(رپورٹ :بی بی سی اردو ڈاٹ کام )اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ واقعہ منگل کی شب اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں پیش آیا جب تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا۔
اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے اسد علی طور کو پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا۔
بی بی سی کے اعظم خان کے مطابق اسد علی طور کا کہنا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی ‘پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔’
فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کرب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسد علی طور کو زخمی حالت میں فلیٹ سے باہر نکلتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسد علی طور پر حملے کی خبر عام ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کا سلسلہ شروع ہوا وہیں حال ہی میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے منظور کیے جانے والے قانون کی اہمیت پر بھی سوال اٹھائے جانے لگے۔
صحافی برادری کے علاوہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے مزمت کی گئی ہے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے اسد طور پر کیے گئے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایس ایس پی اسلام آباد کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ اس حملے کی فوری تفتیش کریں۔
اسد علی طور اپنی عدالتی رپورٹنگ اور حکومت اور ریاستی اداروں پر تنقیدی یو ٹیوب پر ویڈیو بلاگز کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
گذشتہ برس اسد طور پر راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد طور کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ اسلام آباد میں حکومت کے ناقدین صحافیوں پر حملے کا حال ہی میں دوسرا واقعہ ہے۔
چند ہفتے قبل ایک اور صحافی ابصار عالم ایف الیون میں ہی اس وقت زخمی ہو گئے تھے اب ان پر گھر کے قریبی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے فائرنگ کی گئی۔
واقعے پر رد عمل
صحافی اسد طور پر حملے کے بعد صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل جنوبی ایشیا کی جانب سے بھی اس حملے کی مذمت کی گئی۔ ادارے کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے بل اسی ہفتے پیش کیے جانے کے بعد صحافی کے خلاف اسی کے گھر میں پُرتشدد حملے پر ادارے کو شدید تشویش ہے۔ ہم حکام سے اپنا مطالبہ دہراتے ہیں کہ وہ صحافیوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے۔
صحافی مطیع اللہ جان نے ٹویٹ کیا کہ ‘یہ سنجیدہ اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ حکومت اپنے شہریوں اور صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اعظم عمران خان کو اتنا بے بس اور بے شرم نہیں ہونا چاہیے۔’
ریما عمر نے لکھا ’صحافیوں کے تحفظ کا بل‘ (جو اس ہفتے کے شروع میں قومی اسمبلی میں انتہائی دھوم دھام کے ساتھ پیش کیا گیا) #AsadTur کے خلاف اس طرح کے بے رحمانہ تشدد کو روکنے اور مجرموں کو سامنے لانے میں کس طرح مدد فراہم کرے گا جن کو اب تک انتہائی گھناؤنے جرائم کے لیے مکمل استثنیٰ حاصل ہے؟ ‘
علی ڈار کا کہنا تھا ’ اسد علی طور صاحب نے ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اُٹھائی اور حق کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہوئے۔ آج ہم سب پر فرض ہے کہ ان کے لیے اور اس نظام کی تبدیلی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں جس کو بدلنے کی کوشش کرنے پر آج اسد کو نشانِ عبرت بنانے کو کوشش کی گئی۔‘
گلالئی اسماعیل نے بھی اسد علی طور پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے سماجی رابطے کی سئٹ ٹوئٹر پر لکھا ’اسد علی طور جو ’اسد علی طور ان سینسرڈ” کے اپنے نعرے پر قائم رہے ہیں وہ اقتدار سے سچ بولنے اور اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھانے کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ حملہ آوروں کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ تشدد صحافیوں کو خاموش نہیں کرسکتا۔‘
یہ بھی پڑھیے:
سپریم کورٹ،قاضی فائز عیسی اور ففتھ جنریشن وار||اسد علی طور
نظر ثانی اپیل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہم انکشافات۔۔اسد علی طور
جسٹس قاضی فائز کیس: نظر ثانی اپیل میں سرینا عیسٰی کے اضافی دلائل کیا ہیں؟۔۔۔اسد علی طور
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر