جب دوسری جنگِ عظیم میں جاپان پر امریکی ایٹم بم گرا کر اسے تباہ کر دیا گیا اور امریکی فوج جاپان پر حاوی ہو گئی تو بعد میں امریکیوں نےجاپان کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لئے منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں
W.Edwards Deming
کوجاپان بھیجا گیا کہ وہ جاپانیوں کو کوالٹی کنٹرول کی ٹریننگ دے۔ بس پھر کیا تھا کہ پوری دنیا میں جاپان کی گاڑیوں۔الیکٹرانک ۔کیمروں وغیرہ کا طوطی بولنے لگا۔اور اب تک جاپان کی مصنوعات دنیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ چین نے ان مصنوعات کی کم قیمت پر پیداوار سے دنیا میں دھوم مچا دی۔
کچھ اور ملکوں میں بھی اس ماڈل کو دھرایا گیا اور اس کے حیرت ناک نتائج نکلے۔
جب میں بنکاک گیا تو وہاں مجھے تھائی لینڈ کے دیہی علاقوں میں شروع ایک پراجیکٹ دیکھنے کا موقع ملا۔ منصوبہ جس کا نام OTOP ھے حکومت کی مدد سے دیہاتیوں کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت حکومت دیہات میں بننے والی دستکاری کا انتخاب کرتی اور اس کی کوالٹی بہتر بنا کر اسے فائیو سٹار کا درجہ دیتی۔پھر یہ پراڈکٹ ملکی اور غیرملکی مارکیٹ میں بہت بکتا۔ یہ آئیڈیا پھر انڈونیشیا۔چین۔کوریا۔ویت نام وغیرہ بہت کامیاب ہوا۔
میں نے خود بنکاک اور پھر بالی انڈونیشیا سے کچھ پراڈکٹ خریدے۔
سنگاپور کی خاتون اول جب امریکی دورے پر گئی تو اس کے ہاتھ میں سنگاپور کے معذور بچوں کا بنا پرس تھا جس کی مانگ اور قیمت میں اچانک چار گُنا اضافہ ہو گیا۔
اب اگر ہم ان ملکوں کی ترقی دیکھیں تو حیرت ہوتی ھے کہ یہ تمام ممالک ستر سال پہلے پاکستان سے کم ترقی یافتہ تھے اور ہم سے بہت آگے نکل گئے ۔ سنگاپور تو تعلیمی نظام میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے ۔ ملائشیا بھی ہم سے آگے ہے حالانکہ یہ تمام ممالک جزیروں کی شکل میں سمندر سے گھرے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان ان ممالک کے مقابلے میں جنت کا مقام رکھتا ہے۔
کیا ہماری حکومت پاکستان کی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو آٶ مل کر ساتھ چلیں اور پاکستان کو مضبوط بنائیں۔
اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان میں جو چیزیں وافر مقدار میں موجود ہیں حکومت کی سرپرستی سے انہیں کافی ترقی دی جاسکتی ہے۔
1۔ دودھ کی پیداوار۔
زرعی ضلع ہونے کی وجہ سے یہاں دودھ دینے والے جانوروں کی کمی نہیں مگر دودھ کو جدید خطوط پر محفوظ کرنے کے لئے ٹکنالوجی موجود نہیں اس لئے زیادہ تر دودھ مٹھائیاں اور حلوے بنانے پر استعمال ہوتا ہے اور اس سے صحیح مالی فوائد حاصل کرنے سے زمیندار محروم ہے۔اگر جدید پلانٹ نصب کر دئے جائیں تو دودھ کو پیک کرکے دوسرے شھروں میں بیچا جا سکتا ہے۔
2۔ دودھ سے تیار کردہ روائتی سوھن حلوہ۔
ڈیرہ کا سوھن حلوہ پوری دنیا میں مشھور ہے لیکن مارکیٹنگ کے جدید طریقے نہ جاننے کی وجہ سے اس سے بھی وہ فوائد نہیں مل رہے جو یہاں کے تاجروں اور کسانوں کا حقہے۔
3۔ ڈھکی کی مشھور زمانہ کھجور۔
ڈھکی کی کھجور اکثر صوبہ سندھ کے ہندو تاجر خرید لیتے ہیں اور وہ اسے چھوارے بنا کر انڈیا بیچ دیتے ہیں ۔ یہاں کا کسان نہ preserve کر سکتا ہے نہ جدید طریقے کی پیکنگ اور مارکیٹنگ سے وقف ہے۔
4۔ مقامی سبزیوں اور پھلوں کی وافر پیداوار۔
ہم انڈیا ۔صوبہ سندھ و بلوچستان کا ٹماٹر مہنگے داموں خریدتے رھتے ہیں جب مقامی ٹماٹر مارکیٹ میں آتا ہے وہ گلنے سڑنے لگتا ہے اور کسان جب منڈی فروخت کرتا ہے تو دِھاڑی بھی نہیں بنتی ۔ یہی حال دوسری سبزیوں کا ہ۔
5۔ لکڑی سے بناۓ گئے بہترین گفٹ ۔
جو صدیوں سے مشھور ہیں
لکڑی کے کام والے کاریگر اب ڈیرہ میں ختم ہو رہے ہیں کیونکہ وہ زمانے کے جدید تقاضوں کے ساتھ نہیں چل سکے ۔اب اگر ان لوگوں حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی تو وہ ایسی چیزیں بنا سکتے ہیں جو غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول ہیں اور کافی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئ Deming جیسا شخص موجود نہیں جو ان چیزوں کی کوالٹی کو بہتربنانے کے طریقے بتاۓ۔
ان اشیا کو preserve کرنے ۔ویلیو ایڈڈ بنانے۔پیکنگ کرنے ۔مارکیٹنگ کرنے کی ٹریننگ دے۔ کاٹیج انڈسٹری کی بنیاد رکھے۔
اس سلسلے میں ایک تو مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر ریسرچ کر کے ہماری مدد کر سکتے ہیں لیکن پھر انکی ریسرچ کو جب تک حکومت پزیرائ نہ دے تو سب کچھ لیبارٹری میں پڑا رہتا ہے۔ کچھ عر صہ کی بات ہے میں نے سنا تھا ہماری یونیورسٹی نے نیم کے درخت سے ایک کیڑے مار دوا بنائ تھی جو ماحول دوست اور سستی تھی۔ موجودہ کیڑے مار ادویات بہت زہریلی ۔مہنگی اور ماحول دشمن ہیں ۔ ان کیڑے مار ادویات نے ہمارے علاقے سے چھوٹی شھد کی مکھی کا خاتمہ کر دیا ہے اب یا تو موٹی شھد کی مکھی نظر آتی ہے یا پھر ڈبوں میں پلنے والی شھد کی مکھیاں ہیں جو آسٹریلیا سے منگوائ گئ ہیں۔اسی طرح باھر سے منگوائ گئ مرغیوں نے دیسی مرغی کا خاتمہ کر دیا اور اب کہا جا رہا ہے برائلر مرغ زہریلی ادویات اور اسٹرائڈ کی خوراک کھانے کی وجہ سے خرابی صحت کا باعث ہے۔
پی ٹی آی کی حکومت سے ڈیرہ کے لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے میں مدد کر کے ملک کے لئے زر مبادلہ کماۓ ۔۔ اس سے پہلے یہاں پر مقامی طور پر کشیدہ کاری اور افغان واسکٹ بنانے کا کام عروج پر تھا جس سے خواتین کو روزگار ملتا تھامگر حکومت کی بے حسی اور بے توجہی کے باعث وہ کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔
اگر آپ واقعی ملک بچانے نکلے ہیں تو آو ملکر ہمارے ساتھ چلو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر