این آر او
کب تک ہم اپنے آپ میں ہی مزاحمت کریں گے
اداسی اور ویرانی کا منشور
کبھی بھی انا اور خود پرستی کی مقتدر طاقتیں
ہمیں لاگو نہیں کرنے دیں گی
ہم احتجاج کریں گے
خود پر آنسوؤں سے لاٹھی چارج
حد سے گزرے تو یہ دماغ کی ریاست
ہم پر خون کے چھینٹے بھی پھینک سکتی ہے
جوابا ہم اس کا سارا نظام تباہ کرنے کے سوا
کیا کرسکتے
تھک ہار زندگی سے ایک ذلت بھرا این آر او
کرنا ہی پڑے گا
زندگی ، صحت ، اور انسانی سماج کی روایات
ماننی پڑیں گی
بدلے میں ہمیں اندھیروں کے تہہ خانے میں
اپنا اداسی اور ویرانی کا منشور
ماتمی صداؤں اور ہچکیوں کے نعروں میں
لگانے کی اجازت ہے
زندگی ایک ذلت آمیز این آر او ہے
جہاں دماغ کی اسٹیبلشمنٹ نے
ہمیشہ کیفیات کے معصوم لوگوں کا خون چوسا ہے
آہ ذلت آمیز این آر او
یہ بھی پڑھیے
”دریا او دریا، پاݨی تیݙے ݙونگھے“(وسیب یاترا :20)||سعید خاور
”ست سہیلیاں دِی کہاݨی، حقیقت یا فسانہ“ (وسیب یاترا :19)||سعید خاور
سکھر تے بکھر دِی کتھا“(وسیب یاترا :18)||سعید خاور