ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا جھوٹ نہ بلوائے، کم وبیش تیس برس ہو گئے ہسپتالوں میں زندگی بسر کرتے مگر رہے ہم وہی بدھو کے بدھو۔
ہسپتالوں کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں تو وہ اپنے گھر جیسے ہی لگتے ہیں، مہربان، چھتر چھایا کرنے والے، مسیحائی آخر ہم نے وہیں تو سیکھی ہے۔ دیکھیے نا زندگی کا سب سے اچھا وقت پوری توانائی اور محبت کے ساتھ جہاں خرچ کیا جائے وہی چھت تو ہوتی ہے ایسی ساتھی، جو کبھی ہنستے ہوئے دیکھتی ہے اور کبھی روتے ہوئے، کبھی خوش اور کبھی مضمحل، کبھی زندگی سے پیار اور کبھی شکایت کرتے ہوئے۔
لیجیے، وہ بات تو رہ ہی گئی جس پہ ہم نے اپنے بدھو پن پہ خود کو کوسا تھا۔
دیکھیے آج تک تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ لوگ جو زندگی اور موت کی جنگ میں جیتنے کی آس لئے جب ہسپتال کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو آنکھوں کی بجھتی ہوئی جوت پھر سے بڑھنے لگتی ہے کہ شاید یہیں کہیں وہ مسیحا موجود ہو گا جس کے سہارے وہ اپنے پیاروں کے ساتھ اس بے وفا زندگی کے کچھ اور پل جی سکیں۔
دل رک رک کر چلتا ہو یا سانسوں میں آندھی ہو، جگر ساتھ دینے سے انکاری ہویا گردے بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوں، دماغ کا کچھ حصہ بیکار ہو چکا ہو یا ہڈیاں شکستہ ہو کر دہائی دے رہی ہوں، ایسے میں فریادی کی رب سے لو لگ جانا تو سمجھ میں آتا ہے، کہ آس اور امید کا جگنو ٹمٹماتا ہے کہ شاید خالق کچھ مہلت اور دے دے۔
ایسے میں کیا کوئی ذی ہوش یہ سوچ سکتا ہے کہ موت کی سرحد پہ کھڑے یہ سب مریض اس عالم میں بھی اپنی شہوت کے ہاتھوں بے قابو ہو جاتے ہوں گے؟ زندگی کی آخری سیڑھی پہ کھڑے اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی و استغفار کیب جائے مسیحائی کا جام پلاتی لیڈی ڈاکٹر اور ان کے بیمار جسم کی غلاظت میں نالیاں لگاتی نرس کے جسم اور اس کے خطوط پہ اپنی ہوس ناک نظروں سے ایکس رے کرتے ہوں گے؟
واللہ ہم تو اگر ایک جنم اور بھی لیں تو گراوٹ کی اس منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ ڈاکٹری اسباق کے کے اولین سبق کے مطابق تو ویسے بھی مریض محض ایک مریض ہے، مرد و عورت کی تخصیص کیے بنا۔
لیکن ہماری لنکا ڈھانے والے ہیں گھر کے ایک بھیدی ڈاکٹر صاحب، جن کا خیال ہے کہ موت کی چاپ سنتے ہوئے مرد مریض اور یاسین شریف پڑھتے افسردہ رشتے دار عورت کے جسم، لباس اور میک اپ سے کیسے لاتعلق رہ سکتے ہیں؟
شاید انہوں نے غالب کا شعر پڑھ رکھا ہے،
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
آنکھوں میں اترے ہوئے کالے اور سفید موتیے اور رخصت ہوتی بینائی کے ساتھ بھی زعم کا عالم تو دیکھئے، ہائے رے خوش فہمی!
قصہ ہے بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر یونس وڑائچ کی ذہانت کا جو معاشرے کو سدھارنے کا شوق رکھتے ہیں۔ اور بھئی کیوں نہ رکھیں، جب ماضی میں ملک کی اعلی ترین کرسی پہ بیٹھنے والے ہر بیماری کی جڑ عورت اور اس کے لباس میں بتا گئے ہوں اور ان کے نقش قدم پہ چلنے والے حالیہ صاحب بھی اپنی بے شمار کمزوریوں کو عورت کے ظاہری حلیے کی آڑ میں چھپاتے ہوں تو یونس وڑائچ اپنی طاقت اور اختیار کا مظاہرہ ماتحت عورتوں پہ کیوں نہ کریں؟
تو جناب، ڈاکٹر یونس صاحب نے ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے کہ لیڈی ڈاکٹرز اور نرسز ہسپتال کیا پہن کر آئیں گی اور کیا نہیں۔
کہیے کچھ یاد آیا؟ ارے بابائے چادر ضیا الحق کے زریں خیالات ابھی تو آپ کو سنائے تھے۔ ڈاکٹر یونس صاحب یقیناً ہمارے ہم عمر ہی ہوں گے اور اس دور میں ہم نوعمر لڑکیوں کی گت بننے کے عینی شاہد بھی۔ بچپن کی یہ داستان ان کے ذہن پہ نقش تو ہوئی ہو گی اور کئی موقعوں پہ معاشرے کی راستی کا کیڑا دماغ میں کلبلایا ہو گا اور ظاہر ہے کہ عورت کے ظاہری حلیے کو بدلنے سے زیادہ آسان طریقہ تو اور کوئی ہے نہیں۔ کاش ہسپتال کے مالی گوشواروں کی جانچ پڑتال بھی اسی جذبہ ایمانی سے کر لیتے اور غریبوں کے لئے مختص بجٹ کا احساس بھی کر لیتے تو کیا بات تھی؟
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال میں مندرجہ ذیل چیزیں پہننے کی اجازت نہیں ہو گی۔
تنگ لباس، باریک کپڑے سے بنا لباس، آدھی آستینوں والی قمیض، چوڑیاں، جینز، کیپری پاجامہ، گہری لپ اسٹک، کھلے بال، آواز پیدا کرنے والے اونچی ایڑی کے جوتے، نیل پالش، ماڈرن ہیر سٹائل۔
ہسپتال کے لئے ڈریس کوڈ؛
لمبی آستینوں والی شلوار قمیض، دوپٹہ یا حجاب، سفید کوٹ، ہاتھ میں ایک انگوٹھی اور گلے میں ایک چھوٹی چین
یہ پڑھ کر ہمیں تو یوں لگا کہ درون خانہ کہانی کچھ اور ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مریضوں کے دل پہ بجلی گرنے کی فکر کی بجائے اپنے ہوش و حواس کی حفاظت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب ہسپتال کا انتظام کچھ یوں ہے کہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے ذمے مختلف وارڈز کا راؤنڈ کرنا ہے اور لیڈی ڈاکٹرز اور نرسز سے سلام دعا بھی ہو جاتی ہے۔ جس مہارت سے لباس و گیسو اور زیبائش کی بات کی گئی ہے اس سے تو یہ علم ہوتا ہے کہ اس سرکاری سلام دعا میں بھی یونس صاحب کافی مشکل مقامات سے گزرتے ہوں گے۔
بقول حاکم اعلی، عورت کا لباس دیکھ کر کوئی مرد کیسے اپنے جذبات پہ قابو رکھ سکتا ہے؟ اب خدا کے لئے یہ نہ پوچھ لیجیے گا کہ نظر کیوں نہیں جھکائی جا سکتی اور عورت کو ایکسرے مشین بن کے ہی کیوں دیکھا جاتا ہے؟
اتنی مشکل باتیں ہمارے معاشرے کے سیدھے سادھے بلکہ معصوم اور بھولے بھالے مردوں کے لئے سیکھنا تو بہت مشکل ہے بھئی تو آزمودہ علاج تو ایک ہی ہے کہ چڑیا کے پر کتر ڈالیے یعنی چلتر عورت کو بوری نما لباس الاٹ کیجیے، ممکن ہو تو ٹوپی برقعہ پہنا دیجیے، آج کل افغانستان سے آسانی سے درآمد کیے جا سکتے ہیں۔ اور لپ اسٹک تو ویسے بھی حرام جانوروں کی چربی سے بنی ہوتی ہے سو گھر سے نکلنے والی عورتوں کے ایمان کی حفاظت افسر اعلی کے ذمے ہیتو ٹھہرتی ہے نا۔
ہم ڈاکٹر یونس وڑائچ کو ایک مشورہ دینا چاہتے ہیں۔
یونس صاحب کو ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کا بھی چکر لگانا چاہیے جہاں وہ انکم سن بچیوں سے مل سکیں جو معاشرے کے جری مردوں کے ہتھے چڑھ کر لہولہان حالت میں وہاں پہنچتی ہیں۔ ان کے لباس کے بارے میں بھی یونس صاحب کا مشورہ سر آنکھوں پر۔
اور ہسپتال کے مردہ خانے تک تو جانا بنتا ہی ہے جہاں قبر میں ریپ کے بعد مردہ عورتوں کو معائنے کے لیے لایا جاتا ہے۔ شاید ڈاکٹر یونس وڑائچ کفن کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما سکیں کہ چھ گز کی بجائے چوبیس گز میں تہہ در تہہ لپیٹ کر زمین کے حوالے کیا جائے۔ شاید اس طرح قبر کھودنے والا کفن کی تہیں کھولتے کھولتے ہی ہانپ جائے۔
ڈاکٹر یونس وڑائچ نے اس بارے میں ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر یاسمین راشد سے تو مشورہ کیا ہی ہو گا۔ کاش وہ یونس صاحب کو ماضی کا وہ زمانہ دکھا سکیں جب ڈاکٹر یاسمین راشد ایک ایتھلیٹ کی چال چلتی ہوئی، بازو چڑھائے، گلے میں دوپٹہ ڈالے ہمیں پڑھانے کے لئے آیا کرتی تھیں۔
ہر فنکشن کی جان، میڈیکل ایسوسی ایشن کی صدر، جن کے گلے میں سر بولتا تھا، لڑکیوں کی آئیڈیل ڈاکٹر یاسمین راشد کو اگر کسی نے ایسا حکم دیا ہوتا تو کاغذ پرزے پرزے کر کے پھینکنے کے ساتھ یونس وڑائچ کی شان میں بھی بہت کچھ بیان کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد، اپنی وزارت کے رتن ڈاکٹر یونس وڑائچ کی خبر تو لیجیے پلیز!
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر