شمائلہ حسین
لیکن جب اس نے مجھ سے اپنا نفسیاتی مسئلہ بیان کیا کہ وہ کسی بڑھتے ہوئے ہاتھ کو جھٹکنے سے خوفزدہ رہتی ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی جنسی ہراسانی کے خلاف اپنا دفاع کرنے سے پہلے اس قدر ڈر جاتی ہے کہ اس کے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل پاتے۔ البتہ وہ اس خوف سے کہ مزید کوئی ایسا واقعہ نہ ہو، اپنے خاندان، دوستوں اور رشتوں داروں کے ہاں جانے سے کترانے لگی ہے۔ جب کہ اس کے والدین اسے اس کے شرمیلے پن سے تعبیر کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹ کا کہنا تھا کہ بچپن سے اس کے والدین اور گھر کے بزرگوں نے ہمیشہ یہ ہی بات سمجھائی کہ بڑوں کو نہ کرنا بری بات ہوتی ہے اور وہ اچھی بچی بننے کی کوشش میں اب کسی معاملے میں انکار کی جرات نہیں کر پاتی۔
اس کے سوال اور اس نفسیاتی الجھن نے مجھے اپنا جائزہ لینے پر مجبور کر دیا کہ کیا کہیں میں بھی تو ایسے ہی کسی ”ہاں‘‘ کے جال میں تو نہیں الجھی ہوئی۔ تو اندازہ ہوا کہ پیشہ وارانہ زندگی کے دس بارہ سال گزارنے کے باوجود بھی میرے اندر انکار کی وہ جرات نہیں آ پائی، جو میری زندگی کے بہت سے پھیلے ہوئے معاملات کو سمیٹنے کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ کتنی ہی ذمہ داریاں اس رویے کی وجہ سے میں اور آپ اپنے کندھوں پر اضافی بوجھ کے طور پر لیے جیتے چلے جا رہے ہیں۔
ہم چاہے جتنا بھی چھپائیں اور اپنی اچھی شہرت کے لیے ”سب اچھا ہے‘‘ کی اداکاری کرتے رہیں، اس حقیت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے کہ ہماری زندگیوں میں گھر کی سطح سے شروع ہونے والی جذباتی بلیک میلنگ سے لے کر جنسی ہراسانی کے واقعات میں بڑوں کی حکم عدولی کے ڈر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
’’بڑوں کو انکار نہیں کرتے‘‘، اس جملے کے ساتھ ہم جس طرح کے روبوٹ پیدا کرتے چلے آرہے ہیں، وہ بھیڑ چال کے عادی بے ہنگم ہجوم میں تو اضافہ کرتے ہیں لیکن اچھے اخلاق سے آراستہ کسی قوم کی تخلیق میں معاون نہیں ہوتا۔
جب آپ کی موبائل، ٹی وی اور کمپیوٹر کی سکرین پر ‘نشے سے انکار، زندگی سے پیار‘
"say no to drugs” یا "Say No to Corruption” کا سلوگن جگمگاتا ہے تو اس انکار کرنے پر اکسانےکا نتیجہ کیوں اور کیسے مل سکتا ہے، جب ہم کسی کے انکار کو اہمیت دینے کو تیار ہی نہیں ہوتے؟
ہم نے بھی بحیثیت قوم اس ”انکار‘‘ کا سافٹ ویئر تمام اچھے اور تعمیری کاموں کے وقت چالو کرنے کا فن سیکھ رکھا ہے۔ جب کہ ہر نقصان دہ رویے کو ہم پرکھوں کی وراثت سمجھ کر سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور اس وراثت کو من و عن اگلی نسل تک منتقل کرتے وقت ہمیں اس خود غرضی کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنے سے چھوٹوں کو ہم اپنا مطیع بنانے کے چکر میں روبوٹ بنا دیتے ہیں۔
انسان ہو یا جانور، جیسے ہی اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے، وہ تمام فنون اور ضروری اعمال اپنے بچوں کو سکھانے کی مکمل کوشش کرنے لگتا ہے، جو اس نے اپنی زندگی میں سیکھے ہوتے ہیں۔ جانور ہے تو شکار کرنا، اپنے آپ کو دشمن سے بچانا اور اپنا ٹھکانہ بنانے یا ڈھونڈنے کی بنیادی مہارتیں سکھاتا ہے، انسان اپنے سماجی رسوم و رواج کے مطابق بچے کو سدھانے کی کوشش کرتا ہے۔
والدین پورا زور لگا دیتے ہیں بچے کو ایک سلجھا ہوا انسان بنانے میں اور اس کوشش میں ہم سب کو سکھایا جاتا ہے کہ ”اچھے بچے بڑوں کی ہر بات مانتے ہیں۔ بڑے ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں، وہ کبھی غلطی نہیں کرتے اور ہمیشہ چھوٹوں کو چاہیے کہ گھر اور خاندان کے بڑوں کی خوشنودی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور ایسا کرتے وقت ان کی عزت نفس اور ذاتی پسند نا پسند کو بھی بہت آرام سے ذبح کر دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
البتہ انہیں بہت کم اور خاص مواقع پر ”نہیں‘‘ کہنا ضرور سکھایا جا تا ہے مگر یہاں بھی آنکھ کی ”گھوری‘‘ اور ابرو کا اشارہ خاص معنی رکھتا ہے۔ اس انکار کا سافٹ ویئر خاص اوقات میں چالو کرنا ہوتا ہے۔ یہ مہمانوں کی موجودگی میں یا کسی کے ہاں مہمان ہونے کی صورت میں ہی کام کر سکتا ہے، اس کے علاوہ اس کی ایکٹویشن پر اکثر وبیشتر والدین کو شدید تحفظات کا سامنا رہتا ہے۔
آپ نے گھر، خاندان، محلے یا رشتے داروں کے کسی بڑے کو ہاتھ لگانے سے منع کیا ہے تو والدین میں سے ہی کوئی کہہ دے گا کہ بیٹا بڑوں کو انکار نہیں کرتے۔ کسی مہمان کے سامنے کچھ کھانے کو نہیں مانگتے، کسی کے گھر جا کے کوئی شرارت نہیں کرتے، کسی مہمان سے روپے نہیں لیتے اور انکار کرتے ہیں لیکن اس انکار کے دوران اماں ابا کی آنکھوں کی طرف دیکھتے رہنا ضروری ہوتا ہے کہ جس لمحے وہاں سے رضامندی کے سگنل موصول ہوں، تب ان روپوں یا تحفوں کو قبول کرنا ہے۔
آپ اپنے بچپن میں جائیں اور یاد کریں کتنی ہی بار اس بات پر اچھی خاصی ڈانٹ پڑی ہو گی کہ کسی بھائی، بہن، انکل یا آنٹی کے ساتھ بیٹھنے، چلنے یا کہیں جانے سے آپ نے انکار کیا تھا؟ بچوں کو خوش اخلاق اور ملنسار بنانے کے چکر میں ہم ان سے ان کے انکار کا حق چھینتے چھینتے اس سطح تک آجاتے ہیں کہ ان کی تعلیم، پہننے اوڑھنے، جاب اور شادی کے معاملات میں بھی ان کی طرف سے ”نہیں‘‘ سننا پسند نہیں کرتے۔
بڑوں کی ہر بات پر ہاں کہنے کا بظاہر جو نقصان دکھائی دے رہا ہوتا ہے، اصل نقصان اس سے بھی کہیں زیادہ منفی اثرات رکھتا ہے۔
آپ اپنے تخیل کے گھوڑے دوڑائیں اور نقصانات کا تخمینہ لگائیں لیکن اس بات کا اندازہ مجھے اس بچی کی شکایت سے ہوا تھا اور بالاخر میں اعتراف کرتی ہوں کہ بات اتنی آسان نہیں، جس قدر دکھائی دیتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر