نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم کا قوم سے خطاب معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ بحران کے دنوں میں ’’اچانک‘‘ ہو تو اس کا واحد مقصد بحران کا سبب ہوئے کسی موضوع کی بابت حتمی رائے کا اظہار ہوتا ہے۔اس تناظر میں گویا ریاست اور حکومت کی جانب سے بہت سوچ بچار کے بعد اپنائی پالیسی۔
پیر کی سہ پہر عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب کیا۔ذاتی طورپر مجھے یہ خطاب قبل از وقت محسوس ہوا۔وجہ اسکی یہ تھی مذکورہ خطاب سے دو گھٹنے قبل سپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن سے گھبرا کر قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات تک کے لئے ملتوی کردیا تھا۔اپوزیشن مصر تھی کہ ان سے کئے وعدے کے مطابق وزیر داخلہ ایوان میں کھڑے ہوکر انہیں بتائیں کہ گزشتہ دس دنوں سے وطنِ عزیز میں کیا ہورہا ہے۔میڈیا کو سڑکوں پر نظر آنے والے ہیجان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کا حکم ہے۔میڈیا کی خاموشی خوفناک افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔بہتر یہی ہے کہ وزیر داخلہ ایک تفصیلی بیان کے ذریعے قوم کو حقائق سے آگاہ کریں ۔
وزیر داخلہ ویسے تو بہت دھانسو آدمی ہیں۔ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتے ہیں تو اپنے مخالفین کو طنز کے تیروں سے گھائل کردیتے ہیں۔پیر کی سہ پہر مگر وہ بہت ہی تھکے ہوئے نظر آئے۔نہایت عاجزی سے سپیکر کو آگاہ کیا کہ وہ اتوار کی رات ایک پل بھی سو نہیں سکے۔ انہیں پے در پے اجلاسوں میں شریک ہونا تھا۔پیر کی رات انہیں ایک اور اہم اجلاس کے لئے بھی ’’کہیں‘‘ جانا ہے۔ اسی اجلاس کی تیاری کے لئے انہیں وقت درکار ہے۔اجازت دی جائے کہ وہ ایوان میں بیان بازی کے بجائے وہاں سے رخصت ہوکر مذکورہ اجلاس کی تیاری کریں۔ یہ کہنے کے بعد وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔
ایوان چھوڑنے سے قبل انہوں نے اراکین قومی اسمبلی کو یاد یہ بھی دلایا کہ وزیر اعظم کا سہ پہر چار بجے قوم سے خطاب متوقع ہے۔عوامی نمائندے جس موضوع کے بارے میں ان سے سوالات پوچھنا چاہ رہے ہیں متوقع خطاب اس کے جوابات فراہم کردے گا۔اس کا انتظار کرلیا جائے۔
اراکین قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کے خطاب کے انتظار کا مشورہ دینے کے باوجود انہوں نے اعلان یہ بھی کیا کہ وزیر مذہبی امور -جناب نور الحق قادری صاحب- ان کی جگہ ایک ’’پالیسی بیان‘‘‘ دیں گے۔اپوزیشن اراکین یہ بات سن کر تلملا گئے۔حیران وپریشان۔ حتمی رائے بقول وزیر داخلہ اگر وزیر اعظم کے خطاب کے ذریعے ہی آنا تھی تو نور الحق قادری آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کیا رویہ اختیار کرسکتے تھے۔
نور الحق قادری صاحب مگر طویل خطاب کو مصر تھے۔ان کی طولانی گفتگو کا کلیدی نکتہ مگر یہ عندیہ دے رہا تھا کہ حکومت کے اس تنظیم کے رہ نمائوں سے ’’مذاکرات‘‘ جاری ہیں جسے چند ہی دن قبل ’’کالعدم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ڈھکے چھپے انداز میں انہوں نے اعتراف یہ بھی کیا کہ فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے نکالنا آسان فیصلہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بارے میں حکومتِ پاکستان وزارتِ خارجہ کی جانب سے بہت سوچ بچار کے بعد آئی رائے کے تناظر ہی میں کوئی قدم اٹھاسکتی ہے۔ یہ محض قومی اسمبلی کے بس کی بات نہیں ہے۔ وزیر مذہبی امور کی اشاروں کنایوں سے لدی تقریر نے اپوزیشن کو مزید چراغ پا بناڈالا۔وہ باہم مل کر شور مچانا شروع ہوئے توسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس گھبراکرجمعرات تک مؤخر کردیا۔
پیر کی سہ پہر وزیر اعظم کا خطاب بالآخر ہوگیا۔میری دانست میں اس کا ’’پالیسی بیان‘‘ والا حصہ بنیادی طورپر یہ اصرار کررہا تھا کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنا ایک غیر ذمہ دارانہ فیصلہ ہوگا۔ فرانس اپنے تئیں ایک طاقت ور ملک ہونے کے علاوہ یورپی یونین کے قائدین میں بھی شامل ہے۔اس یونین میں شامل تمام ممالک پاکستانی مصنوعات کی بہت بڑی منڈی ہیں۔فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالا گیا تو یورپی ممالک یکجا ہوکر پا کستان کی بھیجی ایشیاء کی اپنے ہاں درآمدپر پابندی لگادیں گے۔ہماری معیشت ایسی پابندیوں کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔
وزیر اعظم صاحب نے اپنی تقریر میں ہرگز ان ’’مذاکرات‘‘ کی تفصیلات نہیں بتائیں جن کا عندیہ ان کے دو تگڑے وزراء نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران دیا تھا۔فقط یہ پیغام دیا کہ فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے باہر نکالنا ممکن نہیں۔بطور صحافی میں اسے ریاست و حکومت پاکستان کی جانب سے انتہائی سوچ بچار کے بعد ہوا حتمی فیصلہ تصور کرنے کو مجبور تھا۔
منگل کی صبح اُٹھ کر مگر اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو وزیر داخلہ ایک حیران کن اعلان کرتے سنائی دئیے۔چند دن قبل ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی تنظیم کے رہ نمائوں سے حکومتی ٹیم کے مذاکرات بقول ان کے ’’کامیاب‘‘ ہوگئے تھے۔اس کامیابی کے عوض قومی اسمبلی کو فرانسیسی سفیر کو پاکستان سے باہر نکالنے کے موضوع پر ایک قرارداد منظور کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی موبائل فون پر مجھے حکومت کی جانب سے اطلاع یہ بھی ملی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جو جمعرات تک مؤخر ہوا تھا اب ہنگامی طورپر منگل کی سہ پہر بلالیا گیا ہے۔ یہ امر یقینی نظر آرہا ہے کہ مذکورہ اجلاس فقط اس قرارداد کی منظوری کیلئے طلب کیا گیا ہے جس کا وعدہ چند دن قبل ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی تنظیم کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہوا ہے۔
یہ کالم میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پانچ گھنٹے قبل لکھ رہا ہوں۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ جس قرارداد کی مجھے توقع ہے وہ منظوری کے لئے پیش ہوگی یا نہیں۔مذکورہ قرارداد اگر واقعتا پیش ہونا ہے تو اس کا متن کیا ہوگا۔اصل پریشانی میری یہ ہے کہ اگر حال ہی میں ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی تنظیم سے فرانس کے سفیر کو قومی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے پاکستان سے نکالنے کا وعدہ کرلیا گیا ہے تو وزیر اعظم صاحب پیر کی سہ پہر قوم سے خطاب کے دوران اس امکان کو ٹھوس دلائل کے ساتھ کیوں رد کرتے رہے۔جو فیصلہ وہ بطور وزیر اعظم ازخود لینے کو تیار نہیں تھے اس کی جانب بڑھنے کے لئے اب قومی اسمبلی کا کندھا کیوں استعمال کیا جائے گا۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ حال ہی میں ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی تنظیم کی تسلی وتشفی کے لئے فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کی قرارداد اگرقومی اسمبلی میں پیش ہوئی تو وہاں موجود کوئی ایک رکن بھی اس کی مخالفت میں بعینہ وہ دلائل دہرانے سے بھی گھبرائے گا جو وزیر اعظم نے اپنے خطاب کے دوران بیان کئے ہیں۔گزشتہ حکومت کے دوران جب حال ہی میں ’’کالعدم‘‘ ٹھہرائی تنظیم متحرک ہوئی تھی تو عوام میں ابھارے ہیجان کی بدولت نواز شریف صاحب پر لاہور کی ایک جامعہ میں جوتے پھینکے گئے تھے۔خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی اچھالی گئی۔احسن اقبال پر گولی چلی۔
موجودہ اسمبلی میں بیٹھے اراکین اپنے ساتھ ایسے واقعات ہوتے دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ متوقع قرارداد کے متن کو زیر بحث لائے بغیر آنکھ بند کر کے ہاں کہتے ہوئے اپنی جان بچانے کی کوشش کریں گے۔حال ہی میں ’’کالعدم‘‘ قرار پائی ایک تنظیم اپنے حامیوں کی نگاہ میں متوقع منظر کی بدولت عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے مقابلے میں کامیاب وکامران تصور ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر