سیاسی پناہ کی درخواست
میں نے اپنے ذہن کی ہئیت مقتدرہ سے
بغاوت کرلی ہے
میں نے مردانگی کے جرنیل کے خلاف
بہت مضمون لکھے
چند گستاخاتہ نظمیں
اور عجیب و غریب سے خیال
دماغ کے ملائیت زدہ طبقات کے استحصالی نظام پر
اپنے قلم سے وار کیے ہیں
مجھے کل ہی میری وجود کی ریاست نے
تھریٹ الریٹ جاری کیا
آپ چند کالعدم مسلح جذباتی لشکروں
کے جنتی مجاہدوں کی ہٹ لسٹ پر ہو
یہ اطلاع دینے والے افسران
مسکرا رہے تھے
مجھے تمھارے بعد
موت سے ڈر نہیں لگتا
مگر میں وجود کی ریاست کے جذباتی لشکروں
اور ان کی پالی افسردگی کی پراکسیز
جنھیں اب بھی پریشانی کی ایجینسیوں کی
معانت حاصل ہے
ان کے ہاتھوں
نہتا ہو کے نہیں مرنا چاہتا
مجھے سیاسی پناہ چاہیے
تمھارے دل کی ریاست میں
جہاں پر مسرت بہاروں کی جمہوری حکومت ہے
جہاں ہر سو خوشبو بستی ہے
جہاں کا قانون ہر کیفیت کو برابری کی نظر سے دیکھتا ہے
جہاں دائیں بازوں کی خزائیں بھی
جمہور کا تختہ نہیں الٹ سکتیں
جہاں مجھے بولنے کی آزادی ہو
جہاں میں بولوں تو مسکراہٹ کے مجمعے کے ساتھ
تم مجھے سنو
سنو مجھے سیاسی پناہ چاہیے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر