ڈاکٹر ناصر عباس نیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فحاشی کا مسئلہ، بلاشبہ مذہبی اصلاح پسندوں اور ریاست کو طاقت کے اندھے استعمال کی غیر معمولی ترغیب دیتا ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اخلاقی اصلاح کے طوفانی جوش اور ریاستی جبر کو کسی ردّعمل کا سامنا نہیں ہوتا اور انھیں اپنی طاقت کے یک طرفہ استعمال کی کھلی چھٹی ملتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ادب کے خلاف فحاشی کی فردِ جرم، ادیبوں کے لیے ایک آزمائش تو ثابت ہوتی ہی ہے، انھیں ادب کی نہاد اوراس کی روشنی میں ادب کے سماجی کردار پر از سرِ نو غور کا موقع بھی ملتا ہے۔ ادب کی نہادِ حقیقی کی جستجو میں، ادیبوں پر پہلا انکشاف یہ ہوتا ہے کہ ادب فحش نہیں ہوتا؛ ادب میں وہ ترغیب موجود ہی نہیں ہوتی، جسے فحاشی کی بنیاد گردانا جاتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں جن ادیبوں (بادلیئر، وولٹیئر، لارنس، منٹو، ارون دھتی رائے) پر فحش نگاری کے الزامات عائد ہوئے، کسی نے ادب کے فحش ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت ‘ پر فحاشی کے مقدمے میں اپنا بیان جمع کرواتے ہوئے کہا کہ ” یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ادب ہر گز ہرگز فحش نہیں ہو سکتا۔ افسانہ ’ٹھنڈا گوشت ‘ کو اگر ادب کے دائرے سے باہر کر دیا جائے تو ا س کے فحش ہونے نہ ہونے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔“ یہ انکار ایک طرف اس بات کے پر زور اثبات سے عبارت ہے کہ ادیب کو آزادی حاصل ہے ؛ وہ اس بات کو اپنی آزادی کے خلاف سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کی آزادی کے تصور اور آزادی کے حدود کا تعین کرے، دوسری طرف اس امر کو باور کرانا مقصود ہے کہ ادب پر اخلاقی زاویہءنگاہ سے بحث کا مطلب ایک ایسے تناظرکو حاکمانہ مرتبہ دینا ہے جو ادب کی نہادِ حقیقی کے سلسلے میں ”اندھا“ ہے۔ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار! ادب پر بحث ادبی تناظر ہی میں روا ہے؛ اخلاقی اور سماجی تناظر ادب کے سلسلے میں اندھا ہوتا ہے کہ وہ ادب کی تفہیم، ادب کی شرط پر نہیں، اپنے مطالبات کی روشنی میں کرنے پر بضد ہوتا ہے۔ چناں چہ فحاشی کا مسئلہ ایک سطح پر اخلاقی اقدارکے مقابلے میں ادبی اقدار کی خود مختاری کے تحفظ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ تاریخی طور پر ادیب کی آزادی کا یہ تصورانیسویں صدی کی جمال پسندی کی تحریک کا زائیدہ ہے جس نے ادب کو کسی بھی خارجی معیار سے جانچنے کی کسی بھی روش سے انکار کیا۔ اس انکار کی بنیاد اس یقین پر تھی کہ ادب کی جمالیات، انسان کی ایک ایسی عظیم یافت ہے، جس کے آگے تمام دیگر سرگرمیاں ہیچ ہیں۔ چناں چہ جمالیات، ادب کو خود مختار بناتی ہے اور اس کی جانچ کا واحد پیمانہ خود ادب کو قرار دیتی ہے۔ مثلاً آسکروائلڈ کا مشہور قول ہے کہ ادب اچھا یا برا لکھا ہوا ہوتا ہے؛ اخلاقی یا غیر اخلاقی نہیں ہوتا۔
دوسری طرف فحاشی کے بیانیے کی جہت اس کے یک سر بر عکس ہے: یہ بیانیہ اخلاقی قدر کو اپنے مرکز میں رکھتا اور جمالیاتی قدر کو حاشیے پر دھکیلتا ہے۔ ”آرٹ اینڈ اوبسینٹی“ کے مصنف کرٹسن مے کے بہ قول ” فحاشی سے متعلق محاکمہ نہ صرف اخلاقی مذمت سے وابستہ رہا ہے، بلکہ یہ کسی بھی جمالیاتی قدر کے انکار کے مساوی رہا ہے۔ اس لیے فحاشی سے متعلق فیصلہ عموماًادب (یا عمل)کی اعلیٰ آرٹ کے مرتبے اور اخلاقی طور پر قابلِ قبول ہونے، قانونی طور پر جائز ہونے اور فکری طور پر ارفع ہونے کے دائرے سے خارج کرنے کا تعین کرتا ہے۔ ان منطقوں] اعلیٰ آرٹ، اخلاق، قانون، فکر[سے ادب کا اخراج اس امر کی توثیق کردیتا ہے وہ کہ ادب گھٹیا، ناشائستہ، غلیظ یا عر یاں و فحش ہے اور اسے سرکاری کلچر، شناخت اور تائید]سے محروم کرکے [حاشیے پر دھکیل دیا جاتا ہے۔ “فحاشی کے نام پر ادب کو حاوی کلچرکی وضع کردہ شناختوں سے محروم کرنے کا عمل، اسے طاقت و مفادات کا کھیل بنا دیتا ہے۔ اس بات کی ایک بدیہی شہادت تو یہ ہے کہ ریاست کے آئین میں فحاشی کو اوّل تو واضح ہی نہیں کیا جاتااور اگر تھوڑی بہت لفظ فحش پر روشنی ڈالی بھی جاتی ہے تو وہ بے حد غیر واضح ہوتی ہے۔ نو آبادیاتی عہد کی دفعہ 292 (جو آج بھی پاکستان اور بھارت کے قانون تعزیرات کا حصہ ہے) میں فقط فحش مواد کی ترسیل کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ جو بھی ہو، نتیجہ یہ ہے کہ کسی کتاب یا فن پارے کے فحش ہونے کا فیصلہ ایک جج کرتا ہے، جو ریاستی مشینری اور اس کی طاقت کا نمایندہ ہوتا ہے۔ اسے فحاشی کی تعریف وضع کرنے اور تشریح کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ مقتدر طبقہ، خواہ وہ مذہبی اصلاح پسندوں پر مشتمل ہویا ریاست ہو، ادب کو ناشائستہ، گھٹیا اور بد نہاد قرار دے کر ادیب کی اس آزادی کو پابندِ سلاسل کرنا چاہتا ہے، جوطاقت، جبر، استحصال اور سماجی
آلودگیوں کو طشت از بام کرتی یا اس کا امکان رکھتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ زیادہ تر انھی ادیبوں اور فنکاروں پر فحاشی کے الزامات عائد ہوئے جنھوں نے بے باکانہ سماجی یا نفسیاتی حقیقت نگاری کی روایت میں تخلیقات پیش کیں اور ان میں اصلاح پسندوں کے دعووں کی قلعی کھولی گئی تھی یا ریاست کے نظریاتی جبر تلے سسکتے وجود کے زخموں سے پردہٹایا گیا تھا۔ اسے شاید ادب کا ایک اسرار ہی کہنا چاہیے کہ ادیب اپنی آزادی ادب کی جمالیات پر ناقابلِ شکست ایقان سے اخذ کرتا ہے، مگر اپنی آزادی کی حفاظت کے ضمن میں سماجی مقتدرہ سے متصادم ہوتا ہے۔ جمالیات اپنی خودمختاری کے دعوے میں سماجی و اخلاقی قیود سے بغاوت کرتی ہے مگر وہ کبھی ”غیر سماجی“ نہیں ہوتی۔ دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ فحاشی کی زد پر آئے کسی متن میں بھی جنس بنیادی موضوع نہیں تھا (حالاں کہ جنس موضوع ہو سکتا ہے)؛ ان میں جزوی طورپر، بنیادی موضوع کے تاثر کو واضح یا شدید بنانے کے لیے جنسی عمل کی کچھ تفصیل یا جنسی الفاظ در آئے تھے۔ یہ سب مبین مرزا کے مضمون سے بھی ظاہر ہے۔ انھوں نے فحاشی کے الزام کی زد پر آئے ہوئے منٹو کے افسانوں کا نہایت عمدہ دفاع کیا ہے اور اپنے دفاع کی بنیاد فن کی جمالیات اور شعریات پر رکھی ہے۔ اس طرح یہ باور کرایا ہے کہ ادب میں فحاشی اصلاً فنی معاملہ ہے۔ میرے خیال میں مرزا صاحب کا منٹو، سولزے نتسن، کنڈیرا کی تحریروں اور فلموں رام تیری گنگا میلی اور روٹس کا فحاشی کے تناظر میں تجزیہ خود انھی کے بنیادی تھیسس سے غیر ہم آہنگ ہے؛ اس لیے کہ یہ سب مصنفین اور فلمیں اس عہد سے تعلق رکھتے ہیں جوان کے تھیسس کے مطابق ”مذہبی اور روایتی اخلاقیات “ سے عاری ہے۔
فحاشی کے مقدمات نے، اس مسئلے کی نسبت سے اگر مذہبی اور سیاسی طاقت کے کھیل کی کچھ رمزیں منکشف کی ہیں توادب میں فحاشی کے بے حد پیچیدہ سوال کے کچھ موزوں جوابات فراہم کرنے کی طرف پیش رفت بھی ان میں ملتی ہے۔ مثلاً ادب پر فحاشی کے الزام کے جواب میں عام طور پر کہا گیا ہے کہ فحاشی کو مصنف کی نیت اور اس کے اثر کی روشنی میں طے کیا جانا چاہیے۔ منٹو نے اپنے افسانے ’دھواں‘کے دفاع میں لکھتے ہوئے واضح کیا کہ ” تحریر و تقریر میں، شعر و شاعری میں، سنگ سازی و صنم تراشی میں فحاشی تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کی ترغیب ٹٹولنی چاہیے، اگر یہ ترغیب موجود ہے، اگر اس کی نیت کا ایک شائبہ بھی نظر آرہا ہے تو وہ تحریر وہ تقریر، وہ شعر، وہ بت قطعی طور پر فحش ہے۔“ یہی اصول نیویارک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج جان ایم وولسی نے جیمس جوائس کے شہرہ آفاق ناول ’یولی سس‘ پر فحاشی کے مقدمے کا فیصلہ لکھتے ہوئے پیش ِ نظر رکھے تھے۔ یولی سس، جب 1918ء میں ’دی لٹل ریویو‘میں شایع ہونا شروع ہوا تھا تو اس پر فحش ہونے کا الزام عائد کیا جانے لگا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک آئرش ناول پر فحاشی کا الزام امریکا کی ایک تنظیم ” انجمن براے انسدادِ گناہ“ نے لگایا اور امریکا میں اس کی اشاعت کے خلاف آواز اٹھائی۔ 1932ء تک یولی سس کو امریکا میں فحش قرار دیے جانے کی وجہ سے شایع نہیں کیا گیا۔ 1933ء میں اسے بالآخر وولسی کے فیصلے سے اشاعت کی اجازت ملی۔ میرا اندازہ ہے کہ خود منٹو نے اپنے دفاعی بیانات میں وولسی کے خیالات سے استفادہ کیا تھا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس میں قانون سے ز یادہ، ناول کے فنی سیاق کی دریافت پر انحصار کیا گیا۔ جج نے ریاست کے غیر مشروط نمایندے کے بجائے، ایک منصف مزاج نقاد کا منصب نبھایا۔ اس فیصلے کا درج ذیل حصّہ ادب میں فحاشی کے الجھے ہوئے سوال کی کئی گرہیں کھولتا ہے اور فحاشی کے تعین کے معیارات پر خیال انگیزبحث کی بنیاد مہیا کرتا ہے۔
میں نے پورے یولی سس کا مطالعہ ایک مرتبہ، اور ان ٹکڑوں کا مطالعہ متعدد مرتبہ کیا ہے جن کے متعلق حکومت نے بہ طورِ خاص شکایت کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی ہفتوں تک میری فرصت کے اوقات اس فیصلے پر غورو تامل کے لیے وقف رہے ہیں جس کا صادر کرنا میرا فرض ہے۔ یولی سس ایسی کتاب نہیں جس کا پڑھنا یا سمجھنا آسان ہو، تاہم اس کے بارے میں کافی کچھ لکھا گیا ہے اور تجویز کیا جا سکتا ہے کہ اس کی تفہیم کے لیے ان کتابوں کی اچھی خاصی تعدا د کا مطالعہ کرنا چاہیے جو، اب [یولی سس] کی طفیلی بن چکی ہیں ادبی دنیا میں یولی سس کی شہرت نے میرے لیے ممکن بنایا کہ میں اتنا وقت کہ میں خود کو اس منشا [کے تعین کے سلسلے میں] مطمئن کر سکوں جس کے تحت کتاب لکھی گئی، اس لیے کہ کسی بھی صورت میں جب کسی کتاب کے فحش ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آیا جس نیت کے تحت کتاب لکھی گئی، وہ عمومی زبان میں فحش نگاری (پورنو گرافی) ہے، یعنی فحاشی پھیلانے کی نیت سے لکھی گئی۔ اگر نتیجہ یہ ہے کہ کتاب فحش ہے تو تحقیق اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کتاب ضبط ہو جانی لازم ہے۔ لیکن یو لی سس میں، اس کے غیر عمومی بے تکلفانہ اسلوب کے باوجود، حسی لذت پرستی کا حربہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے میرا مﺅقف ہے کہ یہ فحش نگاری پر مبنی نہیں ہے۔ یولی سس لکھتے ہوئے جوائس نے ادبی صنف میں ایک نیا (اگرچہ وہ نادر نہیں) تجربہ کرنے کی سعی کی۔ وہ ڈبلن میں 1906ء میں مقیم نچلے متوسط طبقے کے اشخاص کا انتخاب کرتا ہے اور نہ صرف اس سب کی تصویر کشی کرتا ہے جو وہ اس سال کے اوائل جون میں ایک خاص دن کرتے ہیں، جب وہ اپنے معمول کے کا م پر شہر جاتے ہیں، بلکہ [جوائس] یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر اس دوران میں کیا سوچتے ہیں۔ جوائس نے میرے نزدیک ایک حیرت انگیز کام یابی کے ساتھ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح شعور کے پردے پر، [شعور کے] دم بہ دم بدلتے سیر بینی تاثرات، جیسے وہ کسی مصنوعی تختی پر [رونما ہورہے] ہوں، کے ساتھ وہ سب موجود ہوتا ہے جو ہر آدمی کے حقیقی اشیا کے مشاہدے کے محیط میں آتا ہے، اورماضی کے تاثرات کے پراسرارپاتالی سایوں، عکسوں میں ہوتا ہے؛ ان میں سے کچھ حالیہ اور کچھ تحت الشعور کی قلم رو سے اصولِ تلازمہ کے تحت باہر آتے ہیں۔ وہ دکھاتا ہے کہ کہ کس طرح ان میں سے ہر تاثر ان کرداروں کی زندگی اور روّیے کو متاثر کرتا ہے جنھیں وہ پیش کرتا ہے۔ وہ جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ سینما فلم پر دوہرے یا ممکن ہو تو کثیر زاویوں سے روشنی پھینکنے کے عمل کے برعکس نہیں ہے، جو اگرچہ روشن پس منظر کے ساتھ واضح پیش منظر دیتا ہے، لیکن اپنے مختلف درجوں میں کہیں دھندلا اور بے مرکز ہوتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اثر جو صریحاًتصویری [گرافک] تیکنیک کا ٹھیک ٹھیک مرہونِ منت ہے، اس کی لفظوں کے ذریعے ترسیل ہی اس ابہام کا بڑی حد تک باعث ہے جس سے یولی سس کا قاری دوچار ہوتا ہے۔ اسی امر سے کتاب کے ایک اور پہلو کی وضاحت بھی ہوتی ہے، مجھے جس کو زیرِ غور لانا ہے؛ یعنی جوائس کا اخلاص اور اس کی یہ ظاہر کرنے کی دیانت دارانہ کوشش کہ اس کے کرداروں کے ذہن ٹھیک کس طرح سوچتے ہیں۔ اگر جوائس اس تیکنیک کو وضع کرنے میں دیانت دار نہ ہوتا جسے اس نے یولی سس میں اختیار کیا تو اس کا نتیجہ نفسیاتی طور پر گم راہ کن ہوتا اور اپنی منتخب تیکنیک سے عدم وفاداری کا مرتکب ہوتا۔ یہ طرزِ عمل فنکارانہ نقطہ نظر سے نا قابلِ درگزر ہوتا۔
چوں کہ جوائس اپنی تیکنیک سے وفادار رہا ہے اور اس کے لازمی مضمرات سے اس نے جی نہیں چرایا، بلکہ دیانت داری کے ساتھ وہ سب کچھ مکمل طور پر بتانے کی کوشش کی ہے، جو اس کے کردار سوچتے ہیں، ا س لیے وہ اس قدر درشت تنقید کا نشانہ بنا ہے اور اس کا مقصد اکثر غلط سمجھا گیا اور غلط پیش کیا گیا ہے۔ اس کی اپنے مقصد کو اخلاص اور دیانت داری سے حاصل کرنے کی کوشش کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اتفاقاً کچھ ایسے الفاظ استعمال کرے جو عموماً رکیک سمجھے جاتے ہیں اور یہی کوشش اسے اس طرف لے گئی ہے کہ بہت سوں کا خیال ہے کہ اس کے کرداروں کے خیالات میں جنس سے غیر معمولی رغبت ہے۔ جن لفظوں کو رکیک قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، وہ پرانے سیکسن الفاظ ہیں، جنھیں تقریباً تمام مرد جانتے ہیں اور میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ بہت سی عورتیں بھی جانتی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ وہ الفاظ ہیں جنھیں وہ طبقہ فطرتاً اورعادتاً استعمال کرتا ہو گا جس کی جسمانی اور ذہنی زندگی کو جوائس نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوائس کے کرداروں کے ذہن میں جنس کے موضوع کے بار بار ابھرنے کے سلسلے میں یہ ہمیشہ یاد رہے کہ ان کا محل وقوع کیلٹک ہے اور موسم بہار کا ہے۔ جوائس کی تیکنیک سے کوئی حظ اٹھاتا ہے یا نہیں، یہ ذوق کا مسئلہ ہے، جس کے بارے میں اختلاف یا دلیل بے کار ہے، لیکن اس تیکنیک کو کسی دوسری تیکنیک کے معیار کے تابع کرنا، مجھے لغو لگتا ہے۔ بنا بریں میرا مﺅقف ہے کہ یولی سس ایک مخلصانہ اور دیانت دارانہ کتاب ہے اور میرا خیال ہے کہ اس پر کی جانی والی تنقیدات اس کے منطقی جواز سے مکمل طور پر ردّ ہو جاتی ہیں۔
یولی سس ایسی کتاب نہیں جس کا پڑھنا آسان ہو۔ یہ کہیں آب و تاب کی حامل اور کہیں بے لطف ہے، کہیں قابلِ فہم اور کہیں مبہم ہے۔ بہت سے مقامات پر مجھے کراہت انگیز لگی ہے لیکن مجھے کچھ ایسا نہیں ملا جسے میں ’ رکاکت براے رکاکت‘ قرار دے سکوں۔ جوائس اپنے قاری کے لیے جو تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہے، کتاب کا ہر لفظ اس تصویر کی تفصیل کے لیے موزیک کے ایک ٹکڑے کا کردار رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس مخلوق سے خود کو وابستہ نہیں کرنا چاہتا، جسے جوائس نے پیش کیا ہے تو یہ اس کا اپنا انتخاب ہے۔ ایسی مخلوق سے بالواسطہ رابطے سے بچنے کے لیے کوئی شخص یولی سس نہیں پڑھنا چاہتا تو یہ بات قابلِ فہم ہے؛ لیکن جب جوائس کی طرح کا لفظوں کا حقیقی فنکار، یورپی شہر کے نچلے متوسط طبقے کی تصویر کھینچنے کی کوشش کرتا ہے تو کیا امریکی عوام کے لیے یہ تصویر دیکھنا قانوناً ناممکن ہو نا چاہیے؟اس سوال کا جواب دینے کے لیے محض یہ تلاش کرنا کافی نہیں کہ جوائس نے اس نیت سے یولی سس نہیں لکھا جسے عموماً فحش نگاری کی نیت کہا جاتا ہے۔ مجھے اس کتاب پر ایک زیادہ معروضی معیار کا اطلاق کرنا ہو گا :اس کے لکھے جانے کی نیت کو بالاے طاق رکھ کر اس کے مجموعی نتیجے کی روشنی میں اس کے اثر کا تعین کرنا ہو گا لفظ فحش کا معنی، جیسا کہ عدالتوں نے قانونی وضاحت کی ہے، یہ ہے کہ وہ [مواد] جو فحاشی کی جبلت کو مرتعش کرے یا جنسی طور پر ناخالص اور ہوس انگیز خیالات ابھارے۔ آیا کوئی خاص کتاب اس قسم کی جبلت یا خیالات کو مشتعل کرتی ہے، اس امر کا جائزہ عدالت کی رائے میں اس اثر کے حوالے سے لیا جاتا ہے جو وہ اوسط درجے کی جنسی جبلت کے افراد پر مرتب کرتی ہے۔ [یہاں وولسی اپنے دو دوستوں کو باری باری مدعو کرنے کے واقعے کا ذکر کرتا ہے، جو یولی سس کا مطالعہ کر چکے ہیں، ان سے ناول کے فحش ہونے نہ ہونے کی بابت رائے طلب کرتا ہے۔ وولسی کے دونوں دوست اس بات سے نا واقف تھے کہ وولسی ان سے کیوں یہ سوال دریافت کرہا ہے۔] مجھے یہ جاننا دل چسپ لگا کہ ان دونوں نے میری رائے سے اتفاق کیا : یولی سس کو اوّل تا آخر ایک کتاب کی صورت میں پڑھنا جنسی خواہش یا ہوس انگیز خیالات کو تحریک نہیں دیتا، بلکہ اس کا کلی اثر ان پر ایک المیے کا تھا اور یہ مردوں اور عورتوں کی داخلی زندگی پر ایک بھرپور تبصرہ ہے قانون نارمل انسانوں سے متعلق ہوتا ہے۔ یولی سس جیسی کتاب کے لیے فحاشی کی آزمائش کا یہی مناسب طریقہ ہے، جو بنی نوع انسان کے مشاہدے اور [اس کے] بیان کے لیے نیا ادبی طریقہ وضع کرنے کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش ہے۔ میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں کہ کہ یولی سس اپنے چند مناظر کی وجہ سے ایک طاقت ور گھونٹ ہے، جس کے بارے میں کچھ حساس مگر نارمل لوگوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ لینا چاہیں گے کہ نہیں، لیکن طویل غور و فکر کے بعد میری جچی تلی رائے ہے کہ اگرچہ بہت سے مقامات پر یولی سس کا قاری پراثرکسی حد تک قے آور ہے، مگر کہیں بھی یہ شہوت خیزی کی طرف مائل نہیں۔
اس فیصلے میں اور فحاشی کے تقریباً تمام مقدمات میں فحاشی کے تعین کا سوال دو محوروں پر گردش کرتا ہے: مصنف کی نیت اور قاری پر اثر۔ دونوں محور فحاشی کے تعین کو حتمی طور پر طے کرنے میں اس قدر مدد نہیں دیتے جس قدر اسے متنوع موضوعی تعبیروں کی آماج گاہ بناتے ہیں۔ مثلاًمنشاے مصنف ہی کو لیجیے۔ فحاشی کے تعین میں اسے جس وثوق سے بنیاد بنایا جاتا ہے، اسے واضح کرنے کے سلسلے میں اتنی ہی پہلو تہی کی جاتی ہے۔ یہ واضح کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ مصنف کی نیت سے مراد، وہ سارا خاکہ اور بلیو پرنٹ ہے جس کے تحت کوئی فن پارہ لفظ، رنگ، مٹی پتھرکی صورت اختیار کرتا ہے یا کسی فن پارے کی تخلیق سے پہلے کی وہ مجموعی نفسیاتی کیفیت ہے جو مصنف پر طاری ہوتی ہے ؟نیز کیا فن پارہ اپنی تکمیلی صورت میں اپنے مصنف کی قبل از تخلیق نفسیاتی کیفیت کا کامل مظہر ہوتا ہے، یا اس سے انحراف بھی کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ مصنف کی نیت سے مراد فن پارے کی تخلیق کے پیچیدہ عمل کا فقط پہلا اور بے حد مبہم مرحلہ ہے؟اگر ہم منشاے مصنف کا ایک واضح تصور کرنے میں کام یاب ہو بھی جائیں تو اگلی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اس تک رسائی کا کیا ذریعہ ہے؟اصولاً تو معتبر ذریعہ خود مصنف کے اپنے فن پارے کے بارے میں بیانات ہیں، مگر یہ عام طور پر موجود نہیں ہوتے؛ مصنفین اپنے ہر متن کی تخلیق کے منشا پرروشنی نہیں ڈالتے اور اگر کسی خط، مضمون یا انٹرویو میں اس بابت کچھ کہتے بھی ہیں تو وہ اس متن کا یا تو محرک ہوتا ہے یا پھر اس متن پر ایک عمومی تبصرہ۔ منٹو نے اپنے افسانوں: کالی شلوار، دھواں، بو، ٹھندا گوشت، اوپر نیچے درمیان پر مقدمات کے جواب میں ان کے منشاے تخلیق کا جو ذکر کیا ہے، وہ ان افسانوں کی محض تشریح ہے، جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ افسانے فحاشی کی نیت سے نہیں لکھے گئے۔ لہٰذا منشاے مصنف تک رسائی کا دوسرا اور نسبتاً قابلِ اعتماد ذریعہ خود وہ متن ہے، لیکن جب ہم کسی متن کا مطالعہ، اس زاویے سے کرتے ہیں توجو کچھ ہمارے ہاتھ لگتا ہے، وہ اس متن کا موضوع، ہیئت، ، اسلوب اور تیکنیک ہے۔ اس صورت میں مصنف کی نیت کو، فن پارے کے جملہ عناصر کو یک جا کرنے والی قوت ہی قرار دیا جا سکتاہے۔ جیسا کہ یولی سس کے سلسلے میں وولسی نے کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں کسی فن پارے کی اس تہ نشین ساخت ہی کو گرفت میں لینا ہے جس نے اس فن پارے کے تمام اجزا کو یک جا کیا اور فن پارے کے مجموعی نظام میں ہر ایک کا مقام اور کردارمتعین کیا ہے تو اسے مصنف کی نیت کا نام دینا کہاں مناسب ہے؟ لہٰذ ا یہ بات تو واضح ہے کہ فحاشی کے سوال کا محور کسی فن پارے کی تہ نشین ساخت ہی ہے۔ آج تک جتنے بھی فن پاروں پر فحاشی کے الزامات لگائے گئے، وہ ان کے بعض حصوں پر تھے اور ان حصوں کو فن پارے کے کلی نظام سے کاٹ کر دیکھا گیا تھا۔
فن پارے کے اثر کی نسبت سے فحاشی کا سوال کہیں زیادہ ٹیڑھا ہے اور اس میں موضوعی تعبیروں کی کہیں بڑھ کر گنجائش ہے۔
اثر سے بڑھ کر کوئی چیز موضوعی نہیں۔ اثر، سادہ مفہوم میں وہ احساساتی کیفیت ہے جو خارج اور داخل کے نقطہ اتصال پر پیدا ہوتی ہے۔ زیرِ بحث موضوع کے حوالے سے دیکھیں تو اثرسے مراد احساس اور عمل کی تحریک دینے والا خیال ہے جو ادب پارے اور اس کی قرات کے تال میل سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کوئی قرات خالی الذہن نہیں ہوتی۔ ہرقرات میں قاری کا داخلی و شخصی تناظرنہ صرف پوری قوت سے موجود ہوتا ہے بلکہ قرات پر شدت سے اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ یہ کہنا تومشکل ہے کہ ہر قاری کے پاس ایک الگ شخصی تناظر ہے اور ہر ادب پارے کے اتنے ہی معانی اور اثرات ہیں جتنے اس کے قارئین ہیں۔ فطرت ابھی اتنی فیاض نہیں ہوئی کہ وہ ہر آدمی کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک قطعی منفرد زاویہ نگاہ عطا کردیا کرے۔ دوسری طرف ہر شخص اس وسعتِ مطالعہ اور غور و تدبر کا عادی نہیں ہوتا، جو ایک منفرد تناظر کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔ اصل یہ ہے کہ’ شخصی تناظرات‘ کے مختلف گروہ ہوتے ہیں اور جنھیں قارئین ان سماجی طبقات سے لاشعوری طور پر جذب کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی سماجی شناختیں قائم کرتے ہیں۔ لہٰذا ایک سماج میں ادب و فن کی قرات کے اتنے ہی ”شخصی تناظرات“ ہیں، جتنے اس سماج میں طبقات (معاشی، فکری، آئیڈیالوجیکل، نسلی، لسانی) ہیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں ہمیں اس سوال کا جواب مل سکتا ہے کہ آخر ایک ہی ادب پارہ، ایک طبقے کے لیے جمالیاتی فضیلت کا حامل ہے اور دوسرے طبقے کے لیے، وہ اخلاقی طور پر اسفل ہے۔ منٹو کے افسانہ’ ٹھنڈا گوشت ‘ پر 1950ء میں فحاشی کے مقدمے کے دوران گواہوں کے بیانات سے یہی حقیقت پوری طرح واضح ہوتی ہے۔ کچھ نقادوں کے لیے اس افسانے میں جنسی ترغیب تو دور کی بات، اس کا اثر افسردگی اور پژمردگی کا ہے، جب کہ بعض کے لیے اس سے زیادہ گندہ مضمون کوئی اور نہیں۔ سید عابد علی عابد نے اس افسانے کے بارے میں کہا تھا کہ ” یہ افسانہ میرے سب بچوں اور بچیوں نے پڑھا ہے خاص آدمیوں سے جو کہ ادیب ہیں، اس افسانے کے بارے میں میرا تبادلہ خیالات ہوا۔ سب نے اس کو بہت سراہا۔“ ڈاکٹر سعیداللہ نے کہا کہ ” ٹھنڈا گوشت پڑھنے کے بعد میں خود ٹھندا گوشت بن گیا ہوں۔ پژمردگی اور افسردگی، یہ تھا اس کا اثر۔ یہ افسانہ شہوانی ہیجان ہر گز پیدا نہیں کرتا۔ “ صوفی غلام مصطفی تبسم کی رائے تھی کہ ” کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ “ جب کہ علامہ تاجور نجیب آبادی نے کہا کہ ”ٹھنڈا گوشت کسی مسجد یا کسی مجلس میں جماعتی حیثیت میں سننا پسند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی پڑھے تو اپنا سر سلامت لے کے نہ جا سکے۔ چالیس سالہ ادبی زندگی میں ایسا ذلیل اور گندہ مضمون میری نظر سے نہیں گزرا۔ “ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر کے مطابق ” میرے خیال میں جن لوگوں کا میلان بدکاری کی طرف ہے، ان کے لیے اس مضمون میں جنسی ترغیب موجود ہے۔ جس شخص کی طبع میں میلان بد کاری نہ ہو، ا سے اس مضمون سے جنسی کراہت ہوگی، جنسی ترغیب نہیں ہوگی۔ ٹھنڈا گوشت کا مطلب مردہ لڑکی ہے۔ میں اس کہانی کو ایک عام جنسی کہانی سمجھتا ہوں۔ یہ جنسی اخلاق خراب نہیں کرتی۔“ یہ آرا، جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق ہر گز نہیں۔ اصلاً یہ دو ہی قسم کی آرا ہیں اور دو تناظرات کی زائیدہ ہیں جو باہم متصادم سمجھے گئے ہیں: ادبی اور اخلاقی۔ لہٰذا اثر کے حوالے سے فحاشی کا سوال ہمیں خود بہ خود قرات کے تناظر اور پھر سماجی شناختوں تک لے جاتا ہے۔
1998ء میں ارون دھتی رائے کے ناول ’گاڈ آف سمال تھنگس‘ پر کیرالہ کی عدالت میں سبو تھامس ایڈووکیٹ نے فحاشی کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ناول کے بنیادی تھیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، ایک خاص حصے کو فحش قرار دیا گیا۔ یہ حصّہ’ اینگلو انڈین‘ عیسائی خاندان کی امّو کوچما اور اچھوت ویلوتھا کی پرجوش محبت کے ’عریاں مناظر‘ پر مشتمل ہے۔ استغاثے نے فقط’ اورل سیکس ‘پر مبنی عریاں مناظرکے مخربِ اخلاق ہونے پر اعتراض نہیں کیا، (اور ناول کے اس حصے پر بھی انگلی نہیں رکھی جس میں ایک ننھے بچے سے جلق لگوانے کا وقوعہ بیان ہوا ہے جو انتہائی کرب ناک ہے) بلکہ یہ شکایت بھی کی کہ کیرالہ کی شامی عیسائی کمیونٹی (جس کا وہ خود ایک فرد ہے) کی دلآزاری بھی ہوئی ہے۔ ایک اعلیٰ طبقے کی عورت کا ایک دلت سے معاشقہ، ان کی کمیونٹی کی توہین ہے۔ وہ ایک ’‘ فحش منظر“ کی قرات اپنی سماجی شناخت کے تناظر سے ہٹ کر نہیں کر سکا۔ دوسرے لفظوں میں جسے جنسی ترغیب کا نام دیا جاتا ہے، وہ محض عورت اور مرد کے جسمانی تعلق سے متعلق نہیں ہوتی، بلکہ ان کی طبقاتی شناختوں کو متاثر کرنے کا میلان بھی رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سبو تھامس اور علامہ تاجور کے اعتراضات میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ ایک کو اپنی اعلیٰ طبقاتی شناخت خطرے میں محسوس ہوئی اور دوسرے کو اپنی اعلیٰ مذہبی و اخلاقی شناخت پر زد پڑتی محسوس ہوئی۔ دونوں کی مذمت میں شدت ہے اوردونوں کے نزدیک ادب میں جنس کا ذکرخواہ کسی پیرائے میں ہو اور خواہ لازمی فنی ضرورت کے تحت ہو، وہ جنس کی ترغیب کے مساوی ہو تا ہے۔
اس سلسلے کی آخری بات! فحاشی کے مسئلے کے ساتھ اس گہرے نفسیاتی خوف کا لرزہ ہمیں بار بار محسوس ہوتا ہے جو قدیم زمانے سے جنس کا پیدا کردہ ہے۔ یہ خوف کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے کہ جنس اور عورت بہ طور جنسی وجود، انسان کو اس کی جنت سے نکال سکتی ہے۔ اس خوف نے بدن کی اس جمالیات کو پوری طرح روشن نہیں ہونے دیا، جس کا ذکر زبیر رضوی نے بھی کیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سبو تھامس نے امّو کوچما کی اس ’عریاں تنہائی‘ پر انگلی نہیں رکھی جب امّو غسل خانے کے آئنے میں اپنے عمر رسیدہ ہوتے جنسی اعضا کو دیکھتی اور دکھی ہوتی ہے اور نہ استغاثے کو ویلوتھا کی الم ناک موت محسوس ہوئی؟ جنسی عمل کی ایک صورت کا بیان، آخر کیوں زندگی کی دوسری تلخ حقیقتوں کے بیان سے زیادہ ”اثر“ رکھتا ہے؟ کسی دوسرے بیان سے زیادہ جنس کے بیان میں کیوں ایک طلسماتی اثر فرض کیا جاتا ہے؟ پانچ ہزار برس پہلے میسوپوٹیمیا کے رزمیے’ گلگامش ‘میں اس حقیقت کوحیرت انگیز طور پر منکشف کیا گیا ہے۔ اس رزمیے میں جب ایک شکاری کا بیٹا انکیدو سے خوف زدہ ہوتا ہے تو اس کا باپ اسے مشورہ دیتا کہ ” میرے بیٹے، عروق میں گلگامش رہتا ہے؛ کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکا عروق جاﺅ، گلگامش کو تلاش کرو، اس وحشی انسان کی ثنا خوانی کرو، اسے کہو کہ وہ تمھیں ایک طوائف دے، محبت کے مندر سے کوئی ویشیا دے۔ اس کے ساتھ واپس آﺅ اور اس عورت کی طاقت کو اس آدمی پر غالب آنے دو۔ جب وہ[انکیدو] دوبارہ کنویں پر پانی پینے آئے تو وہ عورت وہاں موجود ہو؛ بے لباس ہو اور جب انکیدو اسے اشارہ کرتے ہوئے دیکھے گا تو وہ اس سے ہم آغوش ہو جائے گا اور تب جنگلی جانور اسے مسترد کردیں گے۔ “ یہی ہوا۔ انکیدو چھ دن اور سات راتیں اس عورت کے ساتھ گزارتا ہے۔ وہ جب واپس آتا ہے تو اس کے ماحول کے سب لوگ اس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی جنت کھو دیتا ہے۔ جدید انسان کی جنت اس کا سماج اور سماجی شناخت ہے۔ وہ ہر اس عمل، تحریر، تصویر اور نمایندگی کے خلاف احتجاج کرتا ہے جس سے اس کی سماجی شناخت کو کوئی خوف اور خطرہ لاحق ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
ادب ،معنی اور معنویت۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
مزاحمت، دانشوری اور ادب ۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
ملتان اور رفعت عباس کی اوڈیسی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
انسانی ذات کا اندھا غار: ڈاکٹر اظہر کی بیٹی کا قتل اور خود کشی۔۔۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر