نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان : طالبان کہاں کھڑے ہیں ؟||محمد عامر خاکوانی

پچیس تیس فیصد علاقوں پر لڑائی ہے جبکہ بمشکل پندرہ سے بیس فیصد علاقے افغان حکومت کے پاس ہیں۔ اہم سوال اب یہی ہے کہ طالبان کب بڑے شہروں پر کنٹرول سنبھالیں گے؟

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغان طالبان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے بدترین مخالف بھی اب طالبان کو ملک کی سب سے بڑی قوت تسلیم کرنے پرمجبور ہوگئے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میں طالبان کی جیت اور اقتدار پر قبضے کی آپشنز پر سنجیدگی سے تجزیے ہو رہے ہیں۔ ہر ایک کو یہ نظر آرہا ہے کہ طالبان آ رہے ہیں۔ یہ آپشن تو اب زیربحث ہی نہیں کہ افغان حکومت طالبان کو شکست دے گی۔
اس نکتے پر ہر جگہ اندازے اورماہرانہ پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں کہ افغان حکومت کابل اوردیگربڑے شہر کتنا عرصہ بچا پائے گی؟طالبان کی ہار کا تو سوال ہی نہیں،صرف یہی انتظار ہے کہ کتنا عرصہ لگے گا۔ ع جی کا جانا ٹھیر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا ۔ افغانستان کے چونتیس صوبے ہیں اور چارسو سے زیادہ اضلاع ۔ملک کو سیاسی، نسلی ،جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے سمجھنے کے لئے اسے چار حصوںمیں تصور کرلیں۔ شمال: شمالی افغانستان روایتی طور پر ازبک، تاجک آبادی کا گڑھ ہے، تاہم وہاں پشتون آبادی کی پاکٹس موجود ہیں ۔
شمال میں بلخ بہت اہم صوبہ ہے، جس کادارلحکومت مزار شریف مشہور شہر ہے۔طالبان کی گزشتہ حکومت میں مزار شریف خاصا عرصہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں آسکا تھا، بعد میں یہ طالبان کے ہاتھ آگیا۔ مشہور ازبک وارلارڈ جنرل رشید دوستم کا تعلق مزار شریف کے قریبی صوبے جوزجان سے ہے، اس کی مزار شریف پر کئی سال تک حکومت رہی ۔بلخ کی سرحد سرحدی ملک ازبکستان سے ملتی ہے۔
 اس بار طالبان نے بلخ میں کئی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ بلخ کے ساتھ قندوز کا صوبہ ہے، یہاں پشتون آبادی کی معقول تعداد موجود ہے، طالبان نے چند سال پہلے صوبے کے دارالحکومت قندوز پر قبضہ کر کے مغربی دنیا کو حیران پریشان کر دیا تھا، تاہم چند گھنٹوں بعد وہ پسپا ہوگئے تھے۔ اس بار بھی قندوز میں طالبان نے بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ قندوز کے ساتھ تخار صوبہ ہے، جس کا دارالحکومت تعلقان ہے۔ قندوز اور تخار دونوں کی سرحد تاجکستان سے ملتی ہے بلکہ قندوز ہی میں تاجکستان کے ساتھ ملنی والا اہم ترین تجارتی راستہ یا کراسنگ شیر خان بندر ہے، جس پر طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔تخار کے ساتھ شمال مشرق میں ایک اور اہم صوبہ بدخشاں ہے، اس کی ایک نوک چین کے ساتھ بھی ملتی ہے۔
اسی وجہ سے چین اس علاقے کے حوالے سے حساس رہا ہے۔ بدخشان بھی تاجک آبادی کا گڑھ ہے، معروف تاجک لیڈر استاد برہان الدین ربانی کا تعلق یہیں سے تھا، احمد شاہ مسعود دراصل ربانی صاحب کی جماعت کے مین کمانڈرتھے۔مسعود پنج شیر کے تاجک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بدخشاں کے تاجک پاکستان کے اتنے مخالف نہیں جتنی شدت پنج شیر کے تاجکوں میں ہے۔ پاکستان نے بدخشاںمیں خاصے ترقیاتی کام بھی کرائے ،تعلیمی ادارے، ہسپتال وغیرہ۔ بلخ کے ساتھ جوزجاں صوبہ ہے، جس کا دارالحکومت شبرغان جنرل دوستم کا آبائی شہر ہے۔
 اس کی سرحد ترکمانستان سے ملتی ہے۔ یہاں ترکمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ جوزجان کے ساتھ فریاب اور پھر بادغیس کا صوبہ ہے۔ ان تینوں کی سرحد ترکمانستان سے ملتی ہے۔ بادغیس میں پچھلے تین چار دن شدید لڑائی رہی۔ طالبان نے اس بار حیران کن سٹریٹجی استعمال کی اور تاجکستان ، ترکمانستان کے ساتھ ملنے والے افغان سرحدی شہروں اور تجارتی شاہراہوں، پلوں پر پہلے کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس تیزی کے ساتھ وہ ان تمام علاقوں پر قابض ہوئے کہ ابھی تک اس کی کوئی منطقی وجہ مغربی میڈیا نہیں ڈھونڈ سکا۔ کہا جا رہا ہے کہ طالبان نے پچھلے سال ڈیڑھ میں امریکہ سے معاہدہ کے بعد مقامی کمانڈروں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر کے انہیں ساتھ ملنے یا غیر جانبدار ہوجانے پر مجبور کیا۔ مغرب: مغربی افغانستان میں زیادہ تر ایران کے ساتھ ملحقہ افغان علاقے ہیں۔ ان میں سب سے اہم تاریخی شہر ہرات ہے۔
ہرات ہمیشہ سے فارسی بولنے والوں کا شہر رہا ہے۔ پرانے وارلارڈ اور کمانڈر اسماعیل خان طویل عرصہ اس کے گورنر رہے، تاہم اشرف غنی نے انہیں ہٹا دیا۔ طالبان نے ہرات پر حملہ کر کے ایران کے ساتھ ملنے والے تجارتی روٹ پر بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ہرات میں انہیں خاصی کامیابیاں ملی ہیں۔ہرات کے ساتھ فراہ صوبہ ہے۔ سنٹر: سنٹرل افغانستان میں ہزارہ جات کا علاقہ ہے، ان میں سب سے اہم بامیان ہے، یہی وہ علاقہ ہے جہاں ماضی میں طالبان نے پہاڑوں میں بنائے گئے بدھا کے تاریخی مجسمے بارود سے اڑا دئیے تھے۔
بامیان کے ساتھ غور اور دیکنڈی کے صوبے بھی ہزارہ کا گڑھ ہیں۔ ویسے ہزارہ آبادی کا کچھ حصہ ان سے ملحقہ صوبوں وردک خاص کر میدان شہر اور غزنی، اورزگان صوبوں میں بھی ہیں۔ہزارہ سیاسی طور پر شیعہ پرو ایران تنظیم حزب وحدت کے ساتھ رہے ہیں۔ طالبان نے ابتدائی ہفتوںمیں ہزارہ جات کے ساتھ محاذ نہیں کھولا، تاہم دو دنوں سے بامیان اور دیگر علاقوں میں بھی گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ کابل سب سے اہم افغان شہر ہے، روایتی طور پر یہاں قبضے کا مطلب پورے افغانستان پر کنٹرول ہے، جس کے ہاتھ میں کابل ہے، وہی افغانستان کا باقاعدہ حکمران تصور ہوتا ہے۔ طالبان نے کابل کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔
کابل سے ملحقہ صوبوں لغمان، وردک، پروان اور لوگر میں لڑائی جاری ہے، طالبان نے یہاں کئی اہم اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے، خاص کر پروان میں انہیں کامیابیاں ملی ہیں۔ بغلان کے ساتھ پنج شیر کا صوبہ ہے، جہاں تاجک لیڈر احمد شاہ مسعود کا ہمیشہ مضبوط کنٹرول رہا۔ طالبان نے ابھی دانستہ ادھر توجہ نہیں کی۔ جنوب : افغانستان کے جنوب میں تین اہم صوبے ہیں، قندھار ان میں اہم ترین ہے۔ قندھار شہر افغانستان کا دوسرا اہم ترین شہر ہے۔ یہ طالبان تحریک کو سب سے پہلے یہاں کامیابی ملی، کہا جاتا ہے کہ طالبان کے مرکزی سٹرکچر میں کمانڈر کا قندھاری ہونا بہت اہم ہے۔ قندھار کے ساتھ ہلمند کا صوبہ ہے جہاں نیٹو فورسز کی برسوں طالبان کے ساتھ خونریز جنگیں ہوئیں، برطانوی فوجیں اسی علاقے میں متعین تھیں اور ان کے بہت سے فوجی یہاں ہلاک ہوئے تھے۔اس کے ساتھ نیمروز کا نہایت پسماندہ افغان صوبہ ہے، یہاں پر مقامی آبادی کا کچھ حصہ بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔
 یہ تینوں صوبے پاکستانی علاقہ بلوچستان سے ملتے ہیں۔ اس وقت قندھار میں لڑائی جاری ہے، طالبان کی پوری کوشش ہے کہ قندھار پر کنٹرول سنبھالا جائے، وہ شہر کے قریبی علاقوں اور پوسٹوں پر قبضہ کر چکے ہیں، ہلمند میں بھی جنگ چل رہی ہے۔قندھار کے ساتھ تھوڑا اوپر زابل اور پھر غزنی کے صوبے ہیں۔ غزنی میں طالبان کی شدید جنگ جاری ہے، انہوں نے بعض اہم اضلاع پر بھی قبضے کئے ہیں۔ مشرق: افغانستان کا مشرقی حصہ پاکستان کے ساتھ ملتا ہے۔ یہاں پر کئی افغان صوبے ہیں۔ خوست مشہورصوبہ ہے۔ خوست کے ساتھ پکتیکا، پکتیا، ننگرہار، لوگر، ننگرہار جس کا معروف شہر جلال آباد ہے، یہ سب علاقے پشتون بیلٹ میں ہیں اور یہاں پچھلے پندرہ برسوں میں طالبان کی موجودگی نمایاں رہی ۔ ماضی میں حزب اسلامی حکمت یار کا ننگرہار، لوگر کے کچھ علاقوںمیں اثرورسوخ تھا، داعش کی موجودگی کے اثرات بھی انہی علاقوں میں ہیں، ننگرہار کا ضلع خوگیانی خاص طور سے داعش کا مستقر رہا ہے۔
ان سے تھوڑا اوپر مشرقی افغانستان ہی میں نورستان اور کنٹر کے دشوار گزار افغان صوبے ہیں۔ ان دو صوبوں سے امریکی افواج چار پانچ سال پہلے ہی دست بردار ہوگئی تھی کہ یہاں کنٹرول مشکل تھا اور جانی نقصان بڑھ رہا تھا۔ یہ صوبے چونکہ پاکستانی صوبہ خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقوں وزیرستان، باجوڑ وغیرہ سے ملتے ہیں، اس لئے ٹی ٹی پی کے لوگ بھی پسپا ہو کر نورستان اور کنڑ میں پناہ گزیں ہوئے۔ ملا فضل اللہ خاصا عرصہ کنڑ میں رہا اور وہیں پر امریکی ڈرون کا نشانہ بنا۔ طالبان کی حکمت عملی واضح ہوچکی ہے۔ انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں بیک وقت جنگ شروع کی تاکہ حکومت کو گڑبڑایا جا سکے۔
شمالی علاقوں پر تند وتیز حملے کر کے قندوز، بلخ، تخار، بدخشان وغیرہ میں کامیابیاں لیں اور تاجکستان، ترکمانستان ، ازبکستان کے ساتھ ملنی والے سرحدی علاقوں پر گرفت مضبوط کی۔ وجہ یہ ہے کہ پچھلی بار شمالی اتحاد کو تاجکستان ہی سے بھارت نے اسلحہ اور دیگر امدادی سامان مہیا کیا تھا، ترکمانستان اور ازبکستان بھی تب طالبان کے خلاف استعمال ہوئے تھے۔ طالبان نے ہرات کے ساتھ ملنے والی ایرانی سرحد پر بھی کنٹرول کرلیا ہے، وہ چین کے ساتھ وا خان کاریڈور پر بھی قابض ہوگئے ہیں۔انہوں نے بڑے پانچ سات افغان شہروں کابل، قندھار، مزار شریف، فیض آباد، قندوز،شبرغان، جلال آباد، ہرات وغیرہ کو یو ں گھیرے میں لے لیا کہ ہر ایک کا باہمی رابطہ کٹ گیا۔ کہا جارہا ہے کہ طالبان نے نصف سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول کر لیا ہے۔
 پچیس تیس فیصد علاقوں پر لڑائی ہے جبکہ بمشکل پندرہ سے بیس فیصد علاقے افغان حکومت کے پاس ہیں۔ اہم سوال اب یہی ہے کہ طالبان کب بڑے شہروں پر کنٹرول سنبھالیں گے؟ کابل نہ سہی، اگر وہ مزار شریف، جلال آباد، قندھار، قندوز وغیرہ پر کنٹرول کرلیتے ہیں تو طاقت کا بیلنس مکمل طو رپر ان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ طالبان کے حامی پرامید ہیں کہ امریکی فوج کے مکمل انخلا تک ہی توازن طالبان کی طرف بہت زیادہ جھک جائے گا۔ افغان حکومت ظاہر ہے اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے اور وہ علاقے چھن جانے کو اپنی حکمت عملی بیان کر رہے ہیں، ایسی بات جس پر دنیا میں کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author