ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھند کا راج قائم ہوجائے تو حد نگاہ بسا اوقات صفر بھی ہوجاتی ہے ۔ایسی حالت میں امور زندگی رک جاتے ہیں ۔راہ چلتے مسافروں کو روک دیا جاتا ہے کہ کہیں کسی حادثے کا شکار نا ہوجائیں اور جنہوں نے سفر پر نکلنا ہو ان کے لیے راستے بند کردئیے جاتے ہیں۔دھند کے راج میں کچھ دیر کو سہی مگر سورج کی حیثیت بھی بے معنی ہوجاتی ہے جدید سائنس کے پاس بھی اس کا کوئی حل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ دھند خودبخود ختم ہوجائے۔کوئی حیلہ کوئی کوشش مددگار ثابت نہیں ہوتی۔حرف آخر یہ کہ زندگی معمول پر لانے کے لیے دھند کے خاتمے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔
بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ گزشتہ سات دھائیوں سے بطور قوم دھند میں سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ملک پر جب بھی غیر جمہوری ڈاکٹرائن کی دھند کا راج قائم ہوا تو حد نگاہ صفر ہوگئی اورمعاشی ، سماجی ،ثقافتی ترقی کا سفر رک گیا۔اور جب بھی عوامی رائے پر مشتمل ہوا چلی تو دھند کے بادل چھٹنے لگے اور رکا ہوا سفر پھر سے شروع ہوگیا۔
بحیثیت قوم ہم دھند کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔کبھی چلتے ہیں تو کبھی رکتے ہیں اور کبھی رک رک کر چلنا شروع کردیتے ہیں۔کون سا شعبہ زندگی ایسا ہے جس پر دھند کا راج نہیں ہے۔قومی معاشی پالیسیوں سے لے کر روزمرہ کے معاشی معاملات تک ہر شئے دھند کی لپیٹ میں ہے ۔اتنی گہری دھند کہ سات دھائیوں سے سفر جاری ہے مگر عام انسان کی معاشی خوشحالی کی منزل کا راستہ نہیں مل رہا۔سماجی ترقی کی راہ بھی نہیں مل رہی۔
اب تو عالم یہ ہے کہ حد نگاہ صفر ہوچکی ہے۔سفر رک گیا ہے سب کچھ موجود ہے اور سامنے ہے مگر نظر نہیں آرہا۔ایسی حالت میں شاہ کا فرمان ہے کہ ترقی کا سفر جاری ہے معاشی اعشاریے بہتر ہورہے ہیں معیشت سنبھل رہی ہے ۔جبکہ عام آدمی کی دہائی ہے کہ پیٹ بھرنے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔قومی ترقی کیا ہوگی ایسی دھند میں تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ، اب توانفرادی سفر بھی رک گیا ہے
معیشت کا رونا اپنی جگہ سیاسی نظام بھی تو ایک مدت سے دھند کی لپیٹ میں ہے ۔ڈسکہ کی دھند حقیقت نہیں بلکہ دلیل ہے اس حقیقت کی جو اب تک ہم سے چھپائی گئی ۔ اور یہی حقیقت ہے کہ ہر بار انتخابات دھند کی نظر ہوئے ۔ڈسکہ کے پریزائیڈنگ آفیسرز کا دھند میں بھٹکنا پہلی بار نہیں ہے ۔پورا انتخابی عمل ہی ایک مدت سے راہ بھٹک چکا ہے ۔جب تک زاتی پسند نا پسند کے دھند کے بادل نہیں چھٹیں گے تب تک حالات ٹھیک نہیں ہونے اور نا ہی کوئی تبدیلی آسکتی ہے
ویسے بھی تبدیلی کا نعرہ ضمنی انتخابات کی پے در پے شکست سے اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔بدترین کارکردگی سے تبدیلی کے سفر کو ریورس گیئر لگ چکا ہے۔واضح شکست اور متنازعہ فتوحات نے حکومت پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔تبدیلی کا بیانیہ پٹ رہا ہے ۔2018 کے عام انتخابات سے چھائی ہوئی دھند کچھ دیر کو ہلکی کیا ہوئی ہر چیز کی حقیقت واضح طورپر نظر آنے لگ گئی ہے۔
حالات یہی رہے تو سینٹ انتخابات کے نتائج بھی مختلف نہیں ہوں گے ۔یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے کہ حکمران جماعت کو اسلام آباد کی ایک نشست پر وقت پڑ گیا ہے اور اگر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ ہار جاتے ہیں تو بلا شک وشبہ اپوزیشن وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کہہ سکتی ہے اور اس مطالبے کے بعد کیا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی کی جیت حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے
بالفرض حکومت اگر سینٹ الیکشن میں سرخرو ہوبھی جاتی ہے تو بھی جون میں پیش ہونے والا بجٹ حکومت کے مستقبل کا تعین کرئے گا۔شنید ہے کہ آنے والے بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار کے علاوہ مختلف اشیا پر سب سڈی کے خاتمے سمیت مختلف قومی اداروں کی نجکاری کی پالیسی حکومتی اولین ترجیحات میں شامل ہیں ۔مطلب یہ کہ ہرآنے والا دن حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرئے گا۔عوامی دباو بڑھتا جائے گا اور اپوزیشن اس صورتحال کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔
اس سب کے باوجود بنیادی سوال اب بھی یہی بنتا ہے کہ حکومت برسراقتدار رہ جائے یا پھر نئے انتخابات ہوں اور نئی حکومت تشکیل پائے کیا عام آدمی کے حالات بہتر ہو جائیں گے ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فی الوقت برسراقتدار اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے پاس جواب نہیں ہے ۔115 ارب ڈالر کے قرضوں میں پھنسی ہوئی ملکی معیشت کے پاس عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے کیا ہے۔
اگر حکومت اور اپوزیشن عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوتی ہیں تو پھر یہ سب ہنگامہ کس بات کا ہے۔اس قدر شور کیوں ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ مل بیٹھ کر عام آدمی کی بہتری کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے۔بے روزگاروں کے لیئے روزگار کے مواقع پیدا کرے اور بے قابو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرئے۔
اب بھی وقت ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور مقتدر حلقے مل بیٹھ کر عوام کی بہتری کے لیے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیں۔عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکلنے کی تدبیر کریں۔ایک مدت سے چھائی ہوئی مایوسی کی دھند کے خاتمہ کے لیے امید کی کوئی شمع روشن کریں تاکہ یہ دھند کچھ کم ہو کوئی راستہ نظر دکھائی دے، کوئی امید بندھے اور آگے کا سفر شروع ہوسکے۔کوئی کب تک ایک ہی جگہ رک سکتا ہے ۔ضروری ہے کہ راستہ تلاش کریں اگر مایوسی میں گھری عوام نے فیصلے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے خود سے کوئی راستہ تلاش کرکے سفر شروع کردیا تو پھر خاطر جمع رکھیں وہ ڈیرے بھی اپنی پسند کی منزل پر ڈالے گی۔ایک ایسی منزل جہاں عوام کے لیے تو بہتر مستقبل ہوگا مگر اشرافیہ کے لیے شائد وہاں کوئی مستقبل نا ہو۔
برائے رابطہ03334429707
براے وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر