محمود مہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ کسی کی میراث ہوں یا نا ہوں پر اپنا خالق خود چنتے ہیں جو ان کو تخیل کی راہ سے گزار کر معتبر کر دیتا ہے پھر دنیا انہی لفظوں پر یقین کرتی ہے اور یہی یقین معاشرتی جڑت کی بہت بڑی وجہ ہے۔
علم جب طاقت بنا تو اس نے انسان نما کو زرہ بکتر کیا، توپ پر چڑھایا اور ہاتھ میں بندوق دی اور یہ انسان نما جو اپنے اجداد نیڈر تھال تک کا قاتل تھا اپنے جیسوں کو مارا ، بیماریاں پھیلائیں، جو بچ گئے ان کو غلام کیا گلے میں پٹے ڈال در در بیچا ، جو ان سے رنگ و نسل میں ذرا کمتر تھے ان کے منہ میں ہاتھ ڈالنے سے کتے کے منہ میں ہاتھ ڈالنا بہتر جانا ، جب اتنے قتل عام کے بعد اپنے جیسوں کے خون کی وجہ سے دھرتی پر ننگے پاؤں چلنے قابل نا رہا تو اس کی قمیت جانوروں نے اپنی چمڑی اوتروا ( جوتی) کے ادا کی اس سارے ظلم پر چڑیوں نے "چوں چوں کی چاں چاں کی” پر اس انسان نما کو یہ ترنم کہاں سنائی دیتا کیونکہ ” اوندے ہتھ بندوق، بندوق اچ گولی ہئی”
جب فطرت روٹھ گئی، پرندوں نے بولنا چھوڑ دیا، دریاؤں نے اپنے سر میں ریت ڈال کر ماتم کرنا شروع کیا، اندھی بلہنڑ اپنی جنسی زیادتیوں پر کہیں بس چپ کر گئی، سارنگ چمکتے سینگوں سمیت قتل ہوئے ، کونجیں اپنی مونجھیں سمیت قید کر لی گئیں، ہنس وڈے ویلے دی بانگ کے ساتھ مارے گئے، ملہوہا کی گودڑی مایا جوگ کے مندر تک وہ نا رہی ہنو مان کے چھجے کی پیپل پر گائے ٹانگ دی گئی، تو سندھو ندی نے مکمل انسان کی صورت اپنا اوتار دیوتا اشو لال بھیجا ، جس نے چھیڑو کے ہتھ مرلی نا ہونے پر بین کیا ، گوتم کے ساتھ جھیڑا کیا اور کاں ( کوا) جو طوفان نوح میں کشتی سے نکل کر واپس نہیں آیا تھا ( توریت) اس گمشدہ کو ایک وسوں نہیں دو وسوں نہیں سو شہر برباد ہونے کے بعد بھی وسوں کا پکھی کہا، دھویں دار نہیں اشو لال فقیر ہوا اور کہا
ندی مردی ہے تاں سنڑ مترا ، دل مردا ہے روح مردی ہے
جوڑا ہنساں دا کلہا نہیں مردا سارے دریا دی کھل مردی ہے
تھل کے صحرا سے نکلی یہ کوک روہ، روہی ،دمان تک ہوک بنتی گئی جو سندھو کے ویاس جی نے کر کر لمبڑی باہیں کی تھی جس نے انسان نما کی وحشت کو شانت میں بدلا ، فطرت نے دم گھٹنے سے پہلے پہلے سکھ کا سانس لیا، پھر کیا تھا کہ ایک جہان کروڑ لعل عیسن کی نگری سنگ کی صورت روانہ تھا انسان اپنے میلے ویس اتار کے چلا ” متاں خدا ملنڑ لنگھ آوئے ” متاں کیا یقیناً دیوتا کے پاس جا رہے تھے ، سارنگ اپنے کپے ہوئے گلوں کے ساتھ
اینویں کل دی گال اے بیلے وچ
سوہنڑے سنگھ اپنڑے لشکا نچدے
ست اٹھ ہوسوں نئیں یاد پوندا
نئیں یاد پوندا نوں ڈاہ ہوسوں
منڑ اپنڑی تے سوہنڑاں سندھ سائیں
اتھا آنڑ کھڑے جتھاں کسنڑا ہا۔
بیلے کا شینھ اپنی نگری اور راجدھانی کے لٹنے کا سارا غم خود پر لاد کر
چھڑا شینھ نہیں مردا بیلے دا
بیلے نال مرہیں دے راج پچھوں
وسوں راہندی نئیں وسوں نال اپنڑے
جھل نال اپنڑے جھل راہندی نئیں۔
بلہنڑ ( انڈس ڈولفن) جس کی پارسائی تک کو انسان نے تار تار کر دیا تھا ، اس کی پاک دامنی کو ثابت کرنے کے لئے کوئی پاڑا ہوا کرتا نا تھا لیکن چھید چھید دامن ضرور تھا اور اپنے دیوتا کو پکار رہیں تھیں
اکھیں ڈے کے وی اساں اندھیاں کوں
افلاک تیئں سب ڈسدا ہے
ماء ڈسدی ہے تیڈی شکل وچوں
تیڈی شکل وچوں رب ڈسدا ہے۔
اعتبار کے ہاتھوں قتل ہوئے ہنسوں کی روحیں
ایویں کل دی گال ہے بیلے وچ
ودے کھیڈدے ہاسے چندر تلے
گچیاں مونڈھے سٹ کے پانڑیاں تے
ادھے جاگدے ہوئے ادھے ستے ہوئے
وڈے ویلے دی انوں بانگ ملی
انوں سب دے سب اساں مارے گئے
کتھا کرتے ہوئے چل رہے تھے یہ خود ایک طرح کی کنٹر بری ٹیل ہے ایسی کتھا جو اشرافیہ کی نہیں بلکہ رل مویاں ، اچھوتوں، سامراج کی گرد میں گم ہونے والوں ، ایک کہانی کے جبر میں چھپا دئیے جانے والوں ، اپنی دھرتی پر اجنبی بن جانے والوں کی کتھا ہے۔وسوں اور نئی سماجی اخلاقیات اپنے شاعر کے حضور پیش ہیں اور یہی وہی جگہ ہے جہاں تمام فطرت ، زمین اور اسکی تمام مخلوقات انسان سے بات کر سکتی ہیں اور یہی دیوتا ایک نیا سماجی معاہدہ کروا سکتا ہے جو کہ کئی حد مکمل ہو چکا ہے ، آج کوئی سارنگ کا گلا کاٹنے کو اچھا نہیں جانتا اور اگر کوئی بیمار کاٹے بھی تو اس کی مذمّت کی جاتی ہے، کہیں کونج کے قتل پر سزا موت سنائی جاتی ہے، بلہنڑ کے ساتھ زیادتی پر انسان شرمندہ ہے، موجودہ وبا نے ثابت کیا کہ اچھوت ہونا افضل ہے ، یہ ادراک یہ کتھا سندھو ندی کے ویاس جی نے لکھ کر کہانیوں کا توازن برقرار کیا ہے۔ وہ سماج جو رہنے کے قابل نہیں رہا تھا بلکہ اس کو زن حیض پلیتی کہا گیا ، وطن بیگانہ کہا گیا ، اس میں ایک شاعر نے امید بھری اور آج یہ احساس ہوتا ہے کہ
لکھاں سالاں باد وی کتنا تھوڑا ہے
جتنا ہووئے جیونڑ پورا ہوندا نئیں۔
اے تحریر جون ڈوہزار ویہہ اچ فیس بُک تے پوسٹ کیتی گئی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر