گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف ماضی کی وہ چنجیکلیں یا جھولے ہیں جن پر ہم بیٹھ کے عید کی خوشیاں مناتے تھے۔دوسری طرف آجکل کے ماڈرن جھولے ہیں جن کو ہمارے بچے
انجاۓ کرتے ہیں۔ ماضی کی چنجیکلوں سے لپٹے بچوں کے چہروں سے خوشی delight ٹپکتی نظر آتی ہے ۔شاید ہماری خالص خورک ۔مشقت بھری stress free زندگی کا بھی کردار ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو کیسے کنونس convince کریں کہ یار ہماری خوشیوں کی مقدار آپکی آج کی خوشیوں کی مقدار کے برابر تھی ؟ جبکہ ہمارے لکڑی کے جھولوں کو دیکھ کر ان کی ہنسی نہیں رکتی۔
میرا خیال ہے خوشیاں اور سکون انسان کے اندر کی دنیا ہے۔ باہر کی ترقی اس اندرونی دنیا پر اتنا اثر نہیں ڈالتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ باہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ ۔من کی دنیا ۔کو حسین و جمیل بنانے پر توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے تعلیم کے نصاب میں ضروری تبدیلیاں کی جانی چاہیں۔
میرے ساجن دعا کرنا ۔۔
آپ نے اکثر مسافر بسوں پر طرح طرح کے سلوگن لکھے دیکھے ہونگے جن میں بعض بہت پیارے ہوتے ہیں اور ساری زندگی یاد رہتے ہیں۔ میری زندگی میں یہ سلوگن ۔۔میرے ساجن دعا کرنا ۔۔ وہی حیثیت رکھتا ہے۔ میں اپنے گاٶں کی گلیوں سے پہلی بار تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاھور کو نکلا تھا تو میری آنکھیں نمناک تھیں اور گاٶں کے ہر رستے نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ کچی گلیوں کی گرد آلود ہوا میں اڑتے ککھ (تنکے) مجھے پیچھے دھکیلتے رہے اور میں چلتا گیا۔ چھوٹے سےگاٶں کا ہر فرد رات کو میری ماں کے پاس میرے لیے تحفہ چھوڑ گیا تھا۔جن میں کھجور کے تنکوں کے بنے رنگین پنکھے۔چنگیر۔دودھ۔گھی۔مکھن۔کھجور۔ ڈھوڈے۔ستو۔مٹھڑیاں۔ کشیدہ کاری شدہ رومال ۔اور ڈھیر ساری دعائیں شامل تھیں۔ رومی نے کہا تھا کہ
ہماری روح محبت سے ھزاروں سبق سیکھتی ھے جو سکول میں نہیں سیکھے جا سکتے۔ اور یہی میرے ساتھ ہوا میں نے گاٶں سے رخصت ہوتے وقت جو محبت سمیٹ کر گٹھڑی میں باندھی وہ محبت باقی ساری زندگی میرے ساتھ سفر کرتی رہی۔ عجیب بات ہے کہ روم ۔ میلانو ۔برلن۔فرینکفرٹ۔بالی۔پتراجایا۔ برونائی۔تھائی لینڈ۔ماسکو۔سنگاپور ۔تہران۔ اور کئی دوسرے ممالک کی خوبصورت فضائیں جہاں میں گیا وہ سکون اور خوشی نہ دے سکیں جو صبح کے وقت دریاے سندھ کی لہروں پر طلوع آفتاب کی لہراتی شعائیں دیتی ہیں۔ محبت کی یہ گدگداتی شعائیں اسی کو اپنی ست رنگی روشنی سے رنگ دیتی ہیں جو ان کی قدر جانے۔؎
ھزاروں رنگ بھرے زندگی کے خاکے میں۔
تیرے بغیر یہ تصویر نامکمل ہے۔
مختلف زبانوں کا حُسن ۔۔
ایک دن میں ایک دکان سے گزر رہا تھا جہاں مرغی کے چوزے فروخت ہوتے ہیں۔ دکاندار صرف سرائیکی زبان جانتا تھا اور اس کے پاس ایک افغان آدمی چوزے خریدنے کے لیے کھڑا تھا مگر دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ رہے تھے۔ مجھے دکاندار نے اشارہ کیا کہ اس بندے کی بات سمجھ نہیں آ رہی آپ مدد کر دیں۔۔ میں نے افغان سے پوچھا تو اس نے چوزوں کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
دا خاندان کئی یا نہ کئی۔۔
مطلب یہ چوزے انڈے بچے دینگے یا نہیں۔ میں نے دکاندار سے پوچھ کے افغان کو بتایا کہ بچے دینگے۔
پھر افغان نے اردو میں آرڈر دیا ۔۔
دو مرد اور آٹھ بیویاں دے دو ۔۔
یعنی دو نر اور آٹھ مادہ چوزے ۔
میں نے پوچھا یہ شریعت کے مطابق آرڈر ہے اس نے کہا ہاں۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر