نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نامور محقق اور ہمدرد انسان ۔۔۔۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ||جاوید اختر بھٹی

عین الحق فرید کوٹی اور ڈاکٹر احمد بشیر کے خطوط پڑھ کر میں اداس ہوا اور میں سوچنے لگا کہ جو لوگ کتابوں سے دل لگاتے ہیں وہ آخری دور میں کتنے پریشان ہوتے ہیں اور جو مصنف خود کتابیں چھاپ لیتے ہیں وہ کس مرحلے سے گزرتے ہیں۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نامور محقق اور ہمدرد انسان ۔۔۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ
(خطوطِ مشاہیر کی روشنی میں)

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ مرحوم ادب اور تحقیق کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ انہیں اردو اور سندھی کے ادبی و علمی حلقوں میں ایک سا احترام حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب 1919ء میں قریہ جعفر خان لغاری (ضلع سانگھڑ) میں پیدا ہوئے۔ وہ چھ ماہ کے ہوئے تو ان کے والد گرامی علی محمد خان پچیس برس کی نوجوانی میں انتقال کرگئے۔ ان کے والد کی ایک ہی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرے۔ والد کے بعد ان کے چچا ولی احمد خان نے ان کی پرورش کی اور مرحوم بھائی کی خواہش کے مطابق ان کی تعلیم کا مناسب انتظام کیا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ 1924ء میں قریہ پیلو خان لغاری کے پرائمری سکول میں داخلہ لیا۔ مارچ 1929ء میں نوشہرو فیروز مدرسہ و ہائی سکول میں داخلہ لیا اور 1936ء میں اس ادارے سے میٹرک کاامتحان پاس کیا اور سندھ میں اول نمبر پر آئے۔ اس کے بعد آپ نے ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیکن مالی مشکلات کی بناء پر یہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔

نبی بخش بلوچ 1937ء تا 1941ء میں بہاء الدین کالج جوناگڑھ کے طالب علم رہے۔1941ء میں ہی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ آئے اور ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔ علی گڑھ میں انہوں نے چھ سال قیام کیا۔ ان دنوں علامہ عبدالعزیز میمن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں صدر شعبہ عربی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی رفاقت میسر آئی۔ اُس زمانے میں اِس یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہادی حسن فارسی ، ڈاکٹر سید ظفر الحسن فلسفہ ، پروفیسر محمد مجیب تاریخ اور پروفیسر رشید احمد صدیقی اردو کے نامور استاد تھے۔ ان تمام اساتذہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے اچھے مراسم تھے۔ انہوں نے 1943ء میں مسلم یونیورسٹی سے ایم اے عربی میں گولڈ میڈل حاصل کیا

ڈاکٹر صاحب نے تصنیف و تالیف کا آغاز علی گڑھ کے قیام کے دوران میں کیا۔ ان کا پہلا تحقیقی مقالہ حیدر آباد دکن کے معروف تحقیقی رسالے اسلامک کلچر میں شائع ہوا۔ وہ علامہ میمن کی زیر نگرانی السند سیطرہ العرب (سندھ تحت عرب) پر پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھ رہے تھے لیکن پیر الٰہی بخش (جو خود بھی علی گڑھ کے سابق طالب علم تھے) کی کوششوں سے سندھ میں مسلمانوں کا پہلا کالج قائم ہوا اور اس میں ڈاکٹر صاحب کا تقرر ہوا۔ بعد میں مرکزی حکومت کے وظیفہ پر وہ کولمبیا یونیورسٹی گئے اور
A programe of Teacher Education for the new State of Pakistan
کے موضوع پر 1949ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان واپس آکر 1950ء تا 1951ء افسر بکار خاص (OSD) وزارت اطلاعات و نشریات کراچی رہے۔ 1951ء میں سندھ یونیورسٹی میں ان کا تقرر بحیثیت پروفیسر آف ایجوکیشن ہوا۔

1973ء تا 1976ء وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی ، 1976ء تا 1979ء افسر بکار خاص ، 1980ء تا 1983ء اولین وائس چانسلر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، 1983ء تا 1989ء مشیر ہجرہ کونسل اسلام آباد ، 1990ء تا مارچ 1994ء اولین چیئرمین سندھی زبان کا بااختیار ادارہ حیدر آباد (سندھ) رہے۔ اپریل 2011 کو 94 برس کی عمر میں انتقال ہوا ۔انہوں نے جو تحقیقی کام کئے اس کی فہرست کافی طویل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو کام ڈاکٹر صاحب نے کئے وہ شاید کسی دوسرے محقق کے لئے ممکن نہیں تھے۔

یہ تمہید اس لئے ہے کہ اس وقت میرے سامنے محمد راشد شیخ کی مرتبہ کتاب ’’خطوطِ مشاہیر بنام ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ ہے۔ اس سے پہلے بھی راشد صاحب ، ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے اردو مقالات اور خطبات کا پہلا مجموعہ ’’گلشن اردو‘‘ (2009ء) ’’خطوط ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ (2011ء) مرتب کئے۔ ڈاکٹر صاحب پر ایک کتاب ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ‘‘ شخصیت و فن 2007ء میں تالیف کی اور اس کے بعد دوسری کتاب ’’ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سوانح حیات اور علمی و عملی خدمات‘‘ 2014ء میں تالیف کی۔

زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے نام 70 مشاہیر کے خطوط ہیں۔ پاکستان کے ان اہم ادیبوں کے خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے ان کے دل میں کتنا احترام تھا۔ وہ مختلف عہدوں پر رہے اور لوگ انہیں بلاتکلف خط لکھ کر مدد کی درخواست کرتے تھے۔ مسلسل ایسے خطوط کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگوں کے کام آتے تھے اور نامور شاعر ، ادیب اور محقق ان کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔

علامہ عبدالعزیز میمن ، ڈاکٹر صاحب کے استاد تھے۔ انہوں نے اپنے استاد کا ساری زندگی احترام کیا۔ بڑے آدمی بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس کا یقین مجھے علامہ صاحب کے خطوط پڑھ کر ہوا۔ ان خطوط میں جہاں علمی گفتگو ہے وہاں نہایت سادہ اور معصوم فرمائشیں بھی نظر آتی ہیں۔ انہیں گھی اور تمباکو کی زیادہ فکر رہتی تھی۔ اس کے لئے وہ ڈاکٹر صاحب کو لکھا کرتے تھے اور یقیناًوہ اپنے استاد کی فرمائش کو بصد احترام پورا کرتے ہوں گے۔ یہ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد کا زمانہ ہے جب راشن کی تنگی تھی اور ہر شخص پریشان تھا۔

7282232-l

چند اقتباسات دیکھئے۔
۔’’اگر کوئی انتظام نہ ہوسکے تو میرا مہمان خانہ آپ کے لئے حاضر ہے۔ فکر نہ کریں۔ گھی یہاں اچھا نہیں مل سکے گا ، لیتے آئیں۔ ملازم کی رفاقت مزید خرچ کا باعث ہوگی۔ خیر اس کو آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں گیہوں فی کس روزانہ دو چھٹانک ہے۔ چاول ، چنا ، جو ، باجرہ ، با فراط مل سکتا ہے۔ میرے لئے دو سیر تمباکو ، پانچ سیر کھجور اور چیزیں ، علی گڑھ کے مقابلہ میں اچھی یا ارزاں ہوں تو لیتے آئیں۔ کپڑے کا رنگ وہی ہے جو آپ کے سامنے تھا۔‘‘ (25 فروری 1946ء)۔
۔’’میں نے یہاں آتے ہی آپ کو خط لکھا تھا ملا ہوگا، یہاں راشننگ میں تقریباً یکساں حساب ہے البتہ گھی ، ایندھن اور تمباکو بہت گراں ہے اگر ہوسکے تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ ساڑھے چار سیر کے دو گھی کے کنستر (کل 9 سیر) اور دو سیر تمباکو جس میں زیادہ ڈنٹھل نہ ہوں ، میرے لئے بھیج دیں۔ یہاں کپڑا عنقا ہورہا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں تین گنے دام پر ملتا ہے ۔۔۔ گیہوں من پختہ ساڑھے بارہ روپیہ ، چاول25 ، 14 روپیہ ہے۔ گھی ساڑھے پانچ ، چھ روپیہ سیر ہے۔ (26جون 1946ء)۔
اب زمانہ تبدیل ہوتا ہے۔ تقسیم کا عمل قریب ہے اور فسادات شروع ہوگئے ہیں۔ اب خطوط میں ان واقعات کا ذکر آتا ہے اور علامہ صاحب پریشانی اور بے یقینی کا اظہار کرتے ہوئے فکر مند ہوتے ہیں۔ وہ حالات کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

علامہ عبدالعزیز میمن لکھتے ہیں۔
۔’’ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کی گرم بازاری ہے۔ انہی کی وجہ سے یونیورسٹی بجائے یکم ستمبر کے یکم اکتوبر کو کھلی۔‘‘(20 نومبر 1946ء)۔
۔’’ہندوستان نے پانچ ، چھ کروڑ مسلمانوں کو فنا کردینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ریلوں میں سکھ مسلمانوں کو چن چن کر مار ڈالتے ہیں۔ سکندرہ میں اوسی ایکسپریس نے تین ، چار سو مسلمانوں کو مارکر پھینک دیا۔ جس میں ، میں خود آٹھ روز پیشتر آیا تھا۔ راتیں جاگتے گزرتی ہیں۔ علی گڑھ کے مضافات کے گاؤں کے مسلمانوں کو ختم کردیا۔ بچے کھچے شہروں میں بھاگ آئے۔ ہندو گورنمنٹ پولیس ، فوج یہ مناظر بلاچون و چرا پوری دلی خوشی سے دیکھتے ہیں۔ علی گڑھ سے اجمیر آمد ورفت بحال ہے۔ بیوی راجکوٹ میں پھنس گئیں۔ جوناگڑھ پاکستان میں آگیا ہے۔ انڈین یونین نے اس کو بری طرح گھیرا اور دبایا ہے۔ کل نواب اسمٰعیل وائس چانسلر ہوگئے۔ یوپی اور دہلی کی گرانٹ بند ہے۔ علی گڑھ انڈین یونیورسٹی ہوگی۔ مسلم نہیں رہے گی۔ نصف ہندو ہوں گے۔ پنجابی اور سرحدی طلبہ وہیں لاہور میں داخل ہو گے۔ دہلی میں ہزاروں مسلمان ختم کردیئے گئے اور لاکھوں بے خان و بان ہیں ، لوٹ لئے گئے۔ ہزاروں پاکستان رہے ہیں۔ اب علی گڑھ وغیرہ کی باری ہے۔ مولوی ثناء اللہ اور ان کا خاندان ختم کردیئے گئے۔ اطراف میں چار ، پانچ سو میل امید نہیں کہ کوئی مسلمان رہنے دیا جائے۔ مشرقی پنجاب اسلام سے خالی ہوگیا۔

آپ کا وطن قلب پاکستان بنا ہے۔ خواہی نخواہی اب نصیب میں سندھی بننا ہی لکھا ہے۔ ہندوؤں کی اندرونی ذہنیت بے نقاب ہوگئی ہے۔ پاکستان کے تصور سے تیس برس پیشتر سے یہ لوگ رام راج قائم کرنا چاہتے تھے۔ آگے پیچھے مسلمانوں کے نصیب میں جلاء تھا۔ پاکستان کی تاریخ محض بہانہ بنی ہے۔‘‘(22 ستمبر 1947ء)
’’ابھی تو یکم نومبر کو علی گڑھ میں حاضری ہے پھر آئندہ یہاں یا کراچی میں راجکوٹ یا علی گڑھ کے مکان کے مبادلہ کی سوچوں گا۔ حکومت ہند پاکستان میں تنخواہیں نہیں بھیجنا چاہتی۔ یہاں ہندوستانی مہاجروں کی کثرت سے اردو مادری سی بنی جارہی ہے اور اب ہندوستان و پاکستان ہے۔ کوئی نئی بات نہیں البتہ محمد علی جینا کے بعد کوئی لیڈر نظر نہیں آتا خدا خیر کرے ۔۔۔ چاہتا ہوں علی گڑھ کے قیام کے لئے اتنی مدت ملے کہ وہاں کے سامان وغیرہ کا تیا پانچہ کرسکوں اسی طرح راجکوٹ کا ، مگر پہلے سندھ کے قیام کا سامان ضروری ہے۔ حکومت ہند مسلمانوں کو نہ عزت سے ادھر آنے دیتی ہے نہ وہاں خیریت سے رہنے دیتی۔ اب تو آنے جانے پر بھی پابندیاں بڑھتی جارہی ہیں اور حیدر آباد کے سلسلہ میں جملہ مسلمان موردِ تہمت بنے جارہے ہیں۔‘‘
(13 جولائی 1948ء)

علامہ عبدالعزیز میمن مزید چند برس علی گڑھ میں رہے۔ کراچی پہنچ کر پہلے سے انداز میں گھی کی فرمائش ہوئی۔
’’ہاں اب وقت ہے۔ پندرہ ، بیس روز میں گھی کا ایک کنستر منگا دیجئے ضرور! پہنچانے کی دردسری بھی اپنے سر ہی لیجئے۔‘‘ (26 مارچ 1955ء)
’’پونے پانچ سیر گھی ختم شد قیمت سعید کو دے دی تھی۔ یہاں ساڑھے چار روپیہ سیر کا بھاؤ ہے ۔۔۔ قاضی سے معلوم ہو کہ آپ نے میرے لئے کنستر منگوایا ہے۔ مجھے بھی اشد ضرورت ہے۔ اللہ کرے کوئی لانے والا مل جائے۔‘‘
علامہ صاحب کے خطوط کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں کتابوں کا مسلسل ذکر آتا ہے۔ ان کا علم بہت زیادہ تھا۔ کتابوں کا ذکر وہ آخری زمانے تک کرتے رہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ ایک خط میں لکھتے ہیں ۔۔۔
’’سرائیکی ترجمہ جو سابق میں بڑی تقطیع پر بہاولپور میں چھپا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ غالباً اس کا عکس ایڈیشن آپ کے ہاں نکالا گیا ہے۔ معلوم نہیں پنجابی میں کس کا ترجمہ آپ نے انتخاب فرمایا ہے؟ کاش آپ کاشمیری پر بھی توجہ فرماسکیں۔
مولانا مقبول سبحانی کا ترجمہ جو میں نے پیش کیا تھا۔ صدر محترم ضیاء الحق صاحب نے تاج کمپنی کو بھیجا کہ وہ اسے چھاپے۔ کمپنی کے مہتمم صاحب کا انتقال ہوگیا۔ معلوم نہیں اس ترجمے کا اب کیا حشر ہوگا۔ اس کی اشاعت میں عظیم سیاسی مصلحت بھی اظہر من الشمس ہے ، واللہ المستعان۔‘‘ (21 اگست 1985ء)

ڈاکٹر سید عبداللہ کے خطوط سے اقتباس ۔۔۔
’’غور فرمائیے ، برصغیر میں جس میں چچ نامہ اور البیرونی کی تواریخ کے بعد تاریخ نگاری کا ایک بھرپور سلسلہ انگریزوں کی آمد تک قائم رہا۔ جدید تعلیم کے شروع ہوتے ہی منقطع ہوگیا۔ تاریخ نگاری کا کام انگریزوں نے سنبھال لیا اور ہماری تاریخ کی ایسی تعبیریں کر ڈالیں جن سے ہمیں اپنے اوپر ندامت ہونے لگی۔ ہندوؤں نے ہند کی مناسبت سے کچھ بہتر کام کیا مگر ان سے بھی پیچھے رہے۔ ہم نے شبلی کے سوا کوئی بڑا مؤرخ پیدا نہ کیا اور اب بھی تقریباً صفر ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک کتابچہ ’’کلچر کا مسئلہ‘‘ مرتب کرکے ایک ناشر کو دیا تھا۔ اس نے اس کا ناس مار دیا۔ بہرحال جس حال میں ہے ایک نسخہ ارسال ہے تاکہ میرا یہ رسالہ آپ کے کتاب خانے میں محفوظ ہوجائے۔ کبھی فرصت ملے تو ایک آدھ باب پڑھ ڈالیے ، ورنہ یہی کافی ہے کہ میری یہ کتاب آپ کے پاس ہے۔‘‘(3 نومبر 1979ء)

آپ کو اپنا ’’جگری دوست‘‘ سمجھ کر میں نہایت بے تکلفی سے اپنی ایک بڑی ہی نازک ضرروت آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ عام حالات میں اپنے غم کو رسوا نہیں کیا کرتا لیکن آج جو میں کچھ لکھ رہا ہوں ، بڑی ہی مجبوری سے لکھ رہا ہوں۔ اس کی مضمرات کسی وقت میں زبانی پیش کروں گا۔ کاغذ بعض باتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

خلاصہ احوال یہ ہے کہ میری بیٹی پروفیسر عطیہ سید ایم اے (فلسفہ وغیرہ) لاہور کالج برائے خواتین میں پڑھا رہی ہیں۔ تیرہ چودہ برس کا تجربہ ہے۔ لکھتی بھی رہتی ہیں۔ اب وہ امریکہ کی کسی یونیورسٹی (نیویارک ، واشنگٹن ، شکاگو ، براؤن) وغیرہ جاکر مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن مالی وسائل بالکل موجود نہیں کیونکہ میں عمر بھر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ’’فضول‘‘ کاموں میں وقت صرف کرتا رہا اور دنیا داری بالکل نہیں کی لہٰذا خالی ہاتھ ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے وہاں کوئی نوکری (مکمل یا جزوقتی) مل جائے تاکہ وہ اپنا خرچ ادا کرسکے اور تعلیم بھی حاصل کرلے۔ وہ یونیورسٹیاں پہلے سال میں کوئی مالی امداد نہیں دیتیں۔‘‘(2 فروری 1980ء)

نور احمد خان فریدی کا تعلق ملتان سے تھا۔ ان کے خطوط دلچسپ بھی ہیں اور تکلیف کا باعث بھی۔ ایک تو انہیں ہمیشہ مالی امداد کی ضرورت رہی۔ وہ اپنے ہم عصروں سے ناراض رہے اور اپنی صحت کے لئے فکرمند رہے۔ اپنی کتابوں کی فروخت بھی انہیں پریشان کرتی رہی۔
ان کے چند خطوط سے اقتباس ۔۔۔
۔’’سرائیکی ادب (فریدی صاحب کی زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ) کی مالی پوزیشن مضبوط کی جائے۔ آپ کے حلقۂ اثر میں یقیناًسرائیکی سمجھنے والوں کی کافی تعداد ہوگی۔ ان میں سے ایسے حضرات کے پتے واپسی ڈاک سے ارسال کریں جو اب رسالہ ہذا کا وی پی وصول کرسکیں۔ سندھ یونیورسٹی کو کتنے اور کس پتے پر وی پی کئے جائیں۔ یہ ماہنامہ خطِ نسخ میں لکھا گیا ہے۔ تاریخ ملتان کی جلد اول عہد قدیم سے عہد قریش (مخدوم محمد یوسف فرماں روائے ملتان) تک طبع ہوکر جلد بندی کے مراحل طے کررہی ہے۔ دوسری جلد کے 280 صفحات کتابت ہوچکے ہیں۔ میری صحت پہلے سے بہتر ہے مگر جس شخص کا پتّہ نہ ہو ، اس کا کیا جینا ۔ نہ گھی استعمال کرنے کی اجازت ہے اور نہ دودھ و روغنیات ہر قسم کی ، محض رحمت الٰہی کے بھروسے پر جی رہا ہوں۔‘‘(20جون 1971ء)۔

اکادمی ادبیات سے وظیفہ مل رہا ہے اور یہ سب خداوند کریم کی عنایت اور آپ کی شفقت سے ہوا ہے جس کے لئے بندہ اپنے رب کریم کاشکرگزار اور آپ کا احسان مند ہے ۔ اب احقر ملتان پر ایک تحقیقی کتاب طبع کررہا ہے۔ اس کا نام ’’ملتان اور مورخین‘‘ ہے۔ ملتان پر جس قدر تاریخی کتب طبع ہوئی ہیں۔ احقر نے ان سب پر تنقید کی ہے۔ آپ ہسٹاریکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔ آپ نے لاتعداد ادیبوں اور دانشوروں کو نوازا ہے۔ خاکسار آپ کا احسان مند ہے کہ آپ اپنے احباب کو میری سفارش فرماتے رہے ہیں لیکن درخواست یہ ہے کہ زیر طبع کتاب کے لئے مالی امداد مرحمت فرمائیں۔ یہ کتاب مدون ہوکر کتابت بھی ہوچکی ہے۔ اب صرف طباعت کا مرحلہ درپیش ہے اور ایک ہزار کی تعداد پر بیس ہزار روپے خرچ آنے کا اندازہ ہے مگر میرے پاس صرف نو ہزار تین سو بیس روپے ہیں۔ جناب کو احقر کی تصانیف دیکھنے کا کئی بار اتفاق ہوا ہوگا۔ نیاز مند کی تمام مطبوعات معیاری ہیں۔ ان کی فہرست لیٹر پیڈ ہذا پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ازراہِ کرم خصوصی مالی اعانت سے نوازیں تاکہ یہ کتاب طبع ہوسکے۔‘‘ (22 جنوری 1982ء)۔

ملتان میں ایک صاحب مہر عبدالحق رہتے ہیں۔ انہوں نے قرآن مجید کے ترجمے کا پنجابی ترجمہ کرکے آپ کی وساطت سے ایک لاکھ روپے کی طباعتی امداد حاصل کی حالانکہ یہ شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمے کا پنجابی ترجمہ ہے اور دو ماہ کا کام ہے ۔۔۔ عتیق فکری نے ملتان کی تاریخ پر قلم اٹھایا ہے حالانکہ اس سے پہلے ہی میری اولاد علی گیلانی ، مخدوم یوسف قریشی ، منشی عبدالرحمن ، شیخ اکرام الحق ایڈووکیٹ اور احقر کی لکھی ہوئی ملتان کی تاریخیں موجود ہیں۔ اتنی کتابوں کو سامنے رکھ کر ملتان کی تاریخ کو ازسرنو مرتب کرنا کوئی مشکل بات نہیں مگر اسے بھی جناب نے گورنمنٹ سے معقول گرانٹ دلائی ۔۔۔ لیکن بندہ جو کہ مستقل مریض ہے جس کا نہ پتّہ ہے نہ بایاں گردہ ، پانچ بار آپریشن ہوئے۔ اب پھر اسی ہفتے میرا پراسٹیٹ کا آپریشن ہونا ہے۔ جولائی میں کوئٹہ جاکر بائیں آنکھ کا آپریشن کرانا ہے۔ خاکسار کو یہ فخر حاصل ہے کہ بندہ کی مطبوعات میں آج تک کسی مخالف نے بھی غلطی کی نشان دہی نہیں کی۔ اور پھر ’’سندھ کے تالپور حکمران‘‘ تو ایک ایسی کتاب ہے جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ میں نے 250 صفحات میں اس کی کتابت کرالی ہے۔ اس کا فوٹو اسٹیٹ آپ کے لئے کرایا ہے۔ آپ سے استدعاہے کہ مجھے اجازت دیں تاکہ یہ کتابت شدہ مسودہ جناب کو بھیجوں تاکہ آپ خود ملاحظہ فرمائیں اور تاریخ و ثقافت کے ذمہ دار حضرات بھی دیکھ لیں۔ اگر پسند آئے تو اس کی طباعت کے لئے گورنمنٹ سے مالی امداد دلائیں ورنہ جلادیں۔ بندہ ضعیف العمر بوڑھا آدمی ہے۔ مجھے نہ ناموری کی ضرورت ہے اور نہ روپے کی ہوس ہے۔ اللہ خاتمہ ایمان پر کردے۔ (آمین)‘‘ (2 جون 1982ء)۔

بندہ نے مسلسل آپریشنوں اور بیماریوں کے باوجود درج ذیل کتابوں کو مدون کیا۔ کیا تاریخ وثقافت کی وزارت ان کی طباعت میں احقر کی مدد کرسکتی ہے؟‘‘(اس کے ساتھ ہی فریدی صاحب نے اپنی پانچ زیر طبع کتب کا تعارف دیا ہے)(23جون 1983ء)۔

’’جناب کی سفارش سے ہی اکادمی ادبیات پاکستان نے احقر کو0 70 روپے ماہوار بطور الاؤنس دیئے تھے جو اب مل رہے ہیں لیکن ہر سال جون میں نئے مالی سال کے لئے تجدید ہوتی ہے اور سوائے آپ کے نہ اس ماحول میں میرا کوئی واقف نہ سفارشی ۔۔۔ ملتان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری سید اصغر علی شاہ ایم اے نے اطلاع دی ہے کہ ملتان کی گلڈ نے اکادمی ادبیات کو آپ کے لئے پرزور سفارش کی ہے کہ ان کا الاؤنس جاری رکھا جائے لیکن اسلام آباد کے ماحول کا علم نہیں اور نہ ہی آپ کے سوا کوئی شناسا ہے۔ ایک شخص جو پتہّ ، گردہ نہ ہونے اور دونوں آنکھوں پر موتیا کے چھاجانے کے باوجود برابر تصنیف و تالیف میں مصروف ہے۔
جناب عالی! آپ ملتان اور خاکسار سے بخوبی واقف ہیں اگر زندگی اور موت انسان کے اپنے بس میں ہوتا تو خاکسار کبھی کا رخصت ہوچکا ہوتا مگر بے بسی کا عالم ہے اور چار سو روپے ماہوار پنشن کے سوا گزر اوقات کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتا۔‘‘(20 جون 1983ء)۔

۔’’دعاگو نے جناب کو ڈاکٹر غلام ربانی آگرو ڈائریکٹر ادبیات پاکستان کے خلاف شکایت کی تھی کہ اس نے احقر کو اہل قلم کانفرنس میں شمولیت کی دعوت نہیں دی۔ گویا دو درجن ضخیم کتابیں لکھنے کے باوجود احقر ان کے نزدیک اہل قلم نہیں ہے۔ ساتھ ہی معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سات سو روپے ماہوار جو وظیفہ ملتا تھا وہ بھی اس نے بند کردیا ہے۔ اس سلسلے میں اسے اور ڈاکٹر شفیق الرحمن کو کئی نیازنامے لکھے ہیں مگر دونوں نے جواب نہیں دیا۔۔۔ اسی برس کے پیر مرد جو دس سال سے آپریشنوں کی زد میں رہا ہے۔ جو پتہّ اور بایاں گردہ سے محروم ہے۔ جس کی دونوں آنکھوں کے بیرونی خول اتارے جاچکے ہیں۔ جو ضعف بصارت کے سبب چلنے پھرنے سے عاجز ہے مگر اس کا قلم برابر تصنیف و تالیف میں مصروف ہے۔ اسے محکمہ ادبیات اہل قلم میں شمار نہیں کرتا۔ اس سال جو بڑا لشکر اہل قلم کانفرنس میں شریک ہوا ہے ، آپ ہی انصاف کریں۔ ان میں خاکسار کے پائے کے کتنے ادیب اور مصنف تھے؟
یہ عریضہ آپ کو اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر ربانی آپ کے زیر اثر ہے۔ اگر وہ بندہ کو ادبی وظیفہ سے محروم کرنا چاہتا ہے تو کم از کم احقر کو یہ تو بتائے کہ کس جرم میں احقر کو یہ سزا ملی ہے۔ اپنی مخلوقات کا رازق خود خدا ہے۔ وہ پتھر میں کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔ جب تک بندہ کو زندہ رکھنا مقصود ہے ، ضرور رزق مہیا کرے گا۔ میری بیمار اور بوڑھی بیوی کو بھی خدا کا سہارا کافی ہے لیکن وجوہ سے تو مطلع کیا جائے ۔۔۔ کیا محکمہ ادبیات کو مجھ سے زیادہ کوئی مستحق ادیب مل گیا ہے تو اس کی نشاندہی کرے اگر واقعی وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہوگا تو بندہ اپنے تن کے کپڑے بھی اسے اتار دے گا ۔۔۔ مگر اللہ کی مخلوق سے بے انصافی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ کو اللہ جل شانہٗ نے صاحب اختیار بنایا ہے ، آپ سے یقیناًپرسش ہوگی۔‘‘(3 اگست 1985ء)۔

۔’’میری گزر اوقات اپنی کتابوں کی فروخت پر ہوتی رہی ہے۔ پہلے ذی اقتدار صاحبان سے رابطہ کرکے چند اسکولوں کی لائبریریوں میں لگوالیتا تھا۔ اب گورنمنٹ نے کتابی سپلائی کرنے کا کام نیشنل بک فاؤنڈیشن کو دے دیا ہے۔ میں نے اپنی بساط سے بڑھ کر 33 فیصد ڈسکاؤنٹ دینے کی پیش کش کی ہے مگر یہ لوگ یہودیت صفت ناشرین فیروز سنز ، شیخ غلام علی ، شیخ مہردین وغیرہ سے معاملہ کررہے ہیں۔ وہ کتابوں کا ٹائٹل اتار کر نیا ٹائٹل چسپاں کرادیں گے اور قیمت دس گنا بڑھادیں گے اس طرح نیشنل بک فاؤنڈیشن کو 70 فیصد ڈسکاؤنٹ دیں تو پھر بھی نفع میں رہتے ہیں۔‘‘(تاریخ درج نہیں)۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ انتقال کر گئے - BBC News اردو

احمدندیم قاسمی کے خطوط سے اقتباس
’’ہماری کوشش ہے کہ محکمہ ڈاک حافظ محمود شیرانی سے اعلیٰ درجے کے محقق کی یاد میں اکتوبر تک ایک یادگار ٹکٹ جاری کرے۔ کیا آپ اس ضمن میں کچھ امداد فرماسکیں گے۔ مشورہ عنایت کرسکیں گے؟ ۔۔۔ مجلس ترقی ادب کاسا ادارہ ، جس نے سرکاری گرانٹ سے چلنے والے سبھی اداروں کے مقابلے میں قابل رشک کام کیا ہے اور جس نے دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کا سامان کیا ہے۔ آج کل زیر عتاب ہے۔ اس کی جو گرانٹ (دو لاکھ روپے) گزشتہ جون میں منظور ہوئی تھی ، وہ آج تک Release نہیں ہوئی اور میں کتابوں کی فروخت یا بینک سے O/Dحاصل کرکے ادارے کے مشاہرے ادا کررہا ہوں۔ ایک ماہ بعد یہ گرانٹ Lapse ہوجائے گی اور نئے بجٹ میں شاید ہی اس منصوبے کے لئے کچھ رقم مخصوص ہوسکے۔ مجلس پر اس عتاب کا سبب صرف صوبائی سیکرٹری اطلاعات و ثقافت ہیں۔ جو فرماتے ہیں کہ اس ادارے کی کتابیں تو بکتی نہیں ہیں۔ پھر اسے گرانٹ کیوں دی جائے۔ جب کہ یہ ادارہ قائم ہی اس لئے ہوا تھا کہ جو کتابیں عام ناشرین نہیں چھاپتے وہ یہ ادارہ سستی قیمت پر چھاپتا رہے تاکہ علم کا خلانہ پیدا ہا۔ کیا آپ اس ضمن میں فوری طور پر ہماری امداد فرماسکتے ہیں کہ یہ گرانٹ Release ہو اور آئندہ سال کی منظور ہو؟‘‘ (26 مئی 1980ء)۔

۔’’دو نہایت اہم امور کی طرف آپ کی توجہ فوری طورپر مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ ادیبوں کے مسائل کے ضمن میں ادبی رسائل کے لئے کاغذ کا مطالبہ بھی شامل تھا کہ اس پر پچاس فیصد کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی جائے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ روزناموں اور ہفت روزوں کو اخبار کاغذ کے لئے یہ چھوٹ پہلے ہی حاصل ہے چنانچہ ادیبوں کے اس مطالبے پر تبدیلی فرمالیجئے کہ ادبی رسائل تصاویر بھی شائع کرتے ہیں اور بعض اوقات سفید کاغذ پر بلاک کی طباعت بھی کرائی جاتی ہے اس لئے ادبی رسائل کو ہر قسم کے سفید کاغذ کے سلسلے میں پچاس فیصد کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی جائے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ ثقہ اطلاع کے مطابق کالجوں اور اسکول کی لائبریریوں کے لئے صوبہ پنجاب کے محکمہ تعلیم کی طرف سے حکم جاری ہوا ہے کہ شاعری اور فکشن کی کتابیں خریدنے سے اجتناب کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیقی فنکاروں کی نگارشات کو پرکاہ کی حیثیت دی جائے۔ تخلیقی سطح پر شاعری اور فکشن ہی تو اردو ، پنجابی ، سندھی ، پشتو اور بلوچی کا سرمایہ تہذیب ہے۔ اسے لائبریریوں سے خارج کردینے کا مطلب یہ ہے کہ طلباء کو ملکی مسائل و معاملات پر سوچنے سے محفوظ رکھا جائے۔ خدارا اس سلسلے میں کچھ کیجئے اور مرکزی حکومت کی طرف سے صوبائی محکمہ تعلیم کو احکام جاری کرائے کہ اس جہالت اور حماقت سے باز رہیں۔‘‘(2 دسمبر 1980ء)۔

اعجاز الحق قدوسی لکھتے ہیں ۔۔۔
۔’’آپ کے بے پایاں الطاف و کرم جو اس فقیر کے شامل حال رہے ہیں۔ اس کی بناء پر یہ عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ غالباً مارچ میں ٹیکسٹ بک کمیٹیاں منعقد ہوتی ہیں۔ اگر اس مرتبہ آپ کی توجہ خصوصی سے ’’سندھ کی تاریخی کہانیاں‘‘ کا مسئلہ بھی پیش ہوجائے جو تقریباً دو سال سے رجسٹرار سندھ یونیورسٹی کے دفتر میں پڑا ہوا ہے تو آپ کے اس کرم کو کبھی فراموش نہ کرسکوں گا۔‘‘(25 فروری 1960ء)۔
۔’’امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوگا۔ آپ نے ازراہ کرم اس کا وعدہ بھی فرمایا تھا کہ میں لاہور جاؤں گا تو مجلس ادب والوں سے بات کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے بات کرلی ہوگی۔ براہ کرم اگر اس گفتگو سے مطلع فرمایا جائے تو میں شکر گزار ہوں گا۔‘‘ (21 مارچ 1981ء)۔

آپ نے قاسمی صاحب کے خط میں ، ادیبوں کے بارے میں زوردار موقف پڑھا۔ اب دیکھئے۔ یہ کتاب قاسمی صاحب نے شائع نہیں کی۔ بالآخر 1988ء میں اسے مکتبہ اسلوب کراچی نے شائع کیا۔ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ شاید وہ ڈاکٹر صاحب سے خوش نہیں تھے۔

عین الحق فرید کوٹی کے ایک خط سے اقتباس ۔۔۔
۔’’اب اگر آپ سے نیم ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے تو خود اپنی کتاب ’’اردو زبان کی قدیم تاریخ‘‘ کے بارے میں کچھ عرض کردوں کہ جو بڑی حد تک خود آپ کی اپنی ہی کتاب ہے کیونکہ اس کی ابتداء بھی آپ کے پرمغز مقالے سے ہوتی ہے اور انتہا آپ کے ترتیب دیئے ہوئے صحت نامہ سے ، تو یہ کتاب ادھار سدھار لے کر میں نے چھاپ تو لی ہے لیکن اس کے نکاس کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہورہا۔ اسکول اور کالجوں کی لائبریریوں کا کہنا ہے کہ وہ کتابیں ’’بک فاؤنڈیشن کے ذریعے ہی لے سکتے ہیں اور بک فاؤنڈیشن والے کہ جنہوں نے بعض مصنفین کے ہزار ہزار اور ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کے پورے کے پورے ایڈیشن نقد قیمت پر خرید رکھے ہیں ، میں باوجود انتہائی کوشش کے انہیں دس کتابیں خرید لینے کے لئے آمادہ نہیں کرسکا۔ معلوم ہوا ہے کہ ’’اکادمی آف لیٹرز‘ کے زیر غور بھی کچھ اس قسم کے منصوبے ہیں کہ وہ مصنفین کی معیاری کتابیں خرید کر لائبریریوں کو مہیا کرے گی۔ اب معلوم نہیں کہ اس کے معیار کا معیار کیا ہوگا۔ بہرحال اگر آپ ایسا انتظام فرماسکیں کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن یا بک بینک یا اکادمی آف لیٹرز میں سے کوئی ایک یا پھر تینوں مل کر میری کتاب کی کوئی ڈھائی سو کاپیاں نقد قیمت اور مناسب ڈسکاؤنٹ پر خرید لیں تو مجھے اس طرح سے قرض خواہوں کے تقاضوں سے نجات مل جائے گی اور میں سکون سے اپنی تحقیق کو جاری رکھ سکوں گا۔‘‘(3 فروری 1981ء)۔

(اسی انداز کا ایک خط نور احمد خان فریدی نے بھی لکھا ہے)
اب آخر میں ڈاکٹر احمد بشیر سابق صدر شعبہ تاریخ سندھ یونیورسٹی کے ایک خط سے اقتباس پیش کرتا ہوں۔ کتاب سے محبت رکھنے والوں کو ایسے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
’’بشیر ، ڈاکٹر احمد شعبہ جنرل ہسٹری سندھ یونیورسٹی یہ عریضہ لکھ رہا ہوں۔
بلوچ بھائی!ساری عمر کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے سوا کوئی اور شوق نہیں رہا ۔۔۔ لندن سے لایا ۔۔۔ آکسفورڈ سے منگاتا رہا اور دلی لکھنؤ اور جگہوں سے ، رجسٹروں میں درج کی ہیں تو یہ کل چھ ہزار سے زائد ہوئیں۔ تین ہزار چار سو ایک انگریزی کی کتابیں اور تین ہزار سے اوپر اردو کی (ان میں ایک سو ستر فارسی کی ہیں) انگریزی کتابیں تاریخ اور ادب پر ہیں اور اردو کتابیں شعرو ادب اور تاریخ پر۔ فارسی کتابیں تاریخ ہند کے ماخذ اور دیوان وکلیات ہیں۔ تاریخ میرا ذوق اور ذریعہ معاش بھی تھی اور شعر و ادب تفریح۔ میری نظر اب بہت کمزور ہوگئی ہے ۔ بچوں کا اردو ، فارسی سے شغف نہیں۔ اس لئے میں نے انہیں سائنس کی طرف ڈال دیا ہے۔

ان حالات میں ٗ میں اس ذخیرۂ کتب کو بیچ دینا چاہتا ہوں۔ انگریزی کتابیں اکثر نئی ہیں اور اردو کتابیں بھی نئی ہیں اور نفاست سے مجلد ۔۔۔ آپ بھی میری طرح کتابوں کے دلدادہ رہے ہیں اور اس کے ساتھ یونیورسٹیوں اور علمی اداروں سے پتہ لگاتے ہوئے کہیں نہ کہیں اس علمی ذخیرۂ کتب کی فروخت میں مدد فرمائیں۔ یہ اِدھر اُدھر سے خریدی ہوئی کتابیں نہیں بلکہ نہایت سوچ سمجھ کر علمی و ادبی کتابیں میں نے جمع کیں۔ بیچنے کے لئے نہ خریدی تھیں بلکہ ذاتی اور خاندانی کتب خانے کے لئے ۔۔۔ افسوس کہ حالات پلٹ گئے ، مذاق پلٹ گئے۔‘‘(6جون 1988ء) ۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نامور محقق اور ہمدرد انسان تھے۔ ادیب اور شاعر اپنے معاملات ان کے گوش گزار کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کیونکہ مختلف عہدوں پررہے تھے اس لئے صاحب علم لوگ ان سے مدد کی توقع رکھتے تھے۔ ان خطوں میں مسلسل اس انداز کی باتیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان اقتباسات کو پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے بڑے ادیب ، شاعر اور محقق کیسی زندگی بسر کرتے ہیں۔ بظاہر یہ معمولی باتیں ہیں لیکن ان کے لئے کتنی ضروری ہیں۔

نور احمد فریدی اور عین الحق فرید کوٹی اس کوشش میں ہیں کہ ان کی کتابیں معقول تعداد میں خریدی جائیں۔ نور احمد فریدی کا سات سو روپے کا وظیفہ بند ہونا ، اہل قلم کانفرنس میں انہیں نظر انداز کرنا افسوسناک واقعہ ہے۔ اس کانفرنس میں نوجوان بہت جوش اور جذبے سے شریک ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ اکادمی ادبیات نے فریدی صاحب جیسے بزرگ کو نظر انداز کردیا۔ اس کانفرنس پر بھی سازشیں ہوا کرتی تھیں۔ غالباً وہ کسی ایسی ہی سازش کا شکار ہوئے۔

اس کے ساتھ میں ایک اور وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ملتان میں فریدی صاحب کے ہم عصر دو نہایت اہم محقق تھے۔ ایک ڈاکٹر مہر عبدالحق اور دوسرے عتیق فکری ۔۔۔ فریدی صاحب ان سے خوش نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے ڈاکٹر مہر عبدالحق کے ترجمے کے بارے میں مناسب رائے نہیں دی اور سرائیکی ترجمے کو جان بوجھ کر پنجابی ترجمہ لکھا ہے۔ وہ اس لئے ناراض تھے کہ انہیں گرانٹ نہیں ملتی اور ڈاکٹر مہر عبدالحق نے لاکھوں روپے وصول کئے۔ انہوں نے اس ترجمے کے بارے میں ایک اور جگہ بھی لکھا ہے۔

عتیق فکری نہایت درویش انسان تھے۔ ملتان میں تحقیق کے حوالے سے ان کا کام انفرادیت رکھتا ہے۔ یہاں ان کی شخصیت کو کمتر انداز میں پیش کیا گیا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف اور مؤلف تھے۔ اب یہ تینوں بزرگ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اس لئے ہم ان کی مغفرت کے لئے دعا کرسکتے ہیں۔ میری ان بزرگوں سے نیاز مند رہی۔ میری لئے یہ تمام بزرگ قابل احترام ہیں۔

عین الحق فرید کوٹی اور ڈاکٹر احمد بشیر کے خطوط پڑھ کر میں اداس ہوا اور میں سوچنے لگا کہ جو لوگ کتابوں سے دل لگاتے ہیں وہ آخری دور میں کتنے پریشان ہوتے ہیں اور جو مصنف خود کتابیں چھاپ لیتے ہیں وہ کس مرحلے سے گزرتے ہیں۔

چند ادیبوں کا میں نے ذکر کردیا لیکن چند نام اور پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کو خطوط لکھے اور وہ اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے بلند مرتبے پر فائز رہے۔ ان میں ڈاکٹر حمید اللہ ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، ممتاز حسن ، قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی ، حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر مختار الدین احمد ، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی ، ڈاکٹر رفیع الدین ، اشفاق احمد کے علاوہ بہت سے نام شامل ہیں۔ اس کتاب میں 70 لوگوں کے خطوط شامل ہیں۔

ان خطوط کے جو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں ان سے ادیبوں کے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو تاحال اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ آج بھی موقع پرست فائدے اٹھاتے ہیں اور مستحق ادیب پریشان حال رہتے ہیں۔محمد راشد شیخ صاحب نے اس کتاب کو بہت محنت اور توجہ کے ساتھ ترتیب دیا ے۔ اس کے حواشی بھی تحریر کئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی اعلیٰ تحقیقی کام کرچکے ہیں۔ ان کی کتابوں میں ایک خاص سلیقہ اورقرینہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کا انہوں نے معیاری مقدمہ لکھا ہے جس نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ۔۔۔’’الحمدللہ! ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے حوالے سے یہ راقم کی پانچویں کتاب اب شائع ہونے جارہی ہے۔ اب انشاء اللہ آئندہ ان کی سندھی اور انگریزی کتب اور مقالات کے اردو تراجم کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ راشد صاحب کو اپنے ارادے میں کامیاب و کامران کرے اور ان کی تحقیق معیاری ادب پڑھنے والوں کے لئے تسکین کا باعث ہوگی۔ ان کا خلوص اور محنت ان کے لئے عزت اور توقیر کا باعث بنے۔ (آمین)۔

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author