گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ادیبوں اور شاعروں نے بڑے نمایاں کارنامے سر انجام دئے اس کے ساتھ صحافی بھی اپنا کردار بہت عمدگی سے ادا کر رھے ہیں۔ میں خود غم روزگار کے سلسلے میں ڈیرہ سے باھر رہا اور جب واپس لوٹا تو ڈیرہ شھر کے اوپر دھشت گردی کا سونامی گزر چکا تھا ۔ شروع میں مجھے یہ شھر اجڑا اجڑا سا لگتا تھا جیسے میں 1857ء کے بعد دلی میں رہ رہا ہوں۔۔ فضا بڑی سہمی سہمی اور ڈری ڈری اور ہر طرف خوف کیونکہ دھشت گردی کا طوفان کم تو ہو گیا مگر ابھی تھما نہیں تھا۔ سکولوں کی دیواروں پر خاردار تاریں اور دروازوں پر بندوق بردار محافظ کھڑے ہوتے ہیں۔۔ مگر پھر ایک عجیب منظر سامنے آیا کہ یہاں کے ادیب اور شاعر کئی کئی کتابیں تصنیف کر رہے ہیں ۔۔شاعری کے مجموعے چھپ رھے ہیں۔۔اب میں سوچنے لگا یہ ادیب آخر پنپ کیسے رھے ہیں؟ اس قہر کی فضا میں ۔۔اس زھر کی ھوا میں تو زندہ رہنا ہی بڑا کمال ھے تو ادب و شاعری کیسے تخلیق ہوئی۔۔ سارے شھر کو چھان مارا ادیبوں اور شاعروں کے بیٹھنے کی کوئی مناسب جگہ بھی نہیں دیکھی۔۔ٹاون ہال میں لوگ بیٹھتے تھے وہ خواتین کا پارک بن چکا۔۔ٹاون ہال کی لائیبریری تھی جس میں نایاب کتابیں تھیں وہ لائیبریری ختم ھو چکی۔ وہ کتابیں دیواروں میں ایسے چن دی گئیں جیسے انارکلی کو دیوار میں چن دیا گیا۔۔۔ سوچتا ہوں ہماری میونسپل لائیبریری کی کتابوں کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل کئی؟ ۔۔۔ پھر۔ میں نے کہا گلزار تیرا کیا کام ۔۔حکمران جانیں اور ان کا کام۔۔۔ وہ چٹی سوچیں یا کالی ۔۔۔ وہی صحیح ہوتا ھے تم مرزاغالب کی طرح اپنی بک بک مت کیا کرو۔۔۔
ادھر ہمارے اہل قلم نے غضب ڈھا رکھا ھے۔ ابھی مخمور قلندری کی شاعری کی نئ کتاب ترِش پچھلے ہفتے ملی۔ڈاکٹر شاھد مسعود خٹک کی جہان حیرت حال ہی میں چھپی۔ ثناء اللہ شمیم ۔۔ غلام عباس سیال۔ منیر فردوس ۔ خورشید ربانی۔طاہر شیرازی۔ عبداللہ یزدانی۔انجینیر جاوید اقبال انجم۔ نیر سرحدی۔۔موسی کلیم دوتانی۔خوشحال ناظر۔الطاف شاہ۔عطا الاکبر۔ڈاکٹر اخلاق۔ سید ارشاد حسین شاہ جیسے لوگوں نے کئ کتابیں لکھ ڈالیں۔۔روبینہ قمر۔عذرا بخاری۔نبیلہ خان۔زیست خان اور بہت سی خواتین کتابیں لکھ چکی ہیں۔۔۔۔حفیظ گیلانی تو مصنف۔مورخ۔شاعر اور بہت سے قلمکاروں کا مرشد ھے ۔یہ سب لوگ کیسے ادب تخلیق کر رہے ہیں؟۔۔ یہ کہاں بیٹھتے اور تبادلہ خیال کرتے ہیں ؟ نہ ڈیرہ میں کوئی ٹی ہاوس نہ ثقافتی مرکز ۔۔۔خیر میرا دماغ ہل گیا ۔اس ملک میں امن خراب کرنے والوں کے مزے اور محبت کا پیغام پھیلانے والے در بدر۔۔۔پھر میں نے ایسے محسنوں کی لسٹ بنائی جو علم و ادب کے فروغ میں یونیورسٹی کا کردار ادا کر رھے ہیں۔۔اس فہرست میں ٹاپ پر عرفان مغل ہیں جس نے اعتدال کا دفتر اور اخبار ادیبوں ۔شاعروں۔صحافیوں کے لیۓ اوپن رکھا ہوا ھے اور جو بھی یہاں بیٹھتا ھے میٹنگ کرتا ھے اسے اجازت ہے۔اس کے ساتھ ایک دفتر جس کے روح رواں محمد زبیر بلوچ ہیں ۔یہ دفتر بھی صحافیوں ۔ادیبوں کا ٹی ہاوس ھے۔ یونائٹڈ بک سنٹر کے عبدالطیف نے ادیبوں کے لئیے علیحدہ جگہ مختص کر رکھی ھے اور سارا دن وہاں ایک جمگھٹا رہتا ھے۔۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہال بھی ادیبوں کو حاصل ھے ۔مفتی محمود کالج کا کانفرنس ہال بھی ادیبوں شاعروں کو دستیاب ھے۔ ماوا ووکیشنل سنٹر مریالی موڑ پر بھی ادیبوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔
علم دوست لوگوں اور محسنوں کی یہ لسٹ نامکمل ھے اور بھی یہاں دل والے ہونگے جو علم و ادب کی دُلھنیا سجا کے بیٹھے ہونگے ۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔اس میں کہیں نظر نہیں آتی تو وہ ھے ہماری حکومت۔۔۔ یار ہمیں اباسین آرٹس کونسل جتنی بلڈنگ نہیں چاھیے مگر کوئی ہال !!۔۔۔کوئی بیٹھنے کی جگہ!!۔۔۔۔۔ میونسپل لائیبریری بھی بند کر دی۔۔ غالب نے شاید ہمارے حالات پر کہا تھا۔۔۔؎؎؎؎
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی ۔۔
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ھے۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر