ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماحولیات کے عالمی دن پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماحولیات کو بچانے کیلئے بڑی مشکل سے پیسے نکالتے ہیں، ماحولیات کا خیال نہ رکھا تو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
وزیر اعظم نے ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں درست بات کی ہے کہ دنیا میں پانی کا بہت بڑا مسئلہ آنے والا ہے۔ پاکستان میں تو پانی کی کمی کا مسئلہ قیام پاکستان کے وقت سے درپیش ہے اور پاکستان کے لوگ پانی کی کمی کے عذاب بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ایک صوبہ کہتا ہے اس کا پانی چوری ہو گیا، ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے مسئلے کا ادراک کرنا ہو گا۔ جب تک ساری قوم احساس نہیں کرے گی، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی پاکستان کیلئے یقینا اعزاز کی بات ہے۔
پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے، اس موقع پر وزیرا عظم عمران خان کی طرف سے امیر ممالک کو عالمی حدت سے نمٹنے کیلئے فنڈز کی اپیل بھی بروقت ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس اپیل پر کتنی توجہ دیتی ہے۔ پاکستان کو اپنے وسائل سے اس مسئلے پر نمٹنا ہو گا۔ 10 بلین درخت لگانے کی سکیم حقیقی ہونی چاہئے اور یہ بھی کہوں گا کہ اس سے پہلے جو درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ اس کی بھی روک تھام ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ٹمبر مافیا نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ جنگلات کے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں اور درختوں کے قتل عام میں محکمہ جنگلات خود بھی ملوث ہے۔ ملتان میں بھی صورتحال خطرناک ہے، باغات ختم کئے جا رہے ہیں۔ پی ایچ اے ایک ہی پارک میں مصنوعی طور پر درخت لگا کر شجر کاری مہم کا افتتاح کر دیتی ہیں۔ آئندہ جو خطرات در پیش ہیں اُن کا ادراک کرنا ہو گا۔ گلوبل وارمنگ کو دیکھنا ہو گا۔
اس مسئلے پر عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی توجہ حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ وزیر اعظم کی اپیل بروقت ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری پاکستان کا کتنا ساتھ دیتی ہے۔ اگر ہم پس منظر میں جائیں تو مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے پاکستان کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔ افغان مسئلے پر پاکستان نے بہت قربانیاں دیں، روس کو شکست ہوئی، افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد امریکہ آیا تو قربانیوں کے باوجود پاکستان کے مسائل کم نہیں ہوئے۔
نہ صرف یہ کہ قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بلکہ ہر آئے روز پاکستان کیلئے مسائل کھڑے کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو افغان مشیر کیلئے شرم کا لفظ استعمال کرنا پڑا اور کہنا پڑا کہ افغان مشیر حمد اللہ امن میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اُن کی تقریر سن کر خون کھول رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی سے خطے کا امن تباہ ہو گا اور اس میں سب کا نقصان ہو گا۔ پاکستان کو اس مسئلے پر آزاد اور خود مختار پالیسی پر عمل کرنا ہو گا۔ سابقہ بجٹ میں افغانستان کی ترقی کیلئے بھی فنڈ مختص کئے گئے تھے مگر اس کا کیا فائدہ کہ ہر بات کا جواب الٹ ملتا ہے؟ پسماندہ علاقوں کی ترقی کی بات کی جاتی ہے مگر عملی طور پر کچھ سامنے نہیں آتا۔ تبدیلی کا نعرہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ داخلی خود مختاری پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ موجودہ حکومت کے تین سال پورے ہو رہے ہیں۔ جمہوری ملک میں چوتھے سال الیکشن کی تیاری کا سال کہا جاتا ہے اور پانچویں سال سیاسی جماعتیں میدان میں اُتر جاتی ہیں۔ تین سالوں میں عوام کے مسئلے حل ہونے کی بجائے مسائل میں اضافہ ہوا۔ غربت اور بیروزگاری بڑھی ہے۔
مہنگائی نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جو وعدے ہوئے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ پہلے سے موجود ادارے مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوئے اور کوئی نیا ادارہ وجود میں نہیں آسکا۔ پاکستان کی مقامی تہذیب کی ترقی کیلئے ادارے وجود میں آنے چاہئیں۔ وزیر اعظم کو پاکستان کے تہذیبی و ثقافتی مسئلے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ وزیر اعظم کو اردو کی بجائے پاکستانی زبانوں پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، پشتو و دیگر زبانوں کی بقاء کیلئے اور ترقی کیلئے ہدایات جاری کرنی چاہئیں۔ پاکستانی قوم صرف اور صرف پاکستانی تہذیب و ثقافت کی ترقی سے بھی وجود میں آسکتی ہے۔
تعلیمی مسئلے پر بھی حکمرانوں کو غور کرنا ہو گا کہ تمام اداروں میں انگلش میڈیم والے راج کر رہے ہیں۔ اردو میڈیم والے پیچھے رہ گئے۔ اس لیے جب تک انگلش کا متبادل نہیں ملتا اُس وقت تک پہلی جماعت سے بچوں کو انگریزی پڑھانی چاہئے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی مثال سامنے ہے کہ ہم ایک ہی دن آزاد ہوئے وہاں انہوں نے ایک ہندی کی بجائے ہندوستان کی تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا اور تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھا۔ آج وہ ہم سے آگے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا یہ ہے کہ اتحادی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں اور بجٹ آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ بجٹ اسمبلی سے پاس ہونے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بجٹ میں عوام کو کتنا ریلیف ملتا ہے۔ بجٹ بنانے والے اس مرتبہ تھوڑی سی مہربانی کریں، بجٹ کو صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ نہ بنائیں، پہلے جتنے بھی بجٹ آتے رہے، ان میں دعویٰ یہی کہا گیا کہ غربت ختم ہو گی مگر ہر بجٹ کے آنے بعد غریب کچلے گئے۔
گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم صوبہ بنائیں گے، اس سے وفاق مضبوط اور مستحکم ہو گا مگر صوبہ کب بنے گا؟ ابھی تک تو صوبہ کمیشن بھی نہیں بنا۔ صوبے کے مسئلے پر حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بجٹ غریب عوام کی امنگوں کے مطابق آئے گا اور اس میں وسیب کا حصہ الگ ہو گا۔ صوبے اور مرکز کی تیاری میں وزرائے خزانہ کو خصوصی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم سپریم کمانڈر کے طور پر بہتر بجٹ بنوانے کے مجاز ہوتے ہیں۔
اس وقت وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وزیر اعظم عمران خان کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے۔ اگر آج بھی وسیب کی پسماندگی اور محرومی ختم نہیں ہوتی تو اس سے بڑھ کر کوئی بدقسمتی نہ ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر