ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شطرنج کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ شطرنج کی بساط پر کھیلتے ہوئے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جہاں پر ایک چال جس کو زیگزوانگ (zugzwang) کہا جاتا ہے چلنے کا وقت آ جاتا ہے۔ یہ چال بنیادی طور پر کھیل کا ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ اس موقع پر شاطر جو بھی چال چلتا ہے جس طرف بھی چلتا ہے ہر صورت میں اس کو مات ہی ہوتی ہے۔ اس طرح کے مرحلے پر جب کافی سوچ و بچار کے بعد بھی کھیلنے والا ہر طرف سے بے بسی محسوس کرتا ہے بچت کی کوئی راہ نہیں پاتا تو ہنس کر اپنے مہرے دوبارہ بساط پر بچھانے لگتا ہے اور شطرنج کی بساط پر جیتنے والے کھلاڑی کے لیے ہارنے والے کے چہرے کی ہنسی اطمینان کا باعث ہوتی ہے
کچھ ایسی ہی کیفیت پاکستانی سیاست کی بساط پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ پاکستانی سیاست کی بساط کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کھلاڑیوں کا تعین کر لیا جائے۔ اگر کھلاڑیوں کا تعین ٹھیک کر لیا تو سیاسی شطرنج کی بازی سمجھنے میں کافی آسانی ہو جائے گی۔ ہر مہرے کا کردار سمجھ آنے لگ جائے گا۔ کون سا مہرہ کس وقت مارا جائے گا اس کا بھی کم وبیش درست اندازہ ہو جائے گا۔ تو سیاست کی بساط پر تعین کر لیں کہ کون سے دو کھلاڑی مدمقابل ہیں۔
ہو سکتا ہے آپ میرے اندازے سے اتفاق نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ اس بار سیاسی بساط پر دونوں طرف ایک ہی کھلاڑی کھیل رہا ہے۔ اس کھلاڑی نے بڑی محنت اور سوچ و بچار کے بعد سیاسی بساط بچھائی تھی۔ کوئی شک نہیں کہ 2018 میں جس وقت یہ بساط بچھائی گئی تو لگتا تھا کہ پاکستان کی سیاست کا ہر مہرہ بڑی بے رحمی سے استعمال ہوگا اور مارا جائے گا۔
مگر کسے معلوم تھا کہ اتنی محنت سے بچھائی گئی بساط پر لائے گئے من پسند کھلاڑی نے جو بھی چال چلنی ہے بری چلنی ہے۔ ابتدا میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا گزشتہ بازیوں کے تمام بادشاہ اور ان کے کھلاڑی آہستہ آہستہ بساط سے ہٹا دیے گئے تھے۔ کچھ مبینہ طور پر کرپٹ قرار پائے اور جیلوں میں مقید ہو گئے اور کچھ کو بیرون ملک بھیج کر جان چھڑائی گئی۔ مطمح نظر ایک ہی تھا کہ نئے کھلاڑی کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جائے۔ اپنی مرضی سے مہرے چلنے کی اجازت دی جائے۔
یہ وہی وقت تھا جب سیاست میں کھلاڑیوں کے کھلاڑی نے فلور آف دی ہاؤس تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس حکومت کو نہیں گرائیں گے بلکہ یہ حکومت اپنی کارکردگی سے خود منہ کے بل گرے گی۔ سب تماشائی سمجھے کہ یہ محض ایک سیاسی بیان ہے۔ مگر یہ سیاسی بیان نہیں تھا اس جہاندیدہ کھلاڑی نے دیکھ لیا تھا کہ یہ بازی بھی پٹنے والی ہے۔
حکومت کا پہلا سال کمال کا رہا کوئی شک نہیں کہ کھلاڑی نے محض نعروں اور وعدوں سے کروڑوں پیادوں کو بہلائے رکھا میڈیا نے بھر پور ساتھ دیا۔ سابقہ ادوار کی ہر مبینہ کرپشن کا واویلا کیا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں اور ان بھینسوں کے دودھ پینے والوں کی زیر استعمال گاڑیوں کو اونے پونے نیلام کر کے کھلاڑی نے شہرت کے ہمالیہ کو چھو لیا۔ کوئی شک نہیں کہ حکومت کا ابتدائی سال ایک ایسا کنٹرولڈ سونامی تھا جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ملک کی سیاسی بساط پر یہ وہ وقت تھا جب بساط کے ایک طرف کھلاڑی اور اس بازی کے لیے اس کو سلیکٹ کرنے والے سلیکٹرز تھے اور بساط کی دوسری طرف سابقہ بازیوں کے استعمال کیے ہوئے مہرے جمع تھے۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ اس بار بازی کھلاڑی لے گیا
حکومت کو جب مناسب وقت مل گیا تو بات حکومت کی کارکردگی کی ہونے لگی تو کھلاڑی نے بساط پر ایک بار پھر اپنے مہروں کی ترتیب درست کی اور نئے سرے سے چال چلنے کی تیاری کی۔ اس دوران بساط کی دوسری طرف کے مہرے جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف ایک اتحاد بنا کر ایک چال چل دی۔ یہ چال وقتی طور پر کارگر ثابت ہوئی اور حکومتی کارکردگی کو لے کر تماشائی جو کہ کھلاڑی کی کارکردگی سے پریشان تھے اس اتحاد کی باتیں سننے لگے۔ سلیکٹرز نے کپتان کو سمجھایا کہ عوام پریشان ہیں کوئی کارکردگی دکھاو۔ مگر کارکردگی کپتان نے نہیں اس کے کھلاڑیوں نے دکھانی شروع کردی۔ ایک دم سے چینی اور آٹا اسکینڈل سامنے آئے اور اس میں کپتان کے کھلاڑیوں کے نام آنے لگے۔ کپتان نے تحقیقات کا حکم دے دیا اور ان تحقیقات کے نتیجے میں اپنے ایک موثر مہرے کو اقتدار سے الگ کر دیا۔
اس کے بعد ملک کی سیاسی بساط پر کپتان نے ہر چال بری چلی۔ اپوزیشن کیا تنگ کرتی کپتان اپنے مہروں کو نہیں سنبھال سکا۔ کارکردگی کے نام پر ایک بار پر بساط پر مہروں کی تبدیلی کی گئی مگر حالات بہتر نہی ہو سکے۔ ہر مہرہ مخالف کی چال سے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی سے پٹنے لگا۔ مہنگائی، بے روزگاری نے تماشائیوں کا جینا حرام کر دیا ان کی دہائیاں کانوں کے پردے پھاڑنے لگیں تو اس بازی کے منتظمین نے پہلی بار مخالف مہروں پر ہاتھ رکھا۔ یہ مہرے آزمودہ تھے کارکردگی دکھا سکتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ اس مدت میں اس بساط کے لیے نئے مہروں کے انتخاب میں کپتان کے کھلاڑی پٹتے رہے اور اپوزیشن کے مہرے منتخب ہوتے رہے۔ ہر زیرعتاب جیل سے چھوٹ گیا ہر جلاوطن رابطے میں آ گیا۔
امن وامان کی صورتحال، بے روزگاری، مہنگائی نے کپتان کی ہر چال کو الٹ دیا۔ نئی ریاست کی تشکیل کا دعویٰ کرنے والا پرانی ریاست نہیں سنبھال سکا۔ قرضوں کی بھرمار نے بساط پر ہر چال مشکل بنا دی۔ مخالف تمام اہم مہرے آزاد ہیں متحرک ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ان کو اس بار آشیر باد حاصل ہے۔ اپنا ایک مہرہ بہت سے باغی کھلاڑیوں کے ساتھ الگ بیٹھا انتظار کر رہا ہے کہ کب اشارہ ہو اور وہ قیامت خیز چال چل دے۔ ان حالات میں کپتان کے لیے اس بساط پر زیگزوانگ کی کیفیت طاری ہونے والی ہے۔ اس کیفیت سے پہلے سنا ہے کپتان رنگ روڈ کے ایشو پر افسردہ ہے۔ تاہم کپتان ایک بار پھر اپنے مہروں کو جمع کر کے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر شاید وقت گزر چکا ہے۔ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے شاید کچھ وقت مزید مل جائے مگر اب کپتان کے لیے زیگزوانگ کی چال کی کیفیت سے بچنا ناممکن ہے۔
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر