وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت پاکستان ریلوے کے پے رول پر تقریباً اسی ہزار ملازم ہیں جو ٹریک، اسگنلنگ ، چھ سو تینتیس چھوٹے بڑے ریلوے اسٹیشنوں اور تقریباً ڈیڑھ ہزار چھوٹے بڑے پلوں اور پھاٹکوں پر، انجن و کیرج ساز و اوورہالنگ و سلیپر ساز آٹھ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ ان ملازموں کی تنخواہوں اور مالی مراعات پر سالانہ ستائیس ارب صرف ہوتے ہیں۔
البتہ ریٹائرڈ ملازموں کی پنشن کا بل اڑتیس ارب روپے سالانہ ہے۔ یعنی پنشن اور تنخواہ کے بجٹ میں گیارہ ارب روپے کا فرق ہے۔ یہ فرق اس چادر جیسا ہے جو غریب سر پے لے تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں اور پاؤں چھپائے تو سر کو ٹھنڈ لگتی ہے۔
گویا ریلوے کی موجودہ آمدنی یا سرکاری گرانٹ کا نوے فیصد غیرترقیاتی منجمد خرچے میں شمار ہوتا ہے اور صرف دس فیصد آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے بچتا ہے۔ اسی دس روپے میں ٹرینیں بھی رواں رکھنا ہیں ، ڈیزل بھی خریدنا ہے ، پٹڑیوں اور پلوں کی شکست و ریخت پر بھی پیسہ لگنا ہے ، آلات کی مرمت و خریداری بھی ہونی ہے اور کچھ پیسہ جیب میں بھی جانا ہے۔
ریلوے کو دنیا بھر میں ایک ماحول دوست ٹرانسپورٹ ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اس کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً اس سے بڑی ماحول دوستی کیا ہو گی کہ بجلی یا ڈیزل کا ایک لوکوموٹیو اگر ایک سو مال بردار یا بیس مسافر بوگیوں کو کھینچے اور ایک مسافر ٹرین میں اوسطاً پندرہ سو سے دو ہزار مسافر سفر کریں اور ایک مال بردار ٹرین کم ازکم ایک ہزار ٹن وزن کھینچے تو کتنا ایندھن صرف ہو گا۔ ۔
اب ذرا تصور کریں کہ انھی ڈیڑھ سے دو ہزار مسافروں کے لیے کتنی بسیں یا ویگنیں اور وہی ایک ہزار ٹن وزن ڈھونے کے لیے کتنے مال بردار ٹرک درکار ہوں گے جب کہ ایک ٹرک میں اوسطاً آٹھ سے بارہ ٹن مال ڈھویا جا سکتا ہے۔ اور ٹرکوں ، بسوں اور ویگنوں کا یہ آہنی لشکر ایک ریلوے لوکو موٹیو کے مقابلے میں فی کس کتنا ایندھن کھا کے کتنا دھواں اور گیسیں اگلے گا ؟
اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ مال بردار ٹرکوں کی تعداد کم ازکم تین لاکھ ہے ( کہیں ایک جگہ اس کا مربوط ریکارڈ دستیاب نہیں )۔ اب ان ٹرکوں کے پھیلائے گئے مجموعی دھوئیں ، ایندھن اور سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات کو ایک انجن کے ذریعے کھینچی جانے والی ٹرین کے اخراجات سے سو پر تقسیم کر دیں۔ تاکہ آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکے کہ کون سی ٹرانسپورٹ کتنی سستی اور ماحول دوست ہے۔ پاکستان کا ٹرانسپورٹ سیکٹر درآمدی و مقامی انرجی کے پینتیس فیصد وسائل ( پٹرول ، ڈیزل ، گیس ) نگل جاتا ہے۔ اس میں ریلوے کا صرف محض پانچ فیصد بتایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے دو ہزار اٹھارہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سڑک کے حادثات میں سالانہ تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ اگرچہ حادثات کے اعتبار سے پاکستان ریلوے کا سیفٹی ریکارڈ ہرگز قابلِ اطمینان نہیں۔ لیکن اگر روڈ ٹرانسپورٹ اور ریلوے ٹرانسپورٹ کے حادثات کی شرح نکالی جائے تو ریلوے آج کی گئی گذری حالت میں بھی روڈ ٹرانسپورٹ سے زیادہ محفوظ ہے۔ ٹرین حادثات میں اوسطاً سالانہ پانچ سو کے لگ بھگ اموات ہوتی ہیں۔
جب انیس سو تہتر چوہتر میں ریلوے نے پہلی بار منافع کے بجائے خسارہ دکھانا شروع کیا تو کسی بھی ذمے دار حکومت کو کھٹک جانا چاہیے تھا کہ اس کماؤ پوت کو آخر کیا مسئلہ یا مرض لاحق ہو رہا ہے۔ اس کے بجائے ترقی کا نیا فلسفہ یہ طے پایا کہ ریل نیٹ ورک کو سنبھالنے اور توسیع دینے کے بجائے شاہراہوں کا جال بچھایا جائے تاکہ ملک کا ہرکونا کھدرا ایک دوسرے سے جڑ سکیں اور ٹرانسپورٹ کے سرکاری بجٹ کا بار رفتہ رفتہ نجی شعبے کو منتقل کیا جائے۔ لہذا نجی شعبے کو ترجیحاتی ترغیبات و مراعات دی جائیں۔
یقینا اس حکمت عملی میں کوئی قباحت نہ تھی۔ پر یہی کام ریلوے کو نظرانداز کیے بغیر بھی تو ممکن تھا۔ جہاں جہاں ریلوے نیٹ ورک کی رسائی نہیں تھی وہاں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جاتی اور جہاں تک ریلوے نیٹ ورک تھا وہاں باربرداری کا بڑھتا ہوا کام سنبھالنے کے لیے ریلوے نیٹ ورک کو مزید مضبوط کیا جاتا۔ تاکہ ریل خود بھی رواں رہتی اور ترقی بھی کرتی رہتی۔
مگر ہوا یوں کہ شاہراہوں کو ریل کی پٹڑی پر سے گذارنے کے سبب انیس سو ستر تک ریلوے کے ذریعے ٹرانسپورٹ ہونے والا ستر فیصد کارگو نوے کی دہائی تک سکڑ کے چودہ فیصد رہ گیا اور آج بمشکل چار فیصد کارگو ہی ریل کے ذریعے بھیجا اور منگوایا جاتا ہے۔ تقسیم کے وقت پاکستان کو طرح طرح کا مال ڈھونے کے لیے مختلف طرز کی چالیس ہزار ریلوے کارگو ویگنز ترکے میں ملی تھیں۔ اب ان کی تعداد سترہ ہزار سے بھی کم ہے مگر وہ بھی کارگو کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی پچانوے فیصد درآمد و برآمد کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کے ذریعے ہوتی ہیں۔ ریلوے کا کلیدی آپریشن بھی کراچی تا پشاور مین لائن پر ہے۔ جب کہ روڈ ٹرانسپورٹ کا پینسٹھ فیصد کاروبار بھی مین لائن کے متوازی کراچی تا طورخم سترہ سو ساٹھ کلومیٹر طویل روٹ ( بذریعہ نیشنل اور انڈس ہائی وے ) پر ہے۔ راستے میں دائیں بائیں چودہ خشک گودیاں ہیں۔
ستر کی دہائی تک بندرگاہ سے بالائی پاکستان تک جملہ خشک مال اور پٹرولیم مصنوعات ، کوئلہ ، صنعتی پیداوار اور خشک فصلوں ( گندم ، کپاس ، دالیں وغیرہ ) کی ترسیل ریلوے کے ذریعے ہوتی تھی۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا دار و مدار بھی ریلوے پر تھا۔ اب متذکرہ بالا چھیانوے فیصد کارگو ریلوے ویگن سے اتار کر ٹرک پر چڑھا دیا گیا ہے۔
یوں بھی تو ہو سکتا تھا کہ بڑھتی ہوئی تجارتی ضروریات و پیداوار کے مد نظر باقی دنیا کی طرح ریلوے کارگو سروس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا جاتا۔ کارگو پہلی منزل سے آخری منزل تک پہنچانے کے لیے ریل ٹرک فیڈر سروس متعارف کروائی جاتی۔ آج بھی تیس تا چالیس فیصد سبزیاں اور پھل کھیت سے منڈی پہنچنے کے سفر میں خراب یا باسی ہو جاتے ہیںکیونکہ ریلوے ہو کہ ٹرک کمپنیاں۔ دونوں کے پاس درکار تعداد میں ایئرکنڈیشنڈ ٹرک یا کنٹینرز نہیں ہیں۔
دنیا بھر میں ریل ہو کہ روڈ ٹرانسپورٹ۔ مال کی کھلے میں ترسیل کے بجائے ایسے بند کنٹینرز کی سروس تیزی سے عام ہو رہی ہے جنھیں آسانی سے ٹرالرز یا ریلوے ویگنز پر اتارا چڑھایا جا سکے۔
اگر طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ جلد خراب ہونے والی زرعی اجناس کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کنٹینرز ، کولڈ اسٹوریج سروس اور عام کارگو کے لیے کنٹینر ویگنز کی خریداری یا اندرونِ ملک تیاری پر توجہ دی جاتی ، کمپیوٹرائزڈ ٹریکنگ سسٹم نصب کیا جاتا ، سامان کی تیزی سے ترسیل کے لیے بھارت کی طرح مین لائن کے متوازی ہائی اسپیڈ وقف ریلوے کارگو کاریڈور بنائے جاتے تو کارگو کی آمدنی سے ریلوے خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر کب کا خود توسیعی کی راہ پر چل پڑتا اور قومی خزانے پر بوجھ نہ بنتا۔
جب نوے کی دہائی میں نواز شریف کی پہلی حکومت نے پنڈی لاہور موٹر وے کا عظیم الشان پروگرام پچیس ارب روپے کے صرفے سے شروع کیا تو ریلوے کی ایک فیزیبلٹی رپورٹ بھی عزت مآب کی خدمت میں پیش کی گئی۔ اس کے مطابق صرف دس ارب روپے سے ریلوے کا ٹریکنگ اور سگنلنگ نظام جدید بنا کر ریل اس قابل ہو سکتی کہ موٹر وے سے زیادہ کما کر دے۔ مگر پھر پاکستان اکیسویں صدی میں موٹروے کے راستے کیسے داخل ہوتا۔ اور لوگوں کو کیسے دکھایا جاتا کہ حکومت قلیل مدت میں کتنے عظیم الشان منصوبے بنانے پر قادر ہے۔
دو ہزار پانچ سے دس کے درمیان ہائی ویز کی تعمیرات پر ایک سو پچپن ارب روپے صرف کیے گئے جب کہ ریلوے کو اسی پنج سالہ مدت میں پینتالیس ارب روپے پر ٹرخایا گیا۔ مشرف دور میں شاہراہوں کے بجٹ میں اضافے کا ایک بڑا سبب نائن الیون کے بعد افغانستان کے لیے نیٹو سپلائی سے ہونے والی متوقع آمدنی تھی۔ پھر یہ ذریعہ آمدن بھی رفتہ رفتہ نیٹوافواج کی واپسی کے سبب خشک ہونے لگا۔
تو کیا ریلوے کی قیمت پر روڈ کارگو ٹرانسپورٹ کے فروغ سے قومی خزانے کو بھی کچھ فائدہ ہو رہا ہے ؟ ریل کارگو بزنس کا تو جیسا کیسا دستاویزی ریکارڈ ہوتا ہے۔ مگر پاکستان کا پچاسی فیصد ٹرکنگ بزنس کیش پر چلتا ہے۔ کیش کی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لانا کس قدر مشکل ہے ؟ یہ جاننا راکٹ سائنس نہیں۔
اگلے مضمون میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ کارگو کاروبار جو کہ ریلوے کی ریڑھ کی ہڈی تھا۔ یہ ہڈی خود بخود مفلوج ہوتی چلی گئی یا پھر اسے مار مار کر توڑا گیا۔ ( قصہ جاری ہے )
بشکریہ ایکسپریس نیوز
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر