ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان کی تاریخ بھی اپنی نوعیت کی منفرد اور انوکھی تاریخ ہے۔ ایک ایسا ملک پر جس پر ہر طاقتور نے حکمرانی کرنی چاہی اور کچھ مدت کے لیے تخت کابل پر براجمان بھی ہوا مگر بالآخر اس کو یہ تخت چھوڑنا پڑا۔ افغانستان کی تاریخ ویسے تو بہت قدیم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کم وبیش پچاس ہزار سال سے اس علاقے میں انسانی آبادیوں کا ذکر ملتا ہے اور یہاں کی زراعت کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین زراعت میں ہوتا ہے تاہم دو ہزار سال قبل آریاوں نے افغانستان پر لشکر کشی کی اور اس پر قبضہ کر لیا بعد ازاں یہ قبضہ ایرانیوں نے ختم کرایا۔ 329 قبل مسیح میں الیگزینڈر دی گریٹ سکندر اعظم نے اس کو ایرانیوں سے چھین لیا مگر وہ بھی زیادہ مدت تک اس پر قبضہ برقرار نا رکھ سکا۔ اس کے بعد سے لے کر 642 تک افغانستان کو ایرانیوں، ساسانیوں، منگولوں اور دیگر اقوام نے فتح کیا مگر زیادہ دیر تخت پر براجمان نہ رہ سکے۔
642 میں مسلمانوں نے اس خطے کو فتح کر لیا اور اس پر خراسانی عربوں کی حکومت رہی۔ 998 میں محمود غزنوی نے خراسانی راج کا خاتمہ کیا اور افغانستان کو فتح کر لیا۔ تاہم غوریوں نے طاقت کے زور پر 1146 میں غزنوی حاکموں کو شکست دے کر ان کو غزنی تک محدود کر دیا۔ مگر کچھ ہی سالوں بعد 1219 میں منگولوں نے افغانستان کو نشان عبرت بنا دیا۔ منگولوں نے ہرات، غزنی اور بلخ جیسے شہروں کو مٹی کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا۔ تباہی و بربادی کی یہ داستان اس وقت ختم ہوئی جب منگولوں نے اسلام قبول کر لیا اور امیر تیمور نے ایک سلطنت کی بنیاد رکھی۔
آل تیمور سے ظہیر الدین بابر نے پہلی بار سولہویں صدی عیسوی میں کابل کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ تاہم آئندہ دو صدیوں تک افغانستان کو سیاسی وحدت نہ مل سکی اور نا ہی تخت کابل کو افغانیوں نے تسلیم کیا۔ افغانستان بنیادی طور پر تین حصوں جس میں شمالی حصے پر ازبک، مغربی حصے پر ایرانی صفیوں اور مشرقی حصے پر مغل اور پشتون قابض رہے۔
افغانستان کی تاریخ میں درانی عہد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ احمد شاہ درانی جس کو احمد شاہ ابدالی کہا جاتا ہے کو 1747 میں نادر شاہ درانی کے قتل کے بعد لو یہ جرگہ نے نیا امیر چن لیا۔ احمد شاہ ابدالی نے قندھار میں حکومت قائم کی اور پورے ملک کو ایک سیاسی وحدت بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس دوران احمد شاہ ابدالی نے 1761 میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دے کر برصغیر کی تاریخ کو بدل دیا۔ اس کے بعد پنجاب میں سکھوں نے طاقت پکڑنا شروع کردی۔ تاہم افغانستان ایک مستحکم ملک بن چکا تھا۔ 1772 کے بعد افغانستان پر احمد شاہ ابدالی کے جانشینوں کی حکومت رہی اور 1823 میں اس کے جانشین ایوب شاہ کو قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد محمد شاہ تخت کابل پر بیٹھا۔
تاہم 1826 میں امیر دوست محمد خان والی کابل بنا۔ امیر دوست محمد خان نے روس اور ایران سے تعلقات بہتر کرنے شروع کیے تو یہ بات انگریزوں کو پسند نہ آئی انہوں نے کابل پر چڑھائی کا فیصلہ کیا اور یوں 1839 سے 1842 تک پہلی جنگ لڑی گئی اور امیر دوست محمد خان کو گرفتار کر کے کابل پر قبضہ کر لیا۔ افغان بہادری کے ساتھ لڑے اور سولہ ہزار برطانوی فوج میں سے سوائے ایک شخص کے باقی سب کو قتل کر دیا۔ جس پر انگریز پسپا ہوئے اور امیر دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ امیر دوست محمد خان نے ہرات پر قبضہ کر لیا۔ برٹش ایمپائر نے دوسری جنگ 1878 تا 1880 تک اس لیے لڑی گئی کہ امیر کابل شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہائش کی اجازت نہ دی۔ 1880 میں ہونے والی جنگ کے بعد انگریزوں کے حمایت یافتہ امیر عبدالرحمن نے کابل پر قبضہ کر لیا۔
انگریزوں نے افغانستان کو بطور ایک آزاد ملک تسلیم کر لیا اور امیر عبدالرحمن اور اس کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان کے دور میں افغانستان میں انگریزوں کا اثر رسوخ بڑھ گیا۔ مغرب نواز ہونے کے سبب امیر حبیب اللہ کو فروری 1919 میں قتل کر دیا گیا اس کے بعد اس کا بیٹا امیر امان اللہ خان بادشاہ بن گیا۔ اور اس نے انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ جس کے بعد 19 اگست 1919 کو افغانیوں اور انگریزوں کے مابین راولپنڈی میں معاہدہ ہوا اور اس کے بعد انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کر دیا۔
امیر امان اللہ خان ترکی کے ترقی یافتہ ماڈل سے بہت متاثر تھا اور کمال اتا ترک والی اصلاحات افغانستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی تو افغان قبائل نے بغاوت کردی۔ 1928 میں شنواری قبائل نے جلال آباد میں بغاوت کردی۔ شمالی افغانستان سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے امیر امان اللہ افغانستان سے فرار ہو کر پہلے انڈیا پھر سوئزرلینڈ چلا گیا۔
جنرل نادر خان جو امیر امان اللہ کا رشتہ دار تھا نے 1929 میں کابل کے تخت پر قبضہ کر لیا تاہم 1933 میں اس کے قتل کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹے ظاہر شاہ کو بادشاہ بنایا گیا۔ ظاہر شاہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا جس نے 40 سال تک حکومت کی۔ ظاہر شاہ کے کزن سردار داود نے روس کی مدد سے 1973 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر لیا جس پر ظاہر شاہ فرار ہو گیا جبکہ سردار روداد کو ایک اور بغاوت میں 1978 میں قتل کر دیا گیا۔
اس کے بعد روس کے تعاون سے نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ افغانستان میں کمیونزم کا پرچار شروع ہو گیا۔ امریکہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور امریکی سی آئی اے نے فسادات شروع کرا دیے۔ جس پر کابل حکومت کی درخواست پر روس 1979 میں اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں اور افغانستان پر عملی طور پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد امریکہ کے تعاون سے افغان جہاد شروع ہوا اور ایک طویل جنگ کے بعد 1988 میں جنیوا معاہدہ ہوا جس کے بعد 1989 میں روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ تاہم اس کے باوجود روس نے افغانستان میں نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی۔
تاہم 1992 میں جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کے فوجوں نے کابل پر قبضہ کر کے افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد افغان جہاد میں شامل مختلف گروہوں کے مابین تخت کابل کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس خانہ جنگی کو روکنے کے لیے اسلامی جہادی کونسل تشکیل دی گئی جس کی صدارت پہلے صبغت اللہ مجددی اور اس کے بعد برہان الدین ربانی نے کی۔ تاہم پشتو اور فارسی بولنے والوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی اور پشتونوں کو لگا کہ ان کی بات نہیں سنی جا رہی اور حکومت میں بھی ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے تو پشتون جمع ہونا شروع ہوئے۔
اور مدارس کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا گیا جن کو بعد ازاں طالبان کا نام دیا گیا۔ 1996 میں طالبان نے کابل پر ملا عمر کی سربراہی میں قبضہ کر لیا اور افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا اور طالبان نے ملا عمر کو امیرالمومنین تسلیم کر لیا۔ 2000 تک طالبان افغانستان کے 95 فیصد رقبہ پر قابض ہو کر امن قائم کرچکے تھے۔ تاہم طالبان کی حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی نے تسلیم نا کیا۔ یورپ نے شمالی اتحاد کی مدد جاری رکھی۔
11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا اور یہ ٹاورز تباہ ہو گئے۔ امریکہ نے اس کا الزام افغان جہاد کے اہم کمانڈر اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر عائد کیا اور 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ افغان تاریخ میں برطانیہ، روس کے بعد یہ تیسری سپرپاور تھی جو افغانستان پر حملہ آور ہوئی اور پھر اس پر قبضہ کر لیا۔ افغانیوں نے امریکہ کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں کم وبیش 38 ہزار افغان عام شہری مارے گئے اور 70 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
جبکہ 2400 امریکی فوجی ہلاک اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ بالآخر امریکہ اور طالبان کے درمیان 2020 میں دوحہ میں ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق یکم مئی 2021 سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہونا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق امریکی فوج کا انخلا شروع ہو چکا ہے اور یہ اب مکمل ہونے کے قریب ہے۔ اور افغانستان میں ایک بار پھر طالبان کا مختلف شہروں اور اضلاع پر قبضہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز نے طالبان سے جنگ کرنے کی بجائے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے ہیں۔
یوں افغانستان ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود یہ اعزاز بہرحال رکھتا ہے کہ اپنے عہد کی تین سپر پاورز یکے بعد دیگرے یہاں سے شکست کھا کر نکلی ہیں۔ پہلے برطانیہ پھر روس اور اب امریکہ ناکام ہو کر افغانستان سے نکل رہے ہیں۔ افغانستان کو اگر سپر پاورز کا قبرستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان کی داخلی امن وامان کی صورتحال کیسی رہتی ہے۔ اگر افغانستان کے اندر امن مذاکرات نا ہوئے اور اقتدار کا کوئی فارمولہ تشکیل نا پایا تو ایک ایسی ہولناک خانہ جنگی شروع ہو گئی جس سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر