ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مملکت خداداد پاکستان بلاشبہ ہمارے قومی سفر کا اہم سنگ میل ہے ۔ یہ منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ذریعہ تھا۔ مقصد نہیں مقصد حاصل کرنے کا وسیلہ تھا۔ اس عظیم جدوجہد کے دوران قربانیوں کی لازوال کہانیاں وجود میں آئیں جو بلاشبہ ہمارا گراں قدر تاریخی اثاثہ ہیں۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانانِ ہند نے آزادی کے لیے جو کاوشیں کیں، قربانیاں دیں، ان تمام عوامل پر ایک بار پھر سے غور کی ضرورت ہے ۔جن خوش نصیبوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لیاوہ مقصد ابھی تک تشنہ ہے مقامی افراد کی قربانیاں اپنی جگہ ہیں اور ہجرت کے جو زخم ہیں شاید وہ کئی نسلوں تک برقراررہیں۔
دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان جنگ اورانسانی جانوں کی قربانیوں کے بغیر آزاد ہو گیا مگر بعد میں جو فسادات ہوئے اس پر نئے سرے سے غور کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز بھی میں نے عاصی کرنالی صاحب کے حوالے سے ہجرت کے حالات و واقعات کاذکر کیا تھا آج میں ملتان کے ایم این ا ے رانا نور الحسن کی والدہ اور موجودہ سینیٹر رانا محمود الحسن کی دادی اختری بیگم مرحومہ کے انٹرویو کا کچھ حصہ پیش کررہا ہوں تاکہ ہجرت کے حالات وواقعات کا تذکرہ ہو سکے۔اختری بیگم کہتی ہیں میرے شوہر رانا فتح محمد چونکہ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اس لئے شادی کے موقع پر مجھے 11سیر چاندی کے زیورات ملے۔ اس زمانے میں چاندی کے زیورات کا رواج تھا۔ سونا بھی ملا مگر وہ کم تھا۔ 11 سیر چاندی میں نے ایک پاندان میں ڈال کر سنبھالی ہوئی تھی۔
تحریک پاکستان چلی، ہنگامے بڑھے، حالات خراب سے خراب ہونے لگے تو ہمارے بزرگوں نے طے کیا کہ اب گھروں کو چھوڑدینا چاہیے۔ ہندو بلوائی کسی بھی وقت ہم پر حملہ کر سکتے تھے ۔ میرے پاس میرے مرحوم بیٹے سابق ایم این اے رانا نور الحسن اور دو بیٹیاں تھیں ۔ اچانک ہمیں اطلاع ملی کہ ہندو بلوائی آ رہے ہیں۔ سب نے اپنی جانیں بچائے ہوئے گھروں کو چھوڑا۔ یہ اتنا نازک وقت تھا کہ ہم نے گھروں کو تالے بھی نہ لگائے اور ننگے پائوں بچوں کو اٹھا کر چل پڑے۔ ہزاروں افراد پر مشتمل قافلہ تھا ۔ میرے بیٹے رانا نور الحسن کو تایانے کندھے پر اٹھایا۔ ایک بیٹی کو چاچا نے کندھوں پر بٹھایا۔ایککو میں نے گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ کئی میل پیدل چل کر کرنال شہر آگئے جہاں مہاجرین کیمپ لگایا گیا تھا جس کی حفاظت ملٹری کر رہی تھی۔ کیمپ آئے تو خالی ہاتھ تھے۔
پائوں میں جوتے بھی نہ تھے ۔کیمپ میں آ کر میرے شوہر نے 3دن مزدوری کی۔ جو اجرت ملی اس سے ہمیں جوتے خرید کر دئیے۔شدید بارشوں کا موسم تھا ۔ ہیضہ اور چچک کا مرض تیزی سے پھیل رہا تھا ۔ کئی اموات ہوئیں جنہیں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد بغیر کفن کے گڑھا کھود کر سپرد خاک کرتے تھے۔ راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت ہو چکا تھا ۔ کیمپ کے گرد ہندو بلوائی ہر وقت تلواریں لہراتے نظر آتے تھے۔ کیمپ سے باہر جو شخص اکیلا جاتا تھا اگلے روز اس کی لاش ہی ملتی تھی۔ عید گاہ کے علاقے کے کیمپ میں راشن کی بہت قلت تھی۔ ہزاروں مسلمان تھے جبکہ راشن ایک وقت بھی نہ ملتا تھا۔ جس کے پاس جو زیور تھا وہ ہندو سکھ سستے داموں خرید کر رہے تھے ۔
یہ لوگ کیمپ کے گرد میٹھی ٹِکیاں پنجیری تیار کر کے لے آتے جو زیورات کے بدلے فروخت کررہے تھے۔ کسی نے شور مچا دیا کہ میٹھی ٹکیوں اور پنجیری میں زہر ہے۔ سب نے وہ بغیر کھائے پھینک دیں۔ یہ پنجیری سب سے پہلے بھوک سے بلکتے بچے کو اس کی ماں نے کھلائی۔ بچہ پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد تڑ پ تڑپ کر اس نے جان دے دی۔ ابھی بچے کو قافلے والے سنبھال رہے تھے کہ کئی بچوں نے اپنے پیٹ پکڑ لئے، وہ زمین پر ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہے تھے ۔ یہ پنجیری چند خواتین نے بھی کھائی ان کے بھی پیٹ میں درد شروع ہوا۔ عجیب منظر تھا۔
اس دوران بارش شروع ہو گئی اولے پڑنے لگے۔ یہ مدد غیبی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کی بے بسی پر ترس کھا کر اولے برسائے۔ ایک تڑپتی خاتون نے ایک اولہ منہ میں ڈالا اور نگل لیا۔خدا کا کرنا کہ عورت کو اولہ نگلتے ہی قے ہو گئی اور درد میں افاقہ ہو ا۔ خاتون کو دیکھ کر ایک اور عورت نے اولہ نگل لیا۔ اس نے بھی قے کر دی اور اسے سکون مل گیا۔اب خواتین و مردوں نے منہ سے اولے توڑ توڑ کر معصوم بچوں کے منہ میں ڈالے۔ جن بچوں نے اولے نگلے وہ بچ گئے ۔
اللہ تعالیٰ کا کرم کہ جو بھی اولہ نگلتا تھا فوراًً قے کرتا اس کی جان بچ جاتی تھی یہ غیبی مدد تھی۔ اللہ تعالیٰ کی اس غیبی مدد سے بچے بھی قے کرنے لگے سوائے ایک بچے کے سبھی بچے اور بڑوں کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ جن بچوں نے اولے نگلے تھے وہ بھی ایک ایک قے کے بعد ٹھیک ہوگئے تھے۔ اس موقع پر کئی مائوں نے بچوں کو گود میں اٹھا کر والہانہ پیار کیا اور کہنے لگیں خدایا اب ہمیں اجڑنے سے بچا یا ہے، منزل بھی جلد مل جائے۔ قافلے میں ہیضے کی وبا پھیل چکی تھی۔ الٹیاں اور دست آنے سے کئی نوجوان بھی خاصے کمزور ہو گئے تھے ۔
اب نوجوانوں نے بھی اولے کھائے اور جی بھر کر کھائے انہیں قے نہ آئی، بلکہ وہ کہتے تھے کہ ہم میں چلنے کی طاقت آ گئی ہے۔ اس موقع پر جس ماں کا بچہ پہلے فوت ہوا تھا وہ اس جگہ بیٹھ گئی اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگی۔ قافلے والوں نے گیلی مٹی کے نیچے بچے کو سپرد خاک کرنا چاہا مگرماں بضد تھی کہ اس کے منہ میں اولے ڈال دوا بھی ٹھیک ہو جائے گا۔بہت سمجھایا مگر بدقسمت ماں نہ مانی قافلے والوں سے کہنے لگی تم چلے جائو میں بیٹے کو ساتھ لے کر آئوں گی۔ بڑی مشکل سے بچے کوماں سے الگ کیا ۔
قافلہ چل پڑا۔ ماں پلٹ پلٹ کر بدقسمت بیٹے کو دیکھتی تھی جس کا باپ ظالم ہندوئوں نے ایک روز پہلے قافلے پر حملے کے دوران شہید کر دیا تھا۔ اختری بیگم نے دیگر حالات وواقعات کا بھی ذکر کیا ہے اور بقایا کہ چالیس روز کے بعد ہمارا قافلہ خان گڑھ پہنچا ،نواب صاحب کا وسیع باغ تھا ہماری بہت خاطر مدارت ہوئی ، کچھ لوگ ہمارے سلارواہن چلے گئے ہم مظفر گڑھ سے ملتان آئے ہمیں زمینیں الاٹ ہوئیں میں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ پاکستان کے لیے کام کرنا ہے اور جن لوگوں نے ہمارے ساتھ بھلائی کی ان کا شکرگزار رہنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر