امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خارجہ و سلامتی کے جڑے ہوئے امور میں گڑ بڑ اتنی بڑھ گئی ہے کہ بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی ماحول میں شاید اب ازسر نو غور کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب بدلتے عالمی اور خطے کے حالات کا اپنا تحرک ہے جو ہماری سمت طے کرے گا اور ہم فقط ادھر ادھر لڑھکتے رہ جائیں گے۔ سلامتی کے دو اہم مسئلوں کشمیر اور افغانستان جنہوں نے ہماری خارجہ پالیسی کا تعین کیا، وہ اب ہمارے ہاتھ سے تقریباً نکل چکے ہیں۔ ”آزاد جموں و کشمیر“ کے انتخابات کو ہی لے لیجیے جن میں پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں نے کشمیری پارٹیوں کا مکمل صفایا کرتے ہوئے تین نکتوں پہ مہم چلائی ہے۔
تینوں جماعتوں کی مہم میں ہر جماعت نے دوسری جماعت اور اس کے رہنماؤں کو بھارت یا مودی کا یار ثابت کرنے میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وفاق اور تحریک انصاف نے مسلم لیگ نون پر کشمیر کے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ گویا انتخابات میں دھاندلی پہ سب متفق ہیں۔ تیسرا نکتہ کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے زیر بحث آیا۔ تینوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر کشمیر کو بیچنے کا الزام دھرا۔ مریم نواز نے عمران خان پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا الزام لگایا تو وزیراعظم نے دو ریفرنڈم کرانے کا عندیہ دے کر اس بات کی تصدیق کردی کہ مقبوضہ ہائے کشمیر کے دو ملکوں میں بٹوارے کا جو عمل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی نام نہاد خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارتی صوبہ اور لداخ کو وفاقی علاقہ بنانے سے شروع کیا تھا، اب پاکستان اسے دو ریفرنڈمز کروا کر مکمل کرنے جا رہا ہے۔
وزیراعظم کے بقول پہلا ریفرنڈم اس حوالے سے ہوگا کہ کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنا ہے اور پاکستان سے الحاق کی صورت میں ریفرنڈم اس سوال پر ہوگا کہ کشمیری پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ اب کوئی عمران خان سے پوچھے کہ ریفرنڈم اطراف کے کشمیریوں میں تو ہونے سے رہا کیونکہ پاکستان یا بھارت سے الحاق کے سوال پر بھارت تیار ہوگا نہ سارے کشمیری۔ اور اگر یہ صرف پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ہی میں ہونا ہے تو ظاہر ہے فیصلہ پاکستان سے الحاق کی صورت میں ہوگا۔
اور الحاق کے بعد دوسرے ریفرنڈم کا مطلب پہلے ریفرنڈم کی تنسیخ ہوگا۔ دونوں صورتوں میں برآمد ہوگا تو صرف صوبہ۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز میں اگر کوئی اتفاق کا پہلو تھا تو ان کا جھکاؤ کشمیریوں کی آزادی کی جانب تھا۔ کوئی ان دو نوجوان رہنماؤں کو کیا سمجھائے کہ برطانوی نو آباد کاروں کی وارث دو جدید نو آبادیاتی ریاستیں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو کہاں تسلیم کرنے والی ہیں۔ کشمیر تو ایک طرف فقط بھارت کے قومی جبر اور جبری الحاق کا حادثہ ہے تو دوسری جانب ہماری بھارت دشمن سلامتی کی پالیسی کا ایک مستقل مہرہ۔ دو ریاستوں کی اس کھینچا تانی میں تباہ و تقسیم ہوئے بھی تو مظلوم کشمیری۔
45 برس سے ہم افغانستان میں تزویراتی جہاد میں مصروف رہے، اس بنیادی نکتہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اس سے خود پاکستان کس طرح کے خوفناک حالات سے دوچار ہوگا۔ ہم افغانستان کی دلدل میں تزویراتی گہرائی پانے کی خوش فہمی میں خود ایک ایسے بھنور میں پھنستے چلے گئے ہیں کہ ہر نئے مرحلے میں دوسرے مرحلے کی تباہ کاریوں کو گلے سے لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے انقلاب ثور اور سوویت فوجوں کی آمد سے جنرل ضیا الحق کی آمریت کو افغان جہاد سے جو تقویت ملی اس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرہ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور جہادی کلچر کی لپیٹ میں آ گیا اور ترقی کا پہیہ الٹا چلنے لگا۔
روس روانہ ہوا تو افغان مجاہدین کی خانہ جنگی میں ہم فریق بن گئے اور جہاد کے ملبہ میں دبتے چلے گئے۔ پھر طالبان کو لایا گیا اور قرون اولیٰ کا زمانہ واپس آ گیا اور ہم دہشت گردوں کے سہولت کار قرار پائے۔ پھر نائن الیون ہو گیا اور امریکی و نیٹو افواج افغانستان پر حملہ آور ہو گئیں اور جنرل مشرف کی آمریت نے خوب دوغلا کھیل کھیلا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اور افغان طالبان کی پشت پناہی بھی۔ اس دوران 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں اور 5 ہزار فوجی جوانوں کی شہادت کو بطور کولیٹرل ڈیمیج قبول کیا گیا کہ دو دہائیوں کی خون آشام استعماری جنگ کے بعد پھر سے طالبان کا بھوت افغانستان پہ چھا جائے۔
اب دوسرے افغان جہاد کی کامیابی اور چوتھے افغان ملبے کو اٹھانے کی تیاری ہے جس میں افغان طالبان کی فتح کے جلو میں پاکستان میں آنے والی ایک اور مذہبی انتہا پسند لہر بھی شامل ہوگی۔ کوئی ارباب اختیار سے پوچھے کہ اس بے اختیار قوم کو اتنا تو بتا دو کہ اس 42 سالہ جہاد در جہاد سے کیا حاصل ہوا اور کیا تباہی مچی؟
اب دنیا ایک بڑی کروٹ بدل رہی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چین کے خلاف باقاعدہ سرد جنگ کا اعلان کر دیا ہے جو سوویت یونین کے خلاف ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگی اور جس میں فریق ثانی یعنی چین کی شکست کا دور دور تک امکان نہیں۔ اس سرد جنگ میں ترقی یافتہ مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ اپنے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور مالیاتی غلبے کو برقرار رکھنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے پہ تلے بیٹھے ہیں۔
امریکہ کا خاص نشانہ صدر ژی جن پنگ کا روڈ اینڈ بیلٹ کا عظیم الشان منصوبہ ہے جس کا ابتدائی ماڈل سی پیک (CPEC) ہے۔ اب اس ناممکن امید میں کہ کسی طرح امریکہ ہماری انگلی پکڑ لے، حکمران چین سے ”مساوی فاصلہ“ پیدا کرنے پر تیار لگتے ہیں اگر امریکہ بھارت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنے گروپ میں لے۔ تین برس سے سی پیک سرد خانے میں پڑا ہے، جو منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتے تھے وہ ابھی شروع بھی نہیں کیے جاسکے۔ یہ سب کچھ روایتی امریکہ نواز حلقے اس کے باوجود کرنے کی لا ینحل کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ واقعی پہلے والا تعلق بحال کرے گا، اور یہ بھولتے ہوئے کہ انڈو پیسفک ریجن میں چار کے بڑے ٹولے (QUAD) میں بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر چین مخالف محاذ میں سرگرم ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ ”پہلے والا تعلق“ آخر کس کے خلاف بحال کرے گا۔ سوویت یونین تو رہا نہیں، اب چین اس کا بڑا ہدف اور حریف ہے۔ بہتر ہوگا کہ پارلیمنٹ کا ایک طویل خصوصی اجلاس پاکستان کو نئی راہ سجھانے میں اپنا کردار ادا کرے اور پاکستان کو نئی گمراہیوں اور تباہیوں سے بچانے کے لئے فوری اور اہم فیصلے کرے! لیکن، یادش بخیر، پارلیمنٹ تین میں ہے نہ تیرہ میں!
بشکریہ روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر