وقار حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ چند دنوں پاکستان کی گلی محلوں اور سڑکوں کا جو حال ہوا آپ سب کی نظر سے گزرا ہے۔لبیک کی صداؤں کیساتھ پتھراؤں ، لاتیں اور مکے خوب برستے رہے۔ ریڑھی بان سے لیکر اسپتال تک ، سڑک پر چلتے عام شہری سے لیکر موٹروے پر سفر کرنے والا ہر دوسرا شخص لبیک کا نشانہ بنا ۔ دوسری جانب ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی کسر نہ چھوڑی اور چوک یتیم خانہ پر گولیاں چلائی گئیں ۔ انہی چوک چوراہوں سے آپکو ڈیرہ اسماعیل خان تک لیے چلتے ہیں۔
شریفہ بی بی شاید نام بھی یاد نہ ہوگا آپ احباب کو ،صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گاؤں گرہ مٹ کی ایک لڑکی کو برہنہ کر کے بالوں سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹا گیا ۔ شریفہ بی بی بتاتی ہیں میں پانی بھرنے کیلئے گئی تھی پھر اس کے جو کچھ ہوا وہی شریفاں بی بی خود بیان کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں میں پانی بھرکر واپس آ رہی تھی ثنااللہ کے گھر کے پاس پہنچی تو سجاول (مرکزی ملزم) کے گھر سے 10 افراد نکلے سب مجھ پر حملہ آور ہوئے، میرے کپڑے قینچی سے کاٹے گئے پھر مجھے برہنہ کر کے گلی میں گھسیٹا گیا، میری پھوپھی زاد نے مجھے دوپٹہ دیا لیکن وہ بھی چھین لیا گیا، میں بھاگ کر ساتھ والے گھر میں داخل ہوئی ایک کمرے میں گئی، وہاں چار پائی کو پکڑ کر بیٹھ گئی لیکن وہ افراد مجھے وہاں سے بھی پکڑ کر گھیسٹتے ہوئے باہر لیکر آئے اس گھر کا ایک فرد مجھے بچانے آیا تو اسے بھی مارا پیٹا گیا پھر مجھے گلی میں دوڑاتے رہے پھر ایک گھر لیکر گئے اور کمرے میں بند کر دیا کچھ دیر بعد مجھے باہر لاکر گاڑی پر بیٹھا کر پورے شہر میں پھرایا گیا پھر مجھے جنگل میں لیکر گئے اور وہاں پھینک کر سب فرار ہو گئے۔
تشدد کا شکار لڑکی کے بھائیوں نے مقامی پولیس پر کارروائی میں غفلت برتنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے انصاف کی اپیل کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ ایس ایچ او کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اس پر تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور ملزمان کو اگر پھانسی پر بھی چڑھا دیا جائے تو بھی اس لڑکی کی عزت واپس نہیں آسکتی۔
27 اکتوبر 2017 کو یہ واقعہ پیش آیا تھا اور چند روز قبل مقامی سیاسی و سماجی قیادت کی وساطت سے فریقین کے مابین صلح ہو گئی ۔ اسی راضی نامے کی بنیاد پر مقامی عدالت نے 9ملزمان کو تین سال بعد رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق شیخ توقیر اکرم حبیبانی سابق جنرل سیکرٹری ڈیرہ پریس کلب و ایڈیٹر روزنامہ توقیر ڈیرہ اسماعیل خان اور سردار داوڑ خان کنڈی سابق ایم این اے ٹانک وسینئر نائب صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) صوبہ خیبرپختونخوا کے علاوہ دیگر کئی افراد بلکہ ایک پورا جرگہ صلح کرانے والوں میں شامل تھا۔ تمام افراد نے شریفہ بی بی کے والد حاجی حاکم اور ساجد خان سے معافی طلب کی گئی اور ایک بیل کے عوض معافی قبول کر لی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
مرد، ٹھرک، صنف نازک اور معاشرہ ۔۔۔وقار حیدر
ٹک ٹاک ۔۔۔ لیکڈ ویڈیوز کا نیا پلیٹ فارم ۔۔۔وقار حیدر
دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا اب کوئی نہیں کہتا۔۔۔وقار حیدر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر