نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راہ اور راہگزیر || عادل علی

ایک وقت تک ہم سب رنگ یکجہ کیے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پر حد سے تجاوز اور مسلسل تجاوز کر کے طاقتور بن جانے والے لوگ بحرحال ہمیں ہماری کوششوں میں ناکام بنا ہی دیتے ہیں۔

عادل علی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی کی معروف سڑک یونیورسٹی روڈ سے ناطہ کسی بہت اپنے سے بھی زیادہ اپنے سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔
حیرت ہوئی نا؟ درحقیقت اسی سڑک نے زندگی سے چہرہ شناسائی کروائی اور چلنا بھی سکھایا۔
پچھلے کچھ دن سے طبیعت بوجھل تھی۔
ذہن میں کوئی خاکہ بن نہ پا رہا تھا تو آج اٹھ کے فٹ پاتھ کی راہ لی۔
بھاگتی دوڑتی زندگی سے مصروف ترین سڑک کے کنارے جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کے ٹہلنا بہت پرانی عادت ہے۔ سکون ملتا ہے۔
سڑک بہت چوڑی ہے پر پھر بھی تمام چھوٹی بڑی گاڑیوں کے لیے ایک وقت میں ایک ساتھ جگہ کم پڑ ہی جاتی ہے۔
یہ زندگی بھی ایسی ہی ہے۔
زندگی میں بھی سب کچھ ایک ساتھ متوازن رکھنا بلکل ایسے ہی ہے جیسے ریل کی پٹریوں پہ چلنا جو کہ مسلسل اور بہت دیر تک بلکل بھی ممکن نہیں ہے۔
ایک وقت میں ایک ہی تصویر میں سارے رنگ بھرنے کی خواہش انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اور نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ رنگ حدوں سے باہر چھلکنے لگتے ہیں۔
خود اور خودی کو کسی ایک ہاتھ میں سونپ دینا بھی بلکل ایسا ہی ہے۔
ایک وقت تک ہم سب رنگ یکجہ کیے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پر حد سے تجاوز اور مسلسل تجاوز کر کے طاقتور بن جانے والے لوگ بحرحال ہمیں ہماری کوششوں میں ناکام بنا ہی دیتے ہیں۔
ہمارے بھرم دھرے رہ جاتے ہیں اور زندگی کچھ ایسے بکھرتی ہے کہ پھر سنبھالے نہیں سنبھلتی۔
کسی کی زندگی میں منصب اور مقام ملنا بہت بڑی بات ہے پر اس منصب اور مقام کا مان اور بھرم قائم رکھنا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہوتی ہے۔
جو لوگ بنا کسی غرض کے اپنے مقام، مزاج اور معیار کو پس پشت ڈال کے دوسروں کو اپنی زندگی کی کمان سونپتے ہیں اور اگر انہی کے ساتھ مسلسل گراوٹ کا ہی برتاو ہو تو ایک دن پھر انہیں سب یاد آ ہی جاتا ہے۔
معیار بھی مقام بھی اور مزاج بھی !
جب دل دماغ کے تابع ہوجائے تو کھیل ختم سمجھیں۔
دل سے بنائے گئے رشتوں پہ جب دماغ راج کرنے لگے تو قصہ تمام ہوا۔
پھر دماغ دل کے ہاتھوں اٹھائی ہوئی تمام حزیمتوں کا انتقام لینے پہ تل جاتا ہے۔
تکلیف کی ایک حد ہوتی ہے۔
انسان وہ سہہ لے تو تکلیف کا احساس بھی دم توڑ دیتا ہے۔
رشتوں میں نڈر نہیں ہونا چاہیے.
انسان کو کھونے کا خوف ہر وقت رہنا چاہیے پر ہم کسی کا خوف خود ہی ختم کردیں تو پھر ہمارا شکوہ کرنے کا حق بھی نہیں بنتا۔
راہگزیر جو راہ میں آئی چوٹ کا ڈر چھوڑ بیٹھے تو سڑک چاہے پھر کوئی بھی کیوں نہ ہو !
پار ہو ہی جاتی ہے۔۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author