شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی قومی سوال ہو یا طبقاتی جد وجہد حمید اصغر شاہین جنہیں ہم ‘لیڈر’ کہہ کر پکارتے تھے اپنی ساری زندگی جس محاذ پر بھی کھڑے ہوئے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ایک سچا مزدور دوست اور بے لوث قوم پرست آج اس فانی دنیا سے چلا گیا۔ شاہین کی زندگی ایک مسلسل جدو جہد سے عبارت ہے ذوالفقار علی بھٹو کے اس سپاہی نے ڈیرہ غازی خان کے ایک طاقتور نامی گرامی سردار کی ‘بار’ (گندم کی تیار فصل) مزارعین، غریبوں اور ضرورت مندوں میں بانٹ دی تھی اور وہ سردار بے بسی کی تصویر بنا رہ گیا تھا پھر وہ وقت آیا کہ ڈیرہ غازی خان کے سب سردار شاہین سے ‘خار’ کھانے لگے اور بھٹو صاحب کو شکایتیں لگانے لگے۔
شاہین صاحب بھٹو صاحب کو عزیز تو تھے لیکن اتنے زیادہ بھی نہیں کہ ان کے لئے بھٹو صاحب ڈیرہ غازی خان کے سب بڑے نامی گرامی سرداروں کو ناراض کر سکیں شاہین صاحب کو رام کرنے کے لئے لالچ بھی دی گئی اور دھمکیاں بھی لیکن شاہین صاحب نے دونوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا پھر چشمِ فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ بھٹو صاحب کے دور_حکومت میں سرداران_ڈیرہ کی خوشنودی کے لئے شاہین صاحب کو نہ صرف پابند_ سلاسل کیا گیا بلکہ انہیں پولیس کے ذریعے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ انتہائی غیر انسانی سلوک بھی کیا گیا تھا شاہین صاحب کے لئے یہ سب برداشت کرنا آسان اور اپنی سوچ اور نظریے سے ہٹنا مشکل تھا۔
یوں شاہین پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ گئے اور کچھ عرصہ بعد سرائیکی قومی تحریک کا حصہ بن گئے قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر سرائیکی تحریک کی نمایاں شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ ان دنوں جب سرائیکی لفظ کا استعمال ایک جرم، گناہ اور غداری سمجھا جاتا تھا اپنے ایک بیٹے کا نام سرائیکستان رکھا دوسرے بیٹے کا نام پاکستان تھا اپنے بیٹے پاکستان کو وہ ملک پاکستان سے تشبیہ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کی حرکتیں بالکل اس کے نام والی ہیں۔ سرائیکستان اور پاکستان کو جب سکول میں داخل کرایا گیا تو پھر ایک مسئلے نے سر اٹھا لیا کہ سکول انتظامیہ ان ناموں کے ساتھ بچوں کو داخل کرنے سے انکاری تھی لیکن شاہین صاحب بھی ہمت ہارنے والے نہ تھے اور سکول والوں کو داخلہ دینا پڑا۔
لفظ سرائیکی کسی گالی سے کم نہیں تھا خود سرائیکی بولنے والے بھی اپنی الگ شناخت کو قبول کرنے سے انکاری تھے کہ طویل عرصے تک وہ اپنی شناخت سے محروم رہے تھے اور ان کی مثال ان غلاموں کی سی تھی جنہیں اپنی بیڑیوں سے انسیت ہو جاتی ہے۔ جو سرائیکی کی بات کرتا وہ سمجھتے کہ لسانیت کی بات ہو رہی ہے اور لسانیت کی بات کرنا ناقابل معافی جرم اور ملک سے غداری ہے۔ انہیں دنوں میں شاہین صاحب نے نہ صرف پورے سرائیکی وسیب بلکہ ملک کے طول و عرض میں اپنی خوابیدہ قوم کا مقدمہ لڑا۔
ترقی پسند قوم پرستوں کی تنظیم پونم کی بنیاد پڑی تو پاکستان کی تمام مظلوم قوموں پشتون، سندھی، بلوچ اور سرائیکی کی نمائندہ شخصیات اور ان کی پارٹیاں پونم کا حصہ بنیں مرحوم تاج لنگاہ کے ساتھ ساتھ شاہیں صاحب نے بھی پونم میں سرائیکی قوم کی نمائندگی کی۔ شاہین صاحب کی پونم والوں سے نہ بن سکی تو پونم طبقاتی تشکیل دی تاہم بعد میں نہ پونم رہی نہ پونم طبقاتی۔ شاہین سے میری شناسائی تب سے ہوئی جب 2006 میں اپنے اس وقت کے ایک دوست ملک نعیم (ملک نومی) کے توسط سے صحافت کا شعبہ کا اختیار کیا ندیم سعید جو کہ ملک نومی کے بڑے بھائی ہیں اور اس وقت ڈان ملتان سے وابستہ تھے نے ڈیلی ٹائمز میں کسی سے بات کی اور میں نے بطور رپوٹر ڈیلی ٹائمز ڈیرہ غازی خان میں کام شروع کر دیا۔
نامور صحافی اور تجزیہ نگار ملک احسن رضا بدھ سے شناسائی بھی انہی دنوں میں ہوئی جو ڈیلی ٹائمز کے نیوز روم سے وابستہ تھے۔ شاہین صاحب سے پہلی ملاقات ڈیرہ غازی خان کے نامور صحافی اشرف بزدار کے توسط سے ہوئی جنہوں نے ایک دن مجھے کہا کہ کل کا ناشتہ شاہین صاحب کے ساتھ کریں گے میں شاہین صاحب کو جانتا ضرور تھا لیکن ملاقات پہلی تھی بزدار صاحب اور میں شاہین صاحب کے گلستان سرور والے گھر ناشتہ کرنے پہنچے تو روایتی دیسی ناشتہ جس میں ساگ، چاول کی روٹی، مکھن، لسی اور شہد شامل تھا ہمارا منتظر تھا ناشتہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہونے والے حالات و واقعات پر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ناشتہ ختم ہو گیا لیکن گفتگو جاری رہی۔ پھر شاہین صاحب سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل پڑا ان کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔ انتہائی وضعدار، سادہ اور محبت کرنے والی شخصیت تھی ان کی۔
ڈان ملتان کو جوائن کیا تو شاہین صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا میں ڈیرہ جاتا تب ملاقات ہوتی وہ ملتان آتے تو ڈان آفس ضرور تشریف لاتے خبریں میں امتیاز گھمن صاحب کے ساتھ ان کی دوستی بھی تھی اور حجت بھی۔ شادن لنڈ سے خبریں کے نمائندے حمید لنڈ کے ساتھ بھی ان کا یارانہ تھا۔ تابش اور فضل لنڈ سے شاہین صاحب کو خاص انسیت تھی۔ ظہور دھریجہ صاحب کے جھوک اخبار (جھوک پبلشرز) کے دفتر ضرور جاتے ہاں البتہ ناراضگی کے دنوں میں وہاں نہ جاتے لیکن پھر ظہور صاحب انہیں منانے کا گر بھی جانتے تھے۔
ایک وقت آیا انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کر دئیے جس کا جواز وہ یہ دیتے تھے کہ اب سرائیکی قومی سوال کافی آگے چلا گیا ہے اس لئے نام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شاہین صاحب کہا کرتے تھے کہ پہلے چلھ (چولہا) کی خیر ہو گی تب جا کر کل کی خیر ہو گی یعنی اگر کسی کا چولہا نہیں جلے گا تو دنیا میں امن بھی نہیں رہے گی۔
شاہین صاحب لیہ کے سیہڑ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ایک دن میں نے سنا کہ وہ ڈیرہ غازی خان چھوڑ کر لیہ اپنے آبائی علاقے شفٹ ہو گئے ہیں کبھی کبھار فون پر بات ہو جاتی تھی پھر پتہ چلا وہ علیل ہیں اور ملتان میں ہیں محبوب تابش کے ساتھ ان کو ملنے کا پروگرام بنایا لیکن نہ مل سکے پتہ چلا وہ پھر ڈیرہ غازی خان شفٹ ہو گئے ہیں کئی بار خیال آیا ان سے مل لوں لیکن فرصت نہ ملی اور آج ان کی وفات کی خبر ملی۔
شاہین صاحب کا خیال تھا کہ جب بڑی قومی سیاسی پارٹیوں نے اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ سرائیکی صوبے کا قیام وفاق کی مضبوطی کا باعث بنے گا اور یہ وقت کی ضرورت ہے تو اب یہ قومی مسئلہ بن گیا ہے ان کا خیال تھا کہ مین سٹریم سیاسی سرائیکی قیادت جن میں یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگ شامل ہیں کا سرائیکی صوبے کے حق میں آواز بلند کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ ان کی اور دیگر سرائیکی قوم پرست رہنماؤں کی محنت اکارت نہیں گئی اب بات اتنی آگے چلی گئی ہے کہ شاہین کی آواز نہ بھی سنائی دے تو بھی سرائیکی قوم کے حقوق اور شناخت کی بات نہیں رک سکتی اب جب کہ ان کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے اور منزل قریب ہے کاش شاہین صاحب صوبے کے قیام کی صبح دیکھ پاتے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر