ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وہ بادلوں کا مکین ہے، اسے وہیں رہنے دو”
ساٹالن جیسے ڈکٹیٹر کے منہ سے یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے لئے نکلے جسے 1958 میں لٹریچر میں ملنے والا نوبل انعام وصول کرنے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔
بیسیوں صدی کا وہ سحر انگیز ادیب اور شاعر جس کی زندگی درد، جنون، عشق، ہمدردی اور جذبے کے رنگوں سے لکھی گئی تھی۔
سٹالن جیسا ڈکٹیٹر بھی بورس پاسٹرناک کی شاعری کی سحر انگیزی سے نہ بچ سکا اور خفیہ پولیس کو ہدایت کی گئی کہ بورس کی طرف سے دانستہ طور پہ آنکھ بند رکھی جائے اور اس کا مقدر کوئی تاریک قبر جیسی جان لیوا حشرات سے بھری جیل نہیں ہونا چاہئے۔
“ڈاکٹر ژواگو” جیسے شہرہ آفاق ناول کے خالق، بورس پاسٹرناک کی آج سالگرہ ہے۔
“ادب ایک ایسا آرٹ ہے جو عام لوگوں کی غیر معمولی باتیں دریافت کر کے سادہ الفاظ کو غیر معمولی بنا دیتا ہے”
” زندگی کس قدر حسین ہے لیکن اس سے رہ رہ کے ٹیسیں کیوں اٹھتی ہیں؟”
“ کسی اور کی زندگی میں تمہاری جھلک، تمہاری روح اور تمہارا اصل ہے۔ دوسروں میں نظر آتا تمہارا سایہ، تمہارا وہ روپ ہے جسے تم فخر سے دیکھتے ہو۔ تو پھر کیا؟ تم نے دوسروں کو متاثر کیا ہے اور کرو گے۔ اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر کل تم اسے اپنی یادوں کا حصہ کہو؟”
” مجھے وہ لوگ حیران کرتے ہیں جن کے قدم کبھی نہ لڑکھڑائے ہو یا وہ کبھی زمیں بوس نہ ہوئے ہوں۔ انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ زندگی کی حقیقت تو ان پہ کبھی کھلی ہی نہیں”
“زندگی کا غیر معمولی لمحہ جب تمہارے در پہ دستک دیتا ہے تو اس کی آواز تمہارے دل کی دھڑکن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر تم اس پہ کان نہیں دھرو گے، یہ گزر جائے گا”
“زندگی کو ترتیب سے سنوارنا! یہ وہی کہہ سکتے ہیں جس نے زندگی کو شاید جانا ہی نہ ہو، وہ کیسے سانس لیتی ہے اور کیسے دھڑکتی ہے۔ وہ زندگی کو مٹی کا ایسا ڈھیر سمجھتے ہیں جس سے وہ کچھ بھی تعمیر کر لیں۔ لیکن زندگی تو کسی سانچے کا نام نہیں۔ زندگی تو جہد مسلسل ہے، یہ ہمہ وقت بدلاؤ چاہتی ہے، سوال پوچھتی ہے، جواب تلاش کرنے کو کہتی ہے۔ یہ میری اور تمہاری خواہشات و نظریات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی اڑان خود بھرتی ہے”
یوری اور لارا کی داستان روس کے انقلاب کے پس منظر میں جس طرح سے بورس پاسٹرناک نے لکھی وہ قاری کو ایسے ٹرانس میں لے لیتی ہے جو لارا کی بے بسی اور یوری کی بدقسمتی کی بنیاد پہ بنا گیا ہے۔
جنگ کی بدصورتی، بھوک کا عفریت، امراء کی عیش کوشی اور خود غرضی، ایک شاعر کے خون جگر سے لکھی نظمیں، انقلابیوں کی بالائی طبقے سے نفرت، انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی، لوگوں کی بے چارگی، کمیونزم کے بطن سے جنم لینے والی سنگدل ڈکٹیٹر شپ، محبت کرنے والوں کی جدائی، لیبر کیمپس میں بیگار کاٹنے والوں کی لاچاری، یہ ہے ڈاکٹر ژواگو!
ڈاکٹر ژواگو ایک ایسا شاہکار ناول جس کو مکمل ہونے میں چھیالیس برس لگے ( 1910-1956)، اور اس کی اشاعت روس میں ممکن نہیں تھی۔ بورس نے یوری کی زبان سے سٹالن ازم کو رد کر دیا تھا اس لئے اس ناول پہ اینٹی روس ہونے کا الزام بھی تھا۔
بورس کی قسمت نے اس وقت پلٹا کھایا جب ایک اطالوی صحافی، ایک پبلشر کے لئے کچھ مواد حاصل کرنے روس آیا۔ ڈاکٹر ژواگو کے متعلق سن گن ہوتے ہی صحافی نے پاسٹرناک سے رابطہ کیا اور ناول اٹلی سے چھاپنے کی پیش کش کی۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جس نے پاسٹر ناک کو پہلےحواس باختہ کیا اور پھر قہقہے لگاتے ہوئے مسودہ صحافی کے حوالے کرتے ہوئے کہا
“لگتا ہے تم مجھے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتے ہو”
پاسٹرناک فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پہ ڈاکٹر ژواگو پبلش کروائے گا۔ روسی حکومت نے ناول نہ چھاپنے کے لئے اطالوی پبلشر کے پاس بہت سے وفد بھیجے مگر پبلشر نے انکار کر دیا۔ حکومت نے پاسٹر ناک کو مسودہ واپس لینے کے لئے مجبور کیا لیکن پاسٹرناک نے ایک نہ سنی۔
حکومت کی تمامتر مخالفت کے بعد چھپنے والے ناول نے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ دنیا کے سامنے انقلاب کی حقیقت کھل چکی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ناول کے کردار یوری اور لارا، پاسٹرناک اور اولگا کی محبت کی کہانی سناتے ہیں۔
اولگا، ایک بیوہ خاتون جس کی محبت میں پاسٹرناک گرفتار ہوا اور مرتے دم تک اس تعلق کو نبھایا۔ اولگا جسے اس رفاقت کو نبھانے میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں، ایک جگہ لکھتی ہیں،
“وہ ہر روز مجھے فون کرتا اور میں مارے مسرت کے ہکلانے لگتی۔ ہر شام کام کے بعد وہ میرے دفتر آتا اور ہم گلیوں اور سڑکوں پہ بلا تھکان باتیں کرتے چلتے رہتے “
پاسٹرناک سے محبت کرنا آسان کام نہیں تھا۔ انیس سو انچاس میں اولگا کو کے جی بی نے گرفتار کر لیا۔ اسے جیل لے جا کر پاسٹرناک کے متعلق پوچھ گچھ کی گئی لیکن اس نے کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا۔ حاملہ اولگا کا اسقاط جیل میں ہی ہوا اور اسے کئی برس کی قید کاٹنا پڑی۔
اولگا کی گرفتاری کے بعد پاسٹرناک کا زار وقطار روتے ہوئے کہنا تھا کہ “سب ختم ہو گیا۔ انہوں سے اسے مجھ سے چھین لیا۔ اب میں اسے کبھی نہیں دیکھ پاوں گا۔ انہوں نے مجھے پاتال میں پھینک دیا ہے “
پاسٹرناک نے اولگا کی گرفتاری کے بعد سٹالن کو ہمیشہ قاتل کہہ کے پکارا۔ انیس سو چون میں سٹالن کی موت کے بعد اولگا کو جیل سے رہائی مل گئی۔
انیس سو ساٹھ میں پاسٹرناک کی وفات کے بعد اولگا اور اس کی بیٹی کو کے جی بی نے دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اب کے الزام یہ تھا کہ ڈاکٹر ژواگو کی اشاعت میں اولگا پاسٹرناک کی دست راست بنی تھی۔ اس دفعہ اولگا کو پھر چار برس کی جیل کاٹنا پڑی۔
انیس سو چھیانوے میں اولگا کی موت پہ لکھا گیا
” اولگا کے بغیر پاسٹرناک، پاسٹرناک نہیں تھا۔ وہی تھی جس کی محبت نے ڈاکٹر ژواگو میں شاعر یوری کا کردار پاسٹرناک سے تخلیق کروایا”
ناول میں یوری اور لارا کی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت اور جدائی پاسٹرناک کے اس درد کو ظاہر کرتی ہے جب اولگا اس سے جدا ہو کے جیل چلی گئی تھی۔ ناول میں یوری لارا سے پیدا ہونے والے بچے کو کبھی دیکھ نہیں پاتا، اصل زندگی میں میں بھی قید اولگا کا بچہ چھین لیتی ہے۔
اولگا اور پاسٹرناک یا یوری اور لارا، دو ایسے مزاج آشنا جنہوں نے زندگی اکھٹی گزارنی چاہی لیکن زندگی اتنی آسانی سے کب مانا کرتی ہے۔
صاحبو! ڈاکٹر ژواگو وہ شاہکار ہے جسے نہ پڑھنے سے جی بھرتا ہے اور نہ ہی فلم دیکھنے سے۔
بورس پاسٹرناک، سالگرہ مبارک!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر