زاہد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1997 میں نواز شریف گورنمنٹ میں سینیٹر سیف الرحمٰن کو احتساب بیورو کا چئیرمین بنایا گیا اور اس نے ایف آئی آے کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے خلاف جابرانہ اور ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کئے اور ان کو جھُوٹے مقدمات میں ملوث کیا۔ بینظیر بھٹو پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں طاقت کا ناجائز استعمال کیا ۔
اور وہ آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثوں کی مالک بن گئیں ۔بلکل اسی طرح بیگم نصرت بھٹو پر بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اپنی آمدنی کے قانونی ذرائع سے زیادہ اثاثے جمع کرچکی ہیں۔بے نظیر کے شوہر ، آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے پانچ جرائم اور منشیات کے ایک مقدمے میں نومبر 1996 میں حراست میں لیا گیا تھا۔آصف زرداری کو آتھ سال جیل میں رکھنے کے بعد جب کوئی جرم ثابت نہ ہوا تو ایک عدالت نے ان کو سال 2004 میں ضمانت پر رہا کر دیا۔
1997 میں جب سیف الرحمٰن احتساب بیورو کا چئیرمین بنا تو میں رائٹرز نیوز ایجنسی میں بحیثیت اسٹاف فوٹو گرافر کام کر رہا تھا ۔ ایک دن میں اپنے دفتر میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون ریسیو کیا تو دوسری طرف کسی آدمی نے پوچھا کہ زاہد حسین فوٹوگرافر سے بات کرنا ہے میں نے بتایا کہ میں بول رہا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ ہولڈ کریں احتساب بیورو کے چئیرمین سیف الرحمٰن آپ سے بات کریں گے۔
چند لمحوں کے بات آواز آئی زاہد صاحب میں سینیٹر سیف الرحمٰن بول رہا ہوں احتساب بیورو سے اور علیک سلیک کے بعد بولا کہ ہمیں کچھ پرانی تصویروں کی تلاش ہے اور "کچھ صحافی دوستوں” نے آپ کا بتایا ہے کہ پرانا ریکارڈ صرف آپ کے پاس ہی محفوظ ہے۔
میں نے پوچھا کہ آپ کو کون سی تصاویر درکار ہیں تو اس نے کہا کہ آپ نے بینظیر اور آصف زرداری کی شادی کور کی تھی ہمیں اس "جوڑے” کی تصاویر نہیں چاہئیں بلکہ شادی میں شریک ان لوگوں کی تصاویر چاہئیں جو اس ” جوڑے ” کو تحائف دے رہے تھے۔
میں نے سیف الرحمٰن کو جواب دیا کہ آپ نے غلط جگہ فون کیا ہے ۔ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا کہ ہم آپکو تصویروں کی اچھی پیمنٹ کریں گے۔ میں نے کہا کہ آپ سے کہہ دیا ہے آپ کو مجھ سے کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔
میرے اس جواب پر اس کا رویہ دھمکی آمیز ہو گیا اور اس نے مجھے کہا کہ آپ کو نیشنل انٹرسٹ میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہو گا ورنہ آپ کیلیے بہت مشکلات کھڑی ہو جائیں گی۔ میں نے تیز لہجے میں اسے کہا کہ میں جنرل ضیاءالحق کے خلاف صحافیوں کی ایک کامیاب تحریک چلانے والوں میں سے ہوں اور تمہارے جیسے لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آئندہ مجھے فون کرنے کی حماقت مت کرنا اور میں نے ناؤ گیٹ لاسٹ کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
اس کے فوراَ بعد میں نے کراچی پریس کلب فون کر کے اپنے ساتھی عہدیداروں اور کے یو جے اور پی ایف یو جے کے عہدیداروں کو صورتحال سے آگاہ کیا جس پر اس دن صحافیوں کی طرف سے کافی واویلا مچایا گیا اور عہدیداروں کے بیانات اخبارات میں چھپنا شروع ہو گئے۔ دو دن کے بعد مجھے سیف الرحمٰن کا پھر فون آیا اور اس نے کہا کہ آپ نے میری ذرا سی بات پر تمام صحافیوں کو میرے پیچھے لگا دیا ہے میں نے کہا کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ آئندہ مجھے فون مت کرنا اور میں نے فون بند کر دیا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر