نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند عالمی ادارے دنیا بھر میں خوراک، صحت عامہ اور کسی ملک میں خانہ جنگی کی وجہ سے مہاجرین کے ممکنہ سیلاب سے جڑے مسائل پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ ان کے دفاتر اور نمائندے اسلام آباد میں بھی موجود ہیں۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے بعد میں ان سے رابطے میں نہیں۔ تاہم جو دوست پیشہ وارانہ تقاضوں کی وجہ سے ان سے میل ملاقات رکھتے ہیں ان میں سے دو افراد کی بدولت چند ہفتے قبل ایک ”خبر“ ملی تھی۔ میں نے اسے بہت اہم محسوس کیا اور اس کالم میں ذکر بھی کر دیا۔
خبر یہ تھی کہ مذکورہ بالا ادارے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے کامل انخلاء کے بعد اگر اس ملک میں خانہ جنگی شدت سے پھوٹ پڑی تو ممکنہ طور پر کتنے لوگ دیگر ممالک کا وہاں پناہ لینے کی خاطر رخ کریں گے۔ پاکستان اس ضمن میں اہم ترین شمار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم از کم تین سے چار لاکھ افغان ہمارے ہاں آنا چاہیں گے۔
1980 کی دہائی میں ماضی کے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے ہمارے ہاں اس ملک سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہوا۔ ڈیورنڈ لائن کی ان مہاجرین کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ضیاء حکومت بھی ان کی پاکستان آمد کے خلاف نہیں تھی۔ اس نے افغان مہاجرین کی مدد کے لئے اپنے تئیں بلکہ ”انصار مدینہ“ جیسا رویہ اختیار کرنا چاہا۔ ہمارے عوام کی اکثریت مگر افغان مہاجرین کی آمد سے خفا رہی۔ یہ تصور عام ہوا کہ ان کی وجہ سے ہمارے ملک میں بدامنی پھیل رہی ہے۔ خونی اسلحہ اور منشیات پاکستان کے ہر شہر میں بآسانی دستیاب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ چند افغان گروہ ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا سبب بھی ٹھہرائے گئے۔ ہماری حکومتوں کو یہ اطلاعات بھی ملیں کہ افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عناصر یہاں موجود مہاجرین میں سے کئی افراد کو تخریب کاری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان کے مذہبی اور نسلی بنیادوں پر انتہا پسند ہوئے عناصر کو افغانستان میں پناہ گاہیں بھی فراہم ہوتی ہیں۔
مذکورہ بالا تاثر یا حقائق نے بالآخر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مجبور کیا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب ہوئی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ کامل نگرانی کو موثر تر بنانے کے لئے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ شنید ہے کہ پاک۔ افغان سرحد کے 90 فی صد حصے پر یہ باڑ لگائی جا چکی ہے۔ اس باڑ کے ہوتے ہوئے افغانوں کے لئے ماضی کی طرح پاکستان میں بلا کسی روک ٹوک کے آمد ممکن نہیں رہی۔
مذکورہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عالمی ادارے یہ جاننے کو بے چین ہیں کہ پاکستان افغان مہاجرین کے ایک اور ممکنہ سیلاب کی بابت کیا رویہ اختیار کرے گا۔ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ پاکستان اب کی بار ماضی والی کشادہ دلی نہیں دکھائے گا۔ کشادہ دلی نہ برتی گئی تو چمن اور طورخم کے اس پار افغان شہریوں کے ہجوم جمع ہوجائیں گے۔ عالمی نشریاتی ادارے انہیں انسانی بحران کے طور پر اجاگر کریں گے جو عالمی اداروں کو ”کچھ کرنے“ پر مجبور کردیں گے۔
ہمارے میڈیا میں ممکنہ بحران کا خاطر خواہ ذکر نہیں ہو رہا۔ حال ہی میں سیاسی قیادت کو افغانستان کی صورت حال کے بارے میں عسکری قیادت نے جو بریفنگ دی ہے اس میں کافی صراحت سے افغان مہاجرین کے ممکنہ سیلاب کا ذکر ہوا۔ وزیر داخلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی بعد ازاں اس کے بارے میں چند باتیں کہیں۔ ٹھوس حقائق تک رسائی کے بغیر میں فقط اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ پاکستان کی بنیادی خواہش یہ ہوگی کہ مہاجرین کے ممکنہ سیلاب کو پاکستانی سرحدوں کے اس پار افغان سرزمین ہی کے چند علاقوں کو عالمی برادری کی بھرپور معاونت سے ”محفوظ“ بنا کر وہیں تک محدود رکھا جائے۔ ترکی نے گزشتہ کئی مہینوں سے شام میں پناہ کی خاطر گھر سے بے گھر ہوئے افراد کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ یورپی ممالک کو یہ خدشہ تھا کہ ترکی میں داخلے کے بعد شام سے نکلے مہاجرین ان کے ہاں بسنے کی راہیں ڈھونڈنا شروع ہوجائیں گے۔ شامی مہاجرین کو ترکی تک محدود رکھنے کے لئے لہٰذا اردوان حکومت کو یورپی ممالک نے خاطر خواہ رقم فراہم کی۔ ترکی نے بالآخر یہ محسوس کیا کہ اسے ملی رقم کافی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ترک لوگوں کی اکثریت نے شامی مہاجرین کی بابت ویسا ہی سوچنا شروع کر دیا جو پاکستان کے عوام کی اکثریت افغان مہاجرین کے بارے میں محسوس کرتی ہے۔ شام سے بے گھر ہوئے افراد کا اب ترکی میں داخلہ تقریباً ناممکن ہے۔
1980 کی دہائی میں پاکستان کے برعکس ایران نے افغان مہاجرین کے ساتھ کشادہ دل رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔ ان کے لئے چند علاقے مختص کر دیے گئے تھے۔ افغان مہاجرین کو کڑی نگرانی کے تحت وہیں تک محدود رکھا جاتا۔ پاکستان کی اب یہ خواہش ہے کہ افغان مہاجرین کے ممکنہ سیلاب کو ڈیورنڈ لائن کے اس پار افغان سرزمین تک ہی محدود رکھنا اگر ممکن نہ رہے تو ہم اس بار افغان مہاجرین کے بارے میں ایرانی حکومت جیسا رویہ اپنائیں۔ اس خواہش پر حقیقی عملدرآمد پاکستان کے مخصوص سیاسی اور ثقافتی ماحول کی وجہ سے غالباً بہت دشوار ہوگا۔ ہمارے ہاں گزشتہ چند برسوں سے پشتون قوم پرستی کی ایک نئی لہر بھی ابھری ہے جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب آباد افغانوں کو ”ایک“ پکارتی ہے۔ یہ لہر پاک۔ افغان سرحد پر لگائی باڑ کی بھی مخالف ہے۔ ہماری حکومت کو افغانستان سے ممکنہ طور پر آئے مہاجرین کے نئے سیلاب کے بارے میں حکمت عملی تیار کرتے ہوئے اس لہر کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔
معاملہ نہایت گمبھیر ہے۔ قومی سلامتی کے بارے میں ہوئی بریفنگ کے دوران ہماری سیاسی جماعتیں مگر اس کے بارے میں زیادہ متفکر محسوس نہ ہوئیں۔ ان کی زیادہ توجہ یہ جاننے پر ہی مرکوز رہی کہ امریکہ کو پاکستان میں افغانستان پر نگاہ رکھنے والے اڈے یا سہولتیں فراہم کی جائیں گی یا نہیں۔ افغان مہاجرین کے ممکنہ سیلاب کو ”بحران“ کی صورت زیر بحث نہیں لایا گیا۔ میڈیا بھی اس حوالے سے غافل اور لاتعلق نظر آ رہا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر