نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دِلوں میں اُمڈتے شکوک و شبہات||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

وجود کی شناخت کی اس جنگ میں کچھ برس پہلے افغانستان میں ترقی پسند خواتین کی طرف سے شروع کی جانے والی تحریک ”میرا نام کہاں ہے؟“ کو جہاں پذیرائی ملی وہیں بے شمار سنگ سمیٹنے کو بھی ملے۔ ایک صاحب کا موقف کچھ یوں تھا

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بیگم و امجد حسین کی لاڈلی دختر نیک اختر کی تقریب عروسی ہمراہ عزیزی فہیم حسین طے پائی ہے۔ آپ کی موجودگی ہماری تقریب کو چار چاند لگا دے گی۔ متمنی شرکت!“
شادی کارڈ پڑھتے ہوئے ہم نے حیرت سے سوچا، بھلا یہ کیا نام ہوا؟ دختر نیک اختر؟

بھاگے بھاگے آپا کے پاس پہنچے، کہ یہ کیسا نام ہے، وہ کارڈ پڑھ کے ہنستے ہوئے کہنے لگیں،
”ارے تم غلط سمجھیں، دختر نیک اختر بیٹی کا نام نہیں، بیٹی کے لئے لکھا گیا ہے“

”لیکن بیٹی کا نام کدھر ہے؟“ ہماری سمجھ سے بات ابھی بھی باہر تھی۔

”بھئی بہت سے لوگ اپنی بیٹی کا نام کارڈ پہ لکھوانا مناسب نہیں سمجھتے“ آپا سمجھاتے ہوئے بولیں،
”مگر کیوں؟ تقریب کا بلاوا تو اسی کی شادی کے سلسلے میں ہے نا“
ہماری آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی تھیں، بھلا یہ کیا بات ہوئی؟

”بس ہمارے یہاں کچھ ایسا ہی رواج ہے! اب دیکھو نا امجد حسین صاحب نے اپنی بیوی کا بھی نام نہیں لکھا، محض بیگم سے کام چلایا ہے“
”یعنی آپ کا مطلب ہے، عورت کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ وہ ساری عمر گمنام رہ کے دختر، بیگم اور والدہ سے گزارہ چلاتی ہے“
ہم نے افسردگی سے کہا۔

”بس ایسا ہی کچھ ہے“ آپا دھیرے سے بولیں۔

”یہ تو بہت زیادتی ہے! ماں بیٹی دونوں کے نام کارڈ پہ موجود نہیں اور باپ اور داماد کے نام کس طمطراق سے لکھے گئے ہیں“ ہم نے اداس ہوتے ہوئے سوچا۔

گو اس وقت ہم نوعمر تھے لیکن ٹھان لیا تھا کہ آنے والے وقت میں اس ریت کو بدل کر رہیں گے۔ بہت برسوں بعد جب ایسا موقع آیا تو کارڈ کے اوپر ہمارا نام جلی حروف میں جگمگا رہا تھا۔ شہری احباب نے یہ کارڈ وصولنے پہ حیرت سے پوچھا تھا کہ کارڈ کے باہر طاہرہ لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟

اماں ابا نے گاؤں میں قیام پذیر اپنے رشتے داروں کو اس ماڈرن کارڈ کی پریشانی سے بچانے کے لئے ایک دوسرے کارڈ کا اہتمام کر لیا تھا جس پہ روایتی انداز میں نوید مسرت کی نوید لکھی گئی تھی۔

بچپن میں یہ بھی دیکھا کہ اماں اور ان کی سہیلیاں اکثر بازار خریداری کرنے جاتیں۔ رسید لیتے ہوئے جہاں بھی نام لکھوانے کی ضرورت پڑتی، چاہے وہ دوپٹے رنگنے والا رنگریز ہوتا یا چشمہ بنوانے کی دکان، سوال کبھی یہ نہ ہوتا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ پوچھا جاتا، نام کیا لکھوں جی؟

جواب میں لکھوایا جانے والا نام کبھی بھی کسی خاتون کا اپنا نہ ہوتا۔ ہر کوئی سہج سے شوہر یا بیٹوں کا نام لکھوا دیتی۔ ہماری اماں بھی اسی رواج کے زیراثر کبھی شوکت علی لکھواتیں، کبھی رضا اور کبھی طاہر۔ ہم حیرت سے سوچتے، یہ اماں اپنا نام بتاتے ہوئے شرماتی کیوں ہیں؟ کیا انہیں اپنا نام پسند نہیں؟ لو اتنا پیارا تو نام رکھا ہے نانا نے، عظمت سیدہ!

یہ عقدہ بھی آپا کی وساطت سے ہی حل ہوا کہ اچھی عورتیں بازار میں غیر مردوں کو نام نہیں بتایا کرتیں۔ ہائیں یہ کیا بات ہوئی؟ دکانداروں کو گاہک خواتین کے نام سے کیا لینا دینا؟ یہ اتنی احتیاط بھلا کیوں؟

محفلوں میں جانے کے شوقین تو تھے ہی، سوال و جواب کے دریچے وہاں بھی کھول لیتے۔ وہاں ڈھیروں خواتین ہوتیں مگر سب کی سب ذاتی نام سے پکاری نہ جاتیں۔ کوئی مسز غضنفر ہوتیں تو کوئی بیگم خالد، کوئی بھابھی مجاہد ہوتیں تو کوئی والدہ امجد۔ ہم پھر حیرت زدہ ہو جاتے کہ یہ سب بنا اپنے ذاتی نام کے پکارے جانے پہ کس سکون سے بیٹھی ہیں؟

اپنی گھرداری شروع ہوئی تو وہاں بھی اسی معمے کو حل کرنا پڑا جب ملازم ہم سے کچھ دیر کی چھٹی چاہنے کا سبب یہ بتاتا کہ اسے ’بچوں‘ کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔ بچوں کی تعداد پوچھنے پہ شرماتے ہوئے کہتا کہ ابھی تو شادی کو تین ماہ ہی ہوئے ہیں۔ یہ سننے پہ ہماری بوکھلاہٹ دیدنی ہوتی کہ یا خدا اتنی جلدی بچے کہاں سے ٹپک پڑے؟ کریدنے پہ علم ہوتا کہ ’بچے‘ سے مراد زوجہ محترمہ ہیں جن کا نام لینا مردانہ غیرت کے منافی ہے۔

بتدریج واقعات و حالات نے آگہی دی کہ پدرسری معاشروں کی تربیت عورت کو مرد کی ملکیت قرار دیتے ہوئے تقاضا کرتی ہے کہ ملکیتی عورت کو بچے، بچوں کی ماں، گھر والی، میرا بازو ہی کہہ کر پکارا جائے۔ اس تفتیش میں یہ بھی کھلا کہ دوردراز کے دیہی علاقوں میں انہیں میری بکری اور میری مرغی کہہ کر بلانے والے بھی کم نہیں۔ اب یہ سامع کی دانش پہ منحصر کہ وہ گفتگو میں مرغی اور بکری سے کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔

حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا نے بھی ہمیں بہت کنفیوزڈ رکھا۔ فیس بک پہ جب بھی ام عالیہ، بنت ارشد اور اس سے ملتے جلتے ناموں کی درخواست آتی، ہم بے اختیار ہو کے سوچتے، کیا ابھی بھی وہی سوچ پنپ رہی ہے؟ اب کے مدد کے لئے آپا تو موجود نہیں تھیں، سو ایک اور عزیز کی باتیں سن کے طبعیت صاف ہو گئی جو ایک محفل میں ببانگ دہل انتہائی فخر سے اعلان کر رہے تھے کہ ان کے خاندان کی کوئی عورت ابھی تک فیس بک پہ اکاؤنٹ نہیں رکھتی۔ شاید نام چھپا کے اکاؤنٹ بنانے کے ساتھ رویوں کی یہی بدصورتی لپٹی ہوئی تھی۔

صاحب سو بات کچھ یوں سمجھ میں آئی کہ پدرسری معاشروں کی روایات اور قبائلی رواج عورت کو ایک انسان کی حیثیت دینے سے انکار کرتے ہوئے مرد کے حوالے سے پہچان کروانے پہ اصرار کرتی ہیں۔ بچپن سے گھر کے بچے کو باور کرا دیا جاتا ہے کہ گھر کی عورت کا حوالہ اس حد تک باعث ذلت ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے پہ لکھا ہوا نام شوہر، باپ اور بھائی کو میڈیکل سٹور پہ دوائیاں لیتے ہوئے نادم کرتا ہے کہ اس کے گھر کی عورت کا نام ایک دوسرے مرد تک کیوں پہنچا؟

نام جیسی بنیادی اور ذاتی شناخت کے متعلق مرد کا فیصلہ کرنا کہ کہاں اور کیسے استعمال کیا جائے، کسی بھی عورت کے وجود کو مسل کے ریزہ ریزہ کرنے کے مترادف ہے۔

نام ہی تو وہ پہلی شناخت ہے جو وہ کسی بھی فرد کا اس دنیا میں آنے کا پیغام اور اثاثہ ہے جو اس انسان کو معتبر بناتا ہے۔ کسی بھی انسان کا نام اس کی ذات اور وجود کے موجود ہونے کا نہ صرف یقین دلاتا ہے بلکہ نام ایک حق ہے جو ہر کسی کو بائی ڈیفالٹ ملتا ہے۔

عورت کے نام سے شرمندگی کا احساس اور عورت کے نام کو کسی پردے میں لپیٹ کر پیش کرنے کا معنی صرف یہی ہے کہ اس کی ذات کہیں نہ کہیں مرد کا سر جھکانے کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنی مردانگی کا شملہ ازخود عورت کے وجود سے نتھی کر بیٹھا ہے۔ سو اس کے خیال میں عورت کے وجود، اس کی ذات اور اس کی شناخت قطعی اہمیت نہیں رکھتی اور غیرت متقاضی ہے کہ عورت کی پہچان سات پردوں کے اندر ملفوظ رکھی جائے۔

وجود کی شناخت کی اس جنگ میں کچھ برس پہلے افغانستان میں ترقی پسند خواتین کی طرف سے شروع کی جانے والی تحریک ”میرا نام کہاں ہے؟“ کو جہاں پذیرائی ملی وہیں بے شمار سنگ سمیٹنے کو بھی ملے۔ ایک صاحب کا موقف کچھ یوں تھا

” میرا نام اکرم ہے، میرے بچوں کی ماں کا نام؟ میں زبان پہ نہیں لاؤں گا اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے“

سو کیا کہیں سوائے اس کے کہ آج بھی سوچ وہی ہے کہ عورت کو کس مقام پہ کتنی ڈھیل دینی ہے اور کس وقت نکیل ڈالنی ہے؟ کا حق مرد کے پاس ہے۔ جب سرزنش کرنے اور تھپکی دینے کا حق مالک کے پاس ہے اور عورت ہے ہی ملکیت تو کون سا نام اور کیسی شناخت؟

About The Author