نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر نے صحیح کہا تھا۔ ’’دل دریا‘‘ سمندروں سے بھی گہرے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی علت نے مگر ہمیں عقل کل بنادیا ہے۔ حقائق کا کھوج لگانے کی بجائے گھر بیٹھے ہی کوئی مفروضہ گھڑ لیتے ہیں۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ہماری ایجاد کردہ کہانیوں کے بے پناہ خریدار بھی مل جاتے ہیں۔
آج سے کچھ دن قبل اس کالم میں یہ عندیہ دیا تھا کہ ’’حیف ہے اس قو م پہ‘‘ والی دہائی مچاتے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کئے یوسف رضا گیلانی کو سیاسی عمل میں گج وج کے ساتھ واپس لانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ وہ اگرچہ آمادہ نہیں ہو رہے۔ ’’کچے‘‘ پر پائوں رکھنے کے وہ عادی نہیں۔ خاندانی سیاست دان ہیں۔ ایسے افراد خواہ مخواہ کی مشقت کو تیار نہیں ہوتے۔ ان کی جانب سے برتی ’’احتیاط‘‘ کی وجوہات بخوبی جانتے ہوئے بھی لیکن مجھے اعتماد تھا کہ جو گیم ان کے لئے سوچی گئی ہے وہ انگریزی زبان میں بیان کردہ Doable ہے۔ ہار یا جیت ایسی گیم میں کلیدی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی۔ اصل مقصد اُکتا دینے کی حد تک ایک ہی مقام پر رُکی ہوئی سیاست میں رونق لگانا ہوتا ہے۔
جوہڑ کے پانی کی طرح رُکی سیاست میں کچھ ارتعاش پیدا کرنے کا اصل خیال پیپلز پارٹی کے عام حالات میں ’’نیویں نیویں‘‘ رہنے والے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے ذہن میں آیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری ان کی تجاویز سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی ویسے بھی پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو مشورہ دے رہی تھی کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کے ذریعے عمران خان صاحب پر دبائو بڑھانے کے لئے ابھی وقت مناسب نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی جائے۔ یوسف رضا گیلانی کی قومی اسمبلی سے سینٹ کے لئے منتخب ہونے کی کاوش تحریک عدم اعتماد کو باقاعدہ پیش کرنے سے قبل ہدف کے حصول کی اہم ترین ریہرسل ہوسکتی ہے۔
مجھ تک یہ خبر پہنچی تو اسے ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنانے سے گریز کیا۔ یہ جاننے کی کوشش شروع کردی کہ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ والے ’’کیا لکھیں گے جواب میں‘‘۔ یہ جماعت قومی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد کی بدولت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اصولی طور پر قومی اسمبلی سے انتخاب کے لئے سینٹ کا حزب اختلاف کی صفوں سے ’’’متفقہ امیدوار‘‘ اس جماعت کی جانب سے آنا تھا۔ بالآخر خبر مل گئی کہ لندن میں مقیم نواز شریف صاحب نے بہت خلوص سے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا پیغام بھجوادیا ہے۔ اس خبر کی مزید تصدیق کے بعد ہی یوسف رضا گیلانی کی ’’سینٹ میں انٹری‘‘ والا کالم لکھا تھا۔ نواز شریف کی حمایت کو میں نے ’’ہاتھی کے پائوں میں …‘‘ والا عنصر شمار کیا اور یوسف رضا گیلانی کی بطور سینٹ امیدوار نامزدگی کا انتظار شروع کردیا۔ اس ضمن میں میرا اعتماد احمقانہ بھی شمار کیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ تیرہ برسوں سے میری گیلانی صاحب سے سر راہ بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ ان سے ٹیلی فون پربھی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
عمران حکومت کو مگر ’’ہر بات کی خبر رکھنے والے‘‘ کئی اداروں کی بھرپور معاونت میسر ہے۔ ان کی بدولت وہ یہ طے کر بیٹھی کہ گیلانی صاحب سینٹ کے لئے سندھ سے منتخب ہونے کی کوشش کریں گے۔ اپنے ’’ذرائع‘‘ پر اعتماد کرتے ہوئے ملتان کی مقامی سیاست کے حوالے سے گیلانی صاحب کے تاریخی ’’شریک‘‘ جسے اُردو میں ’’حریف‘‘ کہتے ہیں -مخدوم شاہ محمود قریشی- قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں نہایت رعونت سے گیلانی صاحب کی ’’سندھ سے‘‘ سینٹ میں ’’گھس‘‘‘ آنے کی ’’خواہش‘‘ کا مذاق اُڑاتے رہے۔ ان کے اعتماد نے مجھے حیران کے بجائے واقعتا پریشان کیا۔ ڈیروں اور دھڑوں کی سیاست کرنے والے اپنے ’’حریفوں‘‘ پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے ’’گھریلو‘‘ معاملات جاننے کے لئے بھی ’’جاسوسی‘‘ کا مؤثر نظام بنایا جاتا ہے۔ حیرت ہوئی کہ شاہ محمود قریشی صاحب کو ا ٓخری لمحات تک یہ خبر نہ مل پائی کہ سینٹ کے حوالے سے ان کے روایتی شریک کے اصل ارادے کیا ہیں۔
گیلانی صاحب کی ’’گہرائی‘‘ بھی ا پنے تئیں اس ضمن میں حیران کن ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ’’ذرائع‘‘ سے جیو ٹی وی نے خبر دی کہ گیلانی صاحب نے اپنا ووٹ ملتان سے اسلام آباد منتقل کروالیا ہے۔ یہ انتقال واضح انداز میں عندیہ دے رہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے ووٹوں سے سینٹ کا رکن منتخب ہونا چاہیں گے۔ رانا جواد اور سہیل وڑائچ جیسے میرے بہت ہی پیارے دوستوں نے اس تناظر میں تبصرہ آرائی کے لئے تفصیلیBeeper دئیے۔ ’’خبرپھوٹ گئی‘‘۔ اس پر تبصرے بھی ہوگئے تو سابق وزیر اعظم کے فرزند -قاسم گیلانی- نے ایک ٹویٹ لکھ کر ’’رنگ میں بھنگ‘‘ ڈال دی۔ ثابت ہوا کہ گیلانی صاحب نے انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
گزشتہ جمعہ کی شام تاہم بلاول ہائوس کراچی سے پیپلز پارٹی کے سینٹ کے لئے نامزد امیدواروں کی فہرست کا اعلان ہوگیا۔ یوسف رضا گیلانی اس فہرست میں پی ڈی ایم کے اسلام آباد سے ’’متفقہ امیدوار‘‘ تجویز کئے گئے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس وقت ملتان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے۔ ان کی جانب سے گیلانی صاحب کی ’’امیدواری‘‘ کی بابت ہوئے تبصرے کو میرے چند رپورٹر دوستوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بھول گئے کہ مولانا بھی ایک گہرے آدمی ہیں۔ گیلانی صاحب کے ’’ملتان‘‘ سے تعلق ان کا بھی بہت قدیمی اور خاندانی ہے۔
گیلانی صاحب کو پی ڈی ایم کا متفقہ ا میدوار بنانے کا فیصلہ اگر کئی روزقبل ہی فائنل نہ ہوگیا ہوتا تو ہفتے کے دن مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی ’’اچانک‘‘ ان کے تائید کنندہ کے طورپر رونما نہ ہوتے۔
گیلانی صاحب دو سابق وزرائے اعظم کے دستخطوں سے سینٹ کے اسلام آباد سے باقاعدہ امیدار کی صورت میدان میں اترآئے ہیں تو سرگوشیوں کے عادی اسلام آباد کے ’’سازش‘‘ تلاش کرتے ڈرائنگ روم اب یہ جاننے کو بے چین ہیں کہ گیلانی صاحب کو درحقیقت ’’کس نے‘‘ اکھاڑے میں دھکیلا ہے۔ یہ سوال سنجیدگی سے سوچیں تو اپنی جگہ کافی پریشان کن ہے۔ اس تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ حقائق کچھ بھی رہے ہوں ہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت یہ طے کر بیٹھی ہے کہ وطنِ عزیز کی سیاسی بساط پر مہرے سیاست دان نہیں ’’کوئی اور‘‘ لگاتا اور چلاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان ازخود کوئی پیش قدمی یا Initiative لینے کے قابل نہیں رہے۔ ذاتی طور پر بدترین حالات میں بھی اس سوچ کا میں حامی نہیں رہا۔ سیاست کے حقیقی دائو پیچ فقط سیاست دان ہی سوچ سکتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو طویل گوشہ نشینی کے بعد دائروں میں گھومتی سیاست میں رونق لگانے کے لئے متحرک کرنے کا خیال کوئی سیاستدان ہی سوچ سکتا تھا۔ ’’کسی اور‘‘ کو اس کا کریڈٹ دینا ’’کسی اور‘‘ کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
سیاسی عمل کو T-20 کی طرح لینے کے عادی اذہان اب اتاولے ہوکر یہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی اسلا م آباد سے قومی اسمبلی کے ووٹوں کی اکثریت سے سینٹ کے رکن منتخب ہوپائیں گے یا نہیں۔ میرا سست رو ذہن اس ضمن میں نتیجے کا اعلان کرنے سے قطعاََ قاصر ہے۔ نظر بظاہر عمران حکومت کو قومی اسمبلی میں کمزور ہی سہی اکثریت یقینی طور پر میسر ہے۔ تحریک انصاف کے نامزدہ کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو لہٰذا بآسانی واک اوور مل جانا چا ہیے۔ ایوانِ بالا میں لیکن چند ماہ قبل صادق سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اپوزیشن کی نشستوں سے 104 کے ایوان میں سے 64 اراکین اس کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے۔ چند ہی لمحوں بعد مگر پولنگ بوتھ کی تنہائی میں بیلٹ پر ٹھپہ لگاتے ہوئے ان میں سے 14 اراکین کے ’’ضمیر جاگ‘‘ گئے۔ اب کی بار ’’ضمیر‘‘ دوسری جانب بھی خفیہ رائے شماری کی برکت سے جاگ سکتے ہیں۔ حفیظ شیخ صاحب کی جیت یقینی بنانے کے لئے اب ’’کھلا‘‘ انتخاب درکار ہے اور اس ضمن میں فی الوقت ’’حتمی مدد‘‘ سپریم کورٹ ہی فراہم کرسکتا ہے۔ آئین میں ترمیم کیونکہ ممکن نہیں۔ تاش کے کھیل کے حوالے سے انگریزی زبان میں ایک فقرہ استعمال ہوتا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اپنے حریف کو ’’اصل پتہ‘‘ کھیلنے کو مجبور کرنا چاہیے۔ مجھ میں لکھنے کی ہمت نہیں۔ خود فیصلہ کرلیں کہ پی ڈی ایم میں یکجا ہوئی جماعتیں یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا امیدوار بناکر در حقیقت ’’کس کو‘‘ اصل کارڈ دکھانے کو اُکسارہی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر