صحافتی اداروں کے معاملات کی نگرانی کے لئے حکومت نے حال ہی میں ایک نئے سرکاری ادارے کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس مجوزہ ادارے کے اختیارات کو بعض صحافی فوجی آمرانہ دور میں جاری کئے گئے پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس سے تشبیہ دے رہے ہیں جو آج ہی کے دن تقریبا ساٹھ برس قبل نافذ کیا گیا تھا۔ ڈان کے سابق ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور سینیئر صحافی اشعر رحمان نے حالیہ مجوزہ قانون کا جائزہ اسی تاریخی پس منظر میں لیا ہے۔
جی ہاں! وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پاکستانی صحافت کے لیے جو نیا تحفہ متعارف کرانے کے لیے بےحد بے چین ہے اس کا نام نیشنل میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی رکھا گیا ہے۔
یہ عنوان عام طور پر ‘اس قسم کے’ اداروں کے لیے منتخب کردہ ناموں سے مختلف ہے۔ جہاں یہاں لفظ ڈیولپمنٹ استعمال کیا گیا ہے، عمومی طور پر لفظ ‘کنٹرول’ سے کام چل جاتا ہے۔ مگر پھر یہ کوئی عام حکومت نہیں ہے۔
یہ حکومت صحافت میں انقلاب کی اپنی خواہشات کو روز اوّل سے عوام میں مشتہر کرتی چلی آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی بپا کرنے کا دعویٰ رکھنے والی تحریک انصاف ہے جس نے اپنے کیمپ میں سے ایک سب سے نمایاں اور بےحد مصر سیاستدان کو میڈیا کی ڈیولپمنٹ پر لگایا ہوا ہے۔
یہاں بس ترقی اور ڈیولپمنٹ ہے اور کنٹرول اور ریگولیشن کو کوئی ناپسندیدہ الفاظ کی طرح پیچھے دھکیل دیا گیا ہے گویا یہ کوئی بھوت ہیں جو ایک انصاف زدہ کارواں کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔
حکومتی کارندے، وزیر، مشیر انصافی تبصرہ نگار، سب اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ میڈیا کی تاریخ میں ایک نیا باب کھلنے والا ہے۔ بس صحافیوں اور اخباری صنعت سے متعلق دیگر لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا۔
حکومت کی میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کی یہ تازہ ترین کوشش ہمیں آج سے 58 برس قبل لے جاتی ہے جب دو ستمبر 1963 کو ایوب دور میں پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس متعارف کروایا گیا تھا۔
نام ہی کافی ہے یہ بات ہمیں سمجھانے کو کہ جو ڈیولپمنٹ جس طرح بھی پاکستانی میڈیا میں جاری ہے اس سے فواد چوہدری، ان کے اور ہمارے وزیر اعظم اور ملک و میڈیا کا درد دل میں رکھنے والے دیگر اکابرین کوئی خاص خوش نہیں۔
دیگر چیزوں کو تو جانے دیجیے، محض یہ بات کہ ملک میں صحافت کے الگ الگ میڈیمز، جیسے اخبارات اور ٹی وی وغیرہ کے معاملات دیکھنے کے لیے، حکومت کے علیحدہ علیحدہ ادارے کام کر رہے ہیں۔
ظاہر ہے ایک مضبوط مرکز کی متلاشی حکومت اس بات سے نالاں دکھائی دیتی ہے کہ جہاں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی جسے عرف عام میں پیمرا کہا جاتا ہے کا ایک آرڈر ٹی وی چینلز پر تو کسی خاص مواد کا ابلاغ رکوا سکتا ہے مگر اخبار کا ایڈیٹر اس خبر کا متن چپ چاپ اپنی اشاعت میں شامل کر سکتا ہے۔ جب اخبار کو خبر ہو گئی تو پھر ظاہر ہے پورے گاؤں میں اس کا پھیل جانا یقینی ہے۔
فواد چوہدری صاحب کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اسی لیے ان کی میڈیا میں تبدیلی کی گردان انتہائی سنجیدگی سے لی جانی چاہیے۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ نئے قانون، جس کی آمد بعض حلقوں کے نزدیک بس چند دن ہی دور ہے، تو یقیناً اس للکار کا جواب بھی اتنا ہی زور دار ہونا چاہیے، تاکہ کچھ ‘بچت’ ہو سکے۔
مگر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ یا تو مخصوص حکومتی ڈیولپمنٹ سے نقصانات کی کہانی ابھی تک صحافیوں میں بریک یا عیاں ہی نہیں ہوئی ہے، یا پھر صحافیوں میں اتنی جان ہی نہیں ہے کہ وہ اس وار کاری کا سامنا روایتی زوروشور سے کر سکیں۔ تاریخ یقیناً ان کے ساتھ ہے۔ شدید آمریت کے دور میں بھی پاکستانی پریس شاندار طور پر اپنے حق کے لیے کھڑی رہی ہے۔ مگر سچ پوچھیے تو جو مسائل آج کل کے صحافی ایکٹیوسٹس کو درپیش ہیں وہ آج سے پہلے کبھی نہ تھے۔
چوہدری صاحب ہمیں یاد کراتے ہیں کہ پاکستان میں سات مختلف قوانین مختلف صحافتی میڈیمز کو چلانے کے لیے موجود ہیں۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ چوہدری صاحب کی مزاحمت میں جن لوگوں کو اب تک مورچہ سنبھال لینا چاہیے تھا وہ اس سے زیادہ طبقات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ حکومت کی تجویز اس اصول کے خلاف ہے جو چھوٹے پیمانے پر مسائل کی نشاندہی اور پھر حل پر زور دیتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ حکومت کی یہ کوشش آزادی صحافت کے بکھرے ہوئے سٹیک ہولڈرز کو یکجا کر دے۔ اگر ایسا ہوا، اور اس بات کا بہت امکان موجود ہے، تو اس کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر صحافتی اور میڈیا اداروں کے پلیٹ فارم سے اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑنے والے یقیناً حکومت کے مشکور ہوں گے۔
حکومتی اہلکاروں میں فواد چوہدری صاحب خاص طور پر ہمارے شکریہ کے مستحق ہوں گے کہ ان کی بہت سی شناختوں میں سے ایک شناخت بہرحال ایک سابق اینکرکی بھی ہے۔ کسے معلوم ہے شاید مستقبل میں کسی وقت چوہدری صاحب کو یہ رول دوبارہ کرنا پڑ جائے۔
یہ آسان مہم نہیں ہے، بس ایک ایسا کام ہے جسے ناگزیر سمجھ لیا گیا ہے۔ 25 کروڑ تک کے ہرجانے کی سزا، تجویز کردہ میڈیا ٹریبیونل کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل کے حق کی شق، اور دیگر کئی ایک ایسے مسئلے ہیں جو تبدیلی کے اس پلان کو درپیش ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خبر سب کی سب صرف ‘آئرنی’ ہے۔ تو کیا خبر سے متعلق یہ سب کچھ جو حکومت کرنے جا رہی ہے کسی ‘مسٹری’ سے کم ہو سکتی ہے؟ قطعی نہیں۔
یہاں پراسراریت کی ایک دیوار ہے جس میں جو حکومتی یا صحافتی حلقے کا کسی بیان سے ایک شگاف پڑتا ہے اور پھر تھوڑی دیر میں دیوار پھر برابر ہو جاتی ہے۔
یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ یہ تمام ریفارم یا میڈیا کی بہتری کا کام چل رہا ہے لیکن کوئی بھی یہ بات بتانے کو تیار نہیں کے اس نقشہ میں کیا کیا ہے جس کے سر پر ان بیچارے صحافیوں، نیم دانشوروں اور کامل انٹلیکچوئل افراد کے ساتھ یہ ہونے والا ہے۔
کوئی ایسا کاغذ یا فہرست ابھی منظر عام پر نہیں آئی جس میں آنے والے نئے قوانین کا خلاصہ کیا گیا ہو۔ ایک سے زیادہ ایسے دستاویز موجود ہیں جن کے بارے میں لوگ وثوق سے یہ کہہ رہے ہیں کہ جی یہ وہی لسٹ ہے جس کے تحت حکومت ‘بے قابو’ میڈیا کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتی ہے۔
ایک ایسی ہی دستاویز، 12 اے فور سائز صفحات پر مشتمل اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اس سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ اس پلان کے لکھنے والے اتھارٹی کے اندر بہرصورت بیوروکریسی کو صحافیوں پر فوقیت دلوانا چاہتے ہیں: ‘پی ایم ڈی اے کا چیئر مین انفارمیشن گروپ کے افسران کے گریڈ 21، 22 کے پینل سے ہو گا۔۔۔’
اب حکومت چاہے کتنا بھی زور اس بات پر دے کے اتھارٹی کے دیگر ممبران کی تقرری کے وقت سرکاری اور غیر سرکاری توازن کا خیال رکھا گیا ہے، حکومت کے ایک افسر کے نیچے اس طرح کی ایک اتھارٹی کا قیام صحافیوں کے لیے ایک مستقل دردسر کا سامان ہو سکتا ہے۔
صحافی تو مانتے ہی نہیں اس قسم کے کسی سسٹم کو، انھیں زیادہ سے زیادہ ایک سہولت کار درکار ہے جبکہ ریفارم سے لے کر ہر طرح کے صنعتی تنازعوں کو نمٹانا میڈیا والے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
اس منصوبے کے مصنفین وہ تمام ضابطہ اخلاق بھی مرتب کرنا چاہتے ہیں جو اچھی صحافت کے لیے ان کے تئیں ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اشتہاری محصولات کے ریٹ بھی ظاہر ہے اتھارٹی کے پاس ہی ہوں گے۔ اس کے علاوہ انتہائی اہم کام جو این ڈی ایم اے کا ہو گا وہ یہ کہ کیا نشر کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں۔
مرکزیت کی اہمیت کی غمازی کرتی یہ اتھارٹی ایک اچھا کام جو کرنا چاہ رہی ہے وہ میڈیا میں اجارہ داری کی مزاحمت ہے۔
ایک صحافی کا خبر کے ذرائع کو تحفظ دینا صحافت میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ مگر یہاں کہا جا رہا ہے کہ اتھارٹی اس قسم کے معاملات میں بھی دخل اندازی کا حق رکھے گی جو یقیناً میڈیا یا صحافی کو بالکل قبول نہیں ہو گا۔
یہ میڈیا مالکان سے بہت زیادہ عامل صحافیوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یہ اسائنمنٹ اور بھی سخت ہو سکتی تھی لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ آج کے صحافیوں کو بے شمار ایسے مثالیں دے کر ایک مشترکہ جدو جہد سے بد ظن کیا جا سکتا ہے جس میں کام دینے والوں نے کام کرنے والوں کا کھلے عام استحصال کیا۔ حتیٰ کہ ایڈیٹروں کے متعلق ایسی شکایات جہاں وہ مالکوں کے ساتھ مل کر تمام ترغیر پسندیدہ ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے کریئرز کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
حالیہ کتنے ہی واقعات ہیں جہاں آزادی صحافت کے لیے لگائے گئے نعرے میں بھی صحافیوں میں موجود پوشیدہ اور کمزور حلقوں کو مالکوں یا ان کے چہیتوں کی سازش اور خود فرضی دکھائی دے گئی۔
تو جناب اس تاثر کے میڈیا میں قائم ہونے کی بہت معقول وجوہات موجود ہیں، یہ الگ بات کہ اس کا تجزیہ ایک ایسے ملک میں میں بہت کم ملے گا جہاں بات چیت اور بحث و مباحثہ ہر قسم کے اتحادوں کے لیے زہرِ قاتل سمجھا جاتا رہا ہے۔
ہر حکومت اپنی اچھائیوں کو سامنے لانے اور برائیوں کی پردہ پوشی کے لیے ایک اچھی یا تعاون پر آمادہ پریس کی متمنی ہوتی ہے۔
ابھی بھی جب پی ٹی آئی کی میڈیا کو زیر کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود، میڈیا اور حکومت کے درمیان یہ تعاون یقیناً جاری ہے۔ اس کے بغیر نہ تو حکومت چل سکتی ہی نہ خبروں اور اشتہار بازی پر پلنے والی یہ صنعت آگے بڑھ سکتی ہے۔
ساتھ ساتھ ایک مستقل جنگ بھی جاری رہتی ہے ان دونوں فریقوں کے درمیان اور اس وقت بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کے عمران حکومت کا پلڑہ اس لڑائی میں بھاری ہے۔ سب سے پہلے تو وہی مقتدر طاقتوں اور پی ٹی آئی کے ایک ہی صفحے پر موجود ہونے کا واقعہ ہے جو فواد چوہدری جیسے ترجمان کی آواز میں ایک خاص قسم کی مقصد سے سچی اور غیر متزلزل وابستگی کی سند فراہم کرتا ہے۔
دوسرا انہی وابستگیوں سے پیوستہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ اپنے نا پسندیدہ میڈیائی طاقتوں کے لیے وہ ہر وہ تیر استعمال کر سکتی ہے جو ملک کہ ناپسندیدہ ترین (گھٹیا ترین) دشمنوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے ہتھیاروں کی لڑائی میں استعمال کی ایک جھلک کچھ دن پہلے دیکھی گئی جب حکومت نے ‘ملک دشمن’ عناصر کے انڈیا میں موجود پراپیگینڈا کے گڑھوں سے مبینہ رابطوں سے پردہ محض ذرا سا سرکایا۔ اگلی بار اس ٹریلر کی جگہ بہت بڑا دھماکہ ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بہت سے ذہنوں کو یہ تاثر تو بہر حال فراہم کیا جا چکا ہے کہ یہ پھر وہی محب وطن اور غدار کی جنگ ہے۔
پرانے اور نئے اسلحے سے لیس ایک حکومت، ایک ریاست ایک نئی یلغار کے لیے تیار ہے جس کا آخری مقصد صحافی کو اپنے تابع کرنا ہے، چاہے یہ ایسا براہ راست کیا جائے یا ان ہاتھوں کے ذریعے جس سے ہمارا معروف اور نا معلوم صحافی اپنے کام اور مہارت کی اجرت لیتا ہے۔
یہ دنیا میں واحد ملک نہیں جو میڈیا کے ہمیشہ بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے جتن اتنے زور شور سے کر رہا ہے۔ کئی اور ریاستیں بھی اپنے تئیں اس نا ممکن مقصد کو حاصل کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں اس لڑائی کی کچھ جہتیں وہی ہیں جو کہ کہیں بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً سیاستدانوں کی آپس کی طاقت کی لڑائی یہاں بھی بہت واضح ہے، حالانکہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں سیاست دانوں کے درمیان آزادی رائے جیسے موضوعات پر بنیادی اتحاد کے بغیر جمہوریت یہاں بس ایک خواب ہی رہ جائے گی۔
کچھ دیگر اتحادی بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں جو کسی بھی طرح کی لڑائی پر آمادہ، مجبور اور تبدیلی پر تلے سیاستدانوں سے بالا ہی بالا صحافیوں کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔
جیسا کہ عدلیہ یا غیر سرکاری ادارے یا باقی ماندہ ٹریڈ یونینز ہیں۔ اُن سب کا متوقع اتحاد لہو میں کچھ نہ کچھ گرمائش کی صلاحیت تو بہر حال رکھتا ہے، مگر کسی فیصلہ کن جنگ کے لیے شاید ہمیں حکومت اور میڈیا کے درمیاں بظاہر اس محاذ آرائی کو ایک نئے یا نسبتاً کم استعمال کیے گئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہمیشہ کی طرح یہ معاشرے کے کم آسودہ گمنام لوگوں اور جانے پہچانے چہیتے اور آسودہ گروپوں میں لڑائی ہے۔ وہ لوگ آپ کو دبا کر آپ پر اپنا تسلط قئم رکھنا چاہتے ہیں اور بس۔
اس کی مثال یوں دیکھیے کے ان کی فوج کا ایک آدمی کسی عارضی حادثے کہ تحت یا محض وقت گزاری کے لیے آپ کی صفوں میں آ گیا ہے، مثلاً اسے اینکر کے رول کو اپنانا پڑ گیا ہے۔ مگر بالآخر وہ شخص اس ڈائی ورژن کو ایک جاسوس کی طرح ہماری ٹوہ لینے کے لیے ایک مہم میں تبدیل کر دیتا ہے۔
وہ ہمارا تھا نہ ہے کیونکہ اس کا آخری مقصد تو اپنے آسودہ حال گروہ کو فائدہ پہنچانا ہے۔
ایک اور مثال یہاں ایک ایسے (سابق) صحافی کی دی جا سکتی ہے جو صحافت سے وزارت اور اس کے بعد بادشاہ گر کی کرسی پر براجمانی کو ایک فطری ترقی کہ طور پر پیش کرے اور پھر ایک چھلانگ لگا کر کیمرہ کے سامنے اطمینان سے بیٹھ کر نئی دنیا کہ رازوں کے بارے میں اپنے خیالات کا لنگر ہم پر کھول دے۔
یہ بھی اس آسودہ حال لوگوں کے گروہ کا ایک مغرور نمائندہ ہے۔ اب بات یہ ہے کہ اب یہ پرانے نعروں اور دو دریقوں کی مابین سیدھی سیدھی گھمسان کی جنگ نہیں ہے۔ اب آزادئ صحافت کے نام پر جدوجہد کرنے والوں کو یہ بھی نظر رکھنی ہے کہ ان کی صفوں میں ففتھ کالمسٹ یا جاسوس کون کون ہے۔
یا یوں کہیے کہ اگر یہ عناصر پہلے سے صحافیوں کے درمیان موجود تھے تو اب ان کی ہیئت اور ان کی طاقت کا عیاں ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بس اسی قدر مشکل ہے یہ چو مکھی جو بہرحال انھیں جیتنی ہے جو لوگوں کے ایما پر اپنے حصہ کے سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ