رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھے زمانوں میں ایک مضمون پڑھا تھا جو ہمیشہ یاد رہا۔ عنوان تھا ’منٹو میرا دشمن‘۔ مصنف تھے اُپندر ناتھ اشک۔ترقی پسند وں کی انقلابی تحریک میں اردو افسانے کا پرچم اٹھائے آگے آگے چلنے والوںمیں یادگار شخصیت۔قلم پر ایسی گرفت تھی کہ دشمن کا نام دے کر ایسے مثالی دوستی کے پُل باندھے کہ اس ہنر مندی پر عقل عرصے تک حیران رہی۔ پر مجھے کیا خبر تھی کہ حالات پہلو بدل بدل کر مجھے اُس مقام پر پہنچادیں گے کہ جہاں وہی اپندر ناتھ اشک ملیں گے اور ایسے بے تکلف اور کھرے دوستوں کی طر ح کہ مجھے یہ عنوان دینا پڑا : اشک میرا دوست۔
یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں ۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سر پر بٹھالیں۔
واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لئے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لئے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لئے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔آج میرے چالیس پچاس سال کے کاغذات سے ان کا ایک خط نکلا ہے جو میرے لئے کسی یادگار سے کم نہیں۔ اشک جیسے ادیب کے اس لب و لہجے پر رشک آتا ہے۔اسے پڑھ کر آپ تسلیم کریں گے کہ اشک میرا دوست تھا۔ اس ملاقات کے ایک سال بعد وہ چل بسے اور اپنی یہ بات دو تین بار لکھ گئے کہ لندن میں میرے دوست ملیں تو میری یاد دلانا۔خط جوں کا توں نقل کر رہا ہوں:
5خسرو باغ روڈ۔ الہ آباد۔ بھارت 3 جولائی 1985
پیارے عابدی، تسلیم،
تمہارا21جون کا خط ملا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ گرینڈ ٹرنک روڈ والی تمہاری مہم بخیر و خوبی ختم ہوئی اور تم اپنے کام میں کامیاب ہوئے۔ نیلابھ کو تمہارا پیغام دے دیا ہے۔ اس نے بھی ایک اطلاع تم تک پہنچانے کو کہا۔ اس سڑک کانام شیر شاہ نے سڑک ِ اعظم رکھا تھا۔ میرا خیال ہے وہیں سے انگریزوں نے اس کے نام کا ترجمہ کرلیا۔
میں نہیں جانتا کہ تم دونوں (میں اور میری بیگم) کتابیں پڑھنے کا کتنا شوق رکھتے ہو۔ میرا تجربہ ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی الماریوں میں کتابیں سجانے کے شوقین ہوتے ہیں، پڑھنے کے نہیں۔ اگر تم یا ماہ طلعت میری کوئی کتاب پڑھو تو جیسی بھی تم دونوں کی رائے ہو،مجھے ضرور لکھو۔ میں بہت مشکور ہوں گا اور تمہیں دوسری کتابیں بھیجوں گا۔ میں نہیں جانتا بی بی سی اردو سروس میں ان میں سے کسی پر ریویو کرسکتے ہو یا نہیں، کر سکو تو کیا کہنے ہیں۔
کیا مجیب (صدیقی) وہیں ہیں، ان کو میرا سلام دینا اور یاد دلانا۔ وہ کب تک آرہے ہیں یا نہ آرہے ہوں تو جیسے تمہیں کتابیں بھیجی ہیں، ویسے ہی انہیں بھجوانا چاہوں گا۔میں ساقی فاروقی کو خط لکھنا چاہتا تھا، لیکن ان کا پتہ میرے پاس نہیں ہے۔ بھیج سکو تو مشکور ہوں گا۔ ان کی نظموں کا تازہ مجموعہ’ راڈار‘ پڑھا تھا اور انہیں لکھنا چاہتا تھا۔ راج کھیتی، اطہر راز اور دوسرے دوست ملیں تو میری یاد دلانا۔
’کتب خانہ‘ کا میں شوق سے انتظار کروں گا۔
ماہ طلعت کو میرا سلام اور پیار دینا۔ یاور عباس، افتخار کبھی ملیں تو انہیں بھی یاد دلا نا۔ میں آج کل بیدی پر ایک بہت طویل یادداشت لکھ رہا ہوں۔ ناول سے کہیں زیادہ دلچسپ اور گہری ہے۔ دو حصے چھپے ہیں اور لوگوں نے پسند کئے ہیں، تیسراابھی کل ختم کیا ہے۔
کوشلیا اور نیلابھ تمہیں یاد کرتے ہیں اور سلام بھیجتے ہیں۔ خیر اندیش اوپندر ناتھ اشک
یہاں ایک دلچسپ بات۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا بیٹا نیلابھ جی ٹی روڈ پر ایک طویل نظم لکھ رہا ہے۔مجھ پر پاکستان پہنچ کر یہ انکشاف ہوا کہ شیر شاہ کی تاریخی سڑک پشاور سے نہیں بلکہ اٹک کے قریب جس مقام سے شروع ہوتی تھی اس قصبے کا نام نیلاب ہے۔ میں نے خوش ہوکر وہ خبر اشک صاحب کو لکھ بھیجی۔خوش ہوئے۔
اور آخر میں اردو کے سرکردہ اسکالر اور باکمال محقق اور استاد گوپی چندنارنگ جو کینیڈا جاتے ہوئے میری کہانیوں کا مجموعہ ’اپنی آواز‘ ہمراہ لے گئے اور وہاں سے اس کتاب پر دل کش تبصرہ لکھ بھیجا۔ میرے کاغذات کے ذخیرے کو خود پر ناز ہوگا کہ اس میں ایسے ایسے نایاب جواہرموجود تھے۔ ملاحظہ کیجئے:
کہانی کہنے کا فن بات بُننے یا واقعہ بُننے کا فن ہے اور اس گُر سے رضا علی عابدی بہت پہلے سے واقف ہیں، بس وہ کہانی کی طرف نہیں آتے تھے، اب کہانی خود ان کی طرف آگئی ۔ان کے بیانیہ میں رچے بسے کلچر کی بو باس اور مٹی کا سوندھا پن ہے، کہیں کہیں مغرب کے شگوفوں کا رنگ اور بچوں کی چہکار بھی ہے۔ لیکن جو کچھ ہے انسانیت کے سنہرے فیتے سے بندھا ہوا ہے۔ اسی لئے تو ان کے لہجے میں لوچ بھی ہے اور رس بھی۔ اردو افسانے میں رضا علی عابدی کی آمد ایک واقعہ ہے۔
گوپی چند نارنگ۔ٹورنٹو12 ستمبر 1995
بشکریہ جنگ
مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی
کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی
جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر