سہیل میمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل سندھ میں سب سے بڑا مسئلہ کراچی کے باہر قائم بحریہ ٹاؤن کا چل رہا ہے، بحریہ ٹاؤن کے لوگ روزانہ اپنی پرائیویٹ ہتھیار بند فورس اور ہیوی مشینری لے کر بحریہ ٹاؤن کے ارد گرد صدیوں سے قائم گوٹھوں کو یوں مسمار کرتے جا رہے ہیں جیسے اسرائیلی فلسطینیوں کی زمین کے ساتھ کرتے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد کے درمیان کی زمینوں پر ہزاروں کی تعداد میں قائم گوٹھوں میں صدیوں سے جوکھیو، برفت، پالاری، بھنبرو، گبول، لاشاری، کھوسہ، ہندو اور دوسری ذات کے لوگ آباد ہیں۔ جن کی آبادی، ڈی ایچ اے، کمانڈر سٹی، ائرفورس کالونی، اور بحریہ ٹاؤن کے بلڈر وینچر کے نیچے بلڈوز کی جا رہی ہے جس پر پورے سندھ میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک پلاننگ کے تحت جنوبی سندھ میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے ماسٹر پلان پر عمل ہو رہا ہے جس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے
بحریہ ٹاؤن کے حوالہ سے سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ ایک ہاؤسنگ اسکیم ہے یا کوئی نیا شہر؟ کیونکہ اس کی حدیں ہی متعین نہیں۔ ایک بلاک پر کام کرتا ہے، وہ بیچتا ہے اور پھر آگے بڑھ جاتا ہے اس طرح میلوں تک ایک نیا شہر بنا دیا گیا ہے۔ اسمبلی سے پاس ہوئے کے بغیر کوئی ہاؤسنگ اسکیم تو شاید بن سکتی ہے مگر ایک نیا شہر نہیں۔ حیدر آباد سے کراچی تک کے علاقوں میں بنائے گئے ان نئے شہروں کو پانی کی فراہمی، ڈرینج سسٹم، گیس اور دوسری سہولیات سندھ حکومت اور وفاقی ادارے، عوامی احتجاج کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مہیا کرتے جا رہے ہیں۔ سندھ میں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ پورے ملک میں جو بلاول ہاؤسز ملک ریاض نے بنا کر تحفے کے طور پر پیش کیے ہیں وہ اصل میں ان زمینوں کی ایڈوانس قیمت ہے جو بحریہ ٹاؤن کراچی کی لا حد زمین ملک ریاض کو دی گئی ہے۔ بلاول ہاؤسز کے بدلے سندھ کے ہزاروں گوٹھوں کی زمین۔
کوئی قانون ان لاکھوں مظلوموں کا ساتھ نہیں دے رہا، ملکی میڈیا خاموش ہے بس سوشل میڈیا پر ایک طوفان ہے۔ اور وہ وڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جس میں بحریہ ٹاؤن کی ذاتی فورس سینکڑوں گاڑیوں میں ہتھیار بند ہو کر ہیوی مشینری کے ساتھ گوٹھ مسمار کرنے پہنچ رہی ہے اور سامنے ہزاروں لوگ پتھروں سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ روزانہ کا منظر ہے، سندھ کے قوم پرستوں نے پورے سندھ میں احتجاج کی کال دی ہے اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تقریباً ہر چھوٹی بڑی تنظیم نے عید کے بعد احتجاج کی کال دی ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے سامنے موٹر وے پر دھرنے کا پروگرام بھی سامنے آیا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کی پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ نے بحریہ ٹاؤن کی طرف سے سندھی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کرنی چاہی تو اسپیکر نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ پیپلز پارٹی، ملک ریاض اور مقتدر قوتوں کے اس مشترکہ پلاننگ کو سندھ کے لوگ سمجھ تو رہے ہیں اور پر امن احتجاج بھی کر رہے ہیں جس کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
طاقت کے نشے میں عوامی احتجاج نظر انداز کرنا زیادہ پائیدار نہیں ہوتا ہے۔ سندھ میں اس طرح کی کالونائیزیشن کو سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے پلان کے طور پر لیا جا رہا ہے اور شدید غصہ پایا جاتا ہے، وفاقی حکومت کو اس معاملے میں اپنی پالیسی واضح کر کے آگے آنا پڑے گا اس سے پہلے کہ عوام کا غصہ شدت اختیار کر کے تنگ آمد، بجنگ آمد پر اتر آئے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر