گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیس سال پہلے یہ غالبا” 25 جولائی 1999ء کا دن تھا جب ڈیرہ کا Titanic ڈوب گیا۔ میری محبت اس جہاز سے اس وقت شروع ہوئی جب
بچپن میں مجھے لاھور کے ایک سکول داخل کیا گیا تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لاھور پہنچنے پر دو دن لگتے تھے جو سفر اب چھ گھنٹے کا ھے۔
اس سفر کا دلچسپ پہلو SS Jhelum جھاز تھا جو دریا خان اور ڈیرہ کے درمیان دریاۓ سندھ کے بیس کلو میٹر فاصلے کو طے کرتے پورا دن لگا دیتا۔ اس جھاذ کے نچلے عرشے میں مال مویشی ساز وسامان اور کچھ لوگ ہوتے اور اوپر والے عرشے میں مسافر۔ کبھی کبھی اوپر والے عرشے میں بارات جا رہی ھوتی تھی تو گانے واے ڈھول والے اورجھمر ڈانس والے بھی اپنے فن سے محظوظ کرتے۔ دریا کی لہروں پر تیرتے جہاز میں میوزک اور جھمر کا مزہ کچھ۔۔ ھور۔۔ ہے ۔ جب جہاز دریا کے کنارے سے روانہ ھوتا تو ایک خاص قسم کا ہارن بجاتا جسے ہم کُوک کہتے تھے جو سارے شھر کو سنائ دیتی اور دل کو بھاتی تھی کہ اب جہاذ روانہ ہورہا ھے پیارے گلے مل رھے ہیں اور جدائ کا وقت شروع ہو گیا ۔بعض بچوں عورتوں کی آنکھیں نمناک ہوتی کیونکہ اُس زمانے میں جدائی کافی لمبی ہوتی تھی۔
جہاز کا کپتان جانو ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کا ماہر تھا ۔دور دور سے لوگ علاج کروانے اس کے پاس آتے تھے۔
ایک دفعہ بچپن میں میری دائیں بازو کی ہڈی کریک ہو گئی تو میرے بابا مجھے جانو کپتان کے پاس لے گئے ۔جانو کپتان نے ہڈی جوڑ کر پٹی باندھ دی اور بابا کو کہا آٹے کا گرم حلوہ پکا کر بازو کے ارد گرد لپیٹ کر پٹی باندھنی ھے۔
چنانچہ ماں نے خالص گھی میں حلوہ پکا کر بازو پر لگایا اور پٹی باندہ دی۔ جب ماں ذرا ادھر ادھر ہوتی تو ہم دوست ملکر حلوہ کھالیتے اور پٹی باندہ دیتے۔ ماں بیس دن حلوہ باندھتی رہی اور ہم حلوہ کھاتے رھے۔ پتہ نہیں یہ حلوہ کھانے کی کرامت تھی یا جانو کپتان کا فیض نظر تھا آخر میرا بازو ٹھیک ہو گیا اور ہم حلوے سے محروم ہو گئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر