نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوہنی اور ہیر کے قتل کا فریادی۔۔۔۔ اشفاق لغاری

رفعت عباس کی یہ باتیں اگرعامر خان ، شرمین عبید چنائے، گلزار، شعیب منصور جیسے فلم انڈسڑی کے بندے کے ہاتھ چڑھ جائیں تو شائد ہیر ، سسی ، سوہنی کے کیسوں پر شاندارفلم بن پائے۔

ایسی ہیں مقامی آدمی کی باتیں۔ بات کی جائے تاریخ میں مقامی آدمی کے ساتھ کئیے جانے والے دھوکے کے بارے میں۔ بات کی جائے سوہنی اور ہیر کے قتل کے کیس پر پردہ ڈالنے کے بارے میں۔ بات کی جائے سرائیکی وسیب کے بارے میں۔ مقام ہو آرٹس فیکلٹی سندھ یونیورسٹی جامشورو کا کانفرنس حال اور بات چیت کرنے والے کی ماں بولی سرائیکی ہو تو سمجھیں اس لمحے دل زور زور سے "ھوم ھوم” کرنے لگ جاتا ہے۔

یہ ویسی ہی ’’ھوم ھوم‘‘ ہےجیسی گلزار کی فلم” ردالی” میں گائی گئی ہے۔ ان لمحوں میں خوبصورت احساسات کے ساتھ، سرائیکی وسیب کے حق حکمرانی کے کیس پر بات چیت کے ساتھ ساتھ سوہنی ، ہیر اور سسی کے قتل کے فریاد گزار رفعت عباس سے ہاتھ باندھ کر معذرت۔ معذرت اس لئے کہ اسی سندھ یونیورسٹی میں سن 2005ء میں پہلی بار میرا دل محبت کے ہاتھوں فتح ہوگیا تھا۔

دوسری جانب محفل میں فاتحین کا ذکر ہوا تو میں ذاتی اور قومی سطح پر ان کے ظلم کا شکار ہوا ہوں۔ آج یہ زخم پھر سے تازہ ہوگیا ہے۔ رفعت عباس نے گفتگو کے دوران اپنا موقف نہایت خوبصورتی سے بیان کیا اور تفصیل سےسکندر یونانی اور اورنگ زیب جیسے فاتحین جو کہ سرکاری نصاب کا حصہ ہیں، اس پر ایسے انداز میں چوٹ کی ، بات بھی کرلی اور غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھ گئے۔ مکمل طور پر متوجہ حاضرین کو بتایا کہ کتنے ہی مشہور شاعروں کی شاعری عورت اور مقامی آدمی کے خلاف استعمال ہوئی ہے، اس بات کو بھی ایسے سمجھایا کہ کوئی شور تک نہیں ہوا۔ اس لیکچر کے دوران مکمل سکوت طاری رہا حتی کہ کسی کے سانس لینے تک کی آواز نہیں آئی۔


ان کو اس خطے کے بڑے صوفی شاعروں اور لوک حکایت گو سے شکایت ہے کہ ان کی شاعری اور داستان میں سوہنی ، ہیر اور سسی کے قتل کو چھپایا گیا ہے۔ یہ صرف قتل کے کیس نہیں ہیں بلکہ یہ تمام قتل غیرت کے نام پر کئے گئے ہیں۔ مذکورہ فریادی کے پاس ان قتلوں کے ثبوت اور دلائل ہیں جو کہ تحقیق اور تاریخ کی عدالت میں پیش کئے جانے لائق ہیں۔

بنیادی طور پر ان کی فریاد بھی یہی ہے کہ ان قتلوں پر اس حوالے سے کوئی فریاد،کوئی دہائی نہں دی گئی۔ ماضی میں اگر یہ کیس کسی عدالت میں پیش کئیے بھی گئے ہوں تو مندرجہ بالا ثبوت بطور دلیل پیش نہیں کئے گئے۔

رفعت عباس کا کہنا تھا کہ اگرچہ انصاف نہ ہو پر کم از کم عدالت کے روبرو فریاد تو پہنچائی جائے۔ ان کو ماضی کی عدالتوں سے شکایت ہے کہ ان جگ مشہور قتل کے کیسوں میں انصاف کرنے کی بجائے ان کیسوں کو کہیں رومانوی رنگ دے دیا گیا اور کہیں ان کو المئیے میں ڈھال دیا گیا۔ ان کیسوں کے ثبوتوں کو مٹا دیا گیا۔قانونی زبان میں کہیں گے کہ کرائم سین کو ختم کردیا گیا ہے۔

اگر رفعت عباس کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ ایسے ہوگا کہ وارث شاہ نے ہیر اور شاہ لطیف بھٹائی نے سوہنی کے کیس کو شاعری کے ذریعے دریابرد کر دیا ہے۔

رفعت عباس نے باقاعدہ حوالے دئیے کہ کس طرح اس خطے میں صوفی شاعری عورت کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔ اگر ان حوالوں اور دلیلوں کی روشنی میں لوک شاعری اور لوک داستانوں کی چھان پھٹک کی جائے تو اس کیس کی لپیٹ سے شائد ہی کوئی شاعر بچ پائے۔

ان کے بقول ہر بڑا شاعر اسٹیبلیشمنٹ ہوتا ہے اور اسٹیبلیشمنٹ کو چیلنج کرنا یا اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے آنا خاصا تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔

رفعت عباس کا کہنا تھا کہ جس دور میں سوہنی اور ہیر کا قتل ہوا ہے ان کے قتل کے شواہد جلد مٹا دئیے گئے اور بعد کے دور میں ان قصوں کو گایا جانے لگا۔ جس کی وجہ سے ان قصوں کو توڑ مروڑ کر رومانوی بنادیا گیا اور ان کو المئیے کا رنگ دے دیا گیا۔

اس حکایت گو، داستان گو اور شاعر نے نہیں سوچا کہ ان قصوں میں جھوٹ کتنا ہے ؟ کیس کو خراب کرنے کے لئے سازش کتنی ہے ؟ اس طرح سے روایت آگے بڑھتی رہی۔ ان لوگوں یہ قصہ کس نے سنایا؟ "سوہنی نےڈوبتے وقت دریا کے پانی کو کیوں معاف کردیا تھا” "رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی”ثبوت کے طور پر ایسی لائینیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

رانجھا رانجھا کرتے کیسے ہیر رانجھا بن جاتی ہے۔ سوہنی ڈوب رہی ہے اور وہ دریاکے پانی کو معاف کیسے کردیتی ہے۔ ہیر کے سسرالیوں کے ہاتھوں قتل سے لے کر سوہنی کے کچے گھڑے سے جڑے واقعات پر رفعت عباس سوالات اٹھاتا ہے۔

یہ ایسی جرح ہے جیس کہ قتل کے کیسوں میں وکیل عام طور پر کرتے ہیں۔ آخر یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر کمہار کو پتہ نہیں چلا کہ گھڑا کچا ہے یا پکا تو بھلا دوسرا کون ایسی پہچان رکھتا ہے۔ ان کے بقول ایسا ممکن نہیں کہ سوہنی گھڑے کے دھوکے کے ذریعے ڈوبی ہوگی ؟ اسی طرح کے سوالات ہیر کے قتل کے بارے میں کئےگئے جن پر غور کیا جاسکتا ہے۔

رفعت عباس کاکہناتھا کہ ان قصوں کو آج کےجدید سوالوں اور غوروفکرکی کسوٹی کے ذریعے پرکھا جائے ۔ ان قصوں کو کھول کر نئے سرے سے بیان کیا جائے۔ ہمیں معلوم تو ہو کہ کس طرح فاتح حکمرانوں کے زیراثر ہمارے شاعروں نے ہمارے ساتھ کیاکیاہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ان قصوں میں جہاں کوئی سرا ہاتھ آتا ہےپتہ لگتا ہے کہ یہاں ڈنڈی ماری گئی ہے، دھوکاکیا گیا ہے۔ مقامی آدمی کی تاریخ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ سوہنی مہینوال، سسی پنوں اور ہیر رانجھا کی کہانی ایسی ہی ہے جیسے رفعت عباس بیان کرتا ہے تو اس صورت میں ان کہانیوں میں جدائی اور المئیے کی بجائے بندہ ہیر، سسی اور سوہنی کے قاتلوں کو تلاش کرنے لگ جائے گا۔

ایم ایچ پنھور نامور محقق ہو گزرے ہیں جنہوں نے لوک داستانوں کے واقعات کو سرے سے رد کیا تھا۔ لیکن رفعت عباس ایک شاعر ہیں وہ ان قصوں میں ظلم کی داستان ڈھونڈ کر فریادی بنا ہے۔ وہ ہیر، سسی اور سوہنی کے قتل کی ایف آئی آر نہ کٹنے پر دکھی ہے۔ وہ اس جستجو میں لگا ہے کہ کس طرح ہیر ، سسی اور سوہنی کے قتل کا اندراج غیرت کے نام پر کئیے گئے قتل کے طور پر کروایا جاسکے۔

رفعت عباس کی یہ باتیں اگرعامر خان ، شرمین عبید چنائے، گلزار، شعیب منصور جیسے فلم انڈسڑی کے بندے کے ہاتھ چڑھ جائیں تو شائد ہیر ، سسی ، سوہنی کے کیسوں پر شاندارفلم بن پائے۔


بشکریہ روزنامہ کاوش 

سندھی سے ترجمہ :مدثر بھارا

About The Author