جی“
یا اللہ، ہم کہاں جائیں؟
”ہم نے آئی وی ایف قرض لے کر کروایا تھا۔ پانچ لاکھ لگ گئے لیکن ڈاکٹر نے نہ تو کچھ بتایا اور نہ ہی رپورٹ دی“
ہم کیا بتائیں؟
”انہوں نے بڑا آپریشن کیا اور کہا کہ جو چیزیں اپنی جگہ سے ہل کر گڈمڈ ہو چکی ہیں، انہیں اپنی جگہ پر لا کر بٹھا دیا جائے تو بچہ ہو جائے گا۔ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا“
ہم چپ رہتے ہیں۔
اجازت ہو تو اب آپ کو اچھا پروفیشنل ہونے کی نشانی بتائی جائے۔ جان لیجیے جہاں مریض اور ڈاکٹر کے مفاد ٹکرا جائیں اور مریض کا مفاد جیت جائے، وہی ڈاکٹر ایک اچھا پروفیشنل ہوتا ہے۔
لیکن پھر وہی سوال کہ مفاد کے ٹکراؤ کو پہچاننے کا کیا کلیہ ہے اور مریض کے مفاد کو اہمیت دینے کی کیا نشانی ہے؟
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر