گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آجکل اکثر اولاد ماں باپ کو کہتی ھے آپ لوگوں نے ہمارے لئیے کیا کیا ھے؟ان کا اشارہ اکثر مال دولت جمع کرنے سے متعلق ھوتا ھے۔تو دل بڑا اداس ھوتا ھے ۔۔۔ماں باپ مجبور ھو کے کہتے ہیں بیٹا ہم جو کچھ کر سکتے تھے تمھارے لئیے کر دیا اب دیکھتے ہیں تو اپنی اولاد کے لئیے کیا کرتا ھے؟۔اس سلسلے میں ایک وڈیو سے لی گئی کہانی سنیے۔
ٹوڈر مل سترویں صدی عیسوی میں بھارت کے شھر سر ہند میں ایک بھت امیر ہندو تاجر تھا جس نے سرہند میں ایک بڑی خوبصورت عمارت بنوائی تھی جس کو جھاذ حویلی کہا جاتا تھا۔اس حویلی میں تالاب اور فوارے بھی تعمیر کئے گئے تھے اور اپنے وقت میں یہ ایک شان و شوکت کی عمارت سمجھی جاتی تھی۔یہ بات پوری دنیا میں دیکھی گئی ھے کہ جب آدمی کے پاس دولت آ جاتی ھے تو اس میں قسم قسم کی حماقتیں بھی جنم لینے لگتی ہیں۔
ٹوڈرمل کی ماں ایک سادہ عورت تھی اور اکثر اسے کہتی رہتی کہ ٹوڈرمل تو ماں کا قرضہ ساری زندگی نہیں اتار سکتا۔ ٹوڈرمل کروڑوں میں کھیلتا تھا اور دولت کا نشہ عروج پر تھا۔ایک دن جب ماں نے یہ بات کہی تو ٹوڈرمل نے لہرا کے ماں کو کہا ۔۔لے ماں میں آج تیرا قرضہ اتار دیتا ھوں تو روز روز مجھے کہتی ھے کہ ٹوڈرمل تو ماں کا قرضہ نہیں اتار سکتا۔۔
آج تو مانگ جو مانگنا ھے میں تجھے دینے کو تیار ھوں۔تجھے سونا دوں۔۔چاندی دوں۔ھیرے دوں۔جواھرات دوں ۔روپیہ دوں۔پیسہ دوں ۔۔ جو مانگنا ھے مانگ پر آئندہ روز روز مجھے یہ مت کہا کر کہ میں تیرا قرضہ نہیں اتار سکتا۔ ماں یہ بات سن کر حیران رہ گئی پھر کہنے لگی دیکھ ٹوڈرمل ھیرے جواھرات سونے چاندی سے تو قرضہ اترے گا نہیں بس تو یوں کر ایک رات میرے ساتھ میرے کمرے میں سو جا میرا قرضہ اتر جاے گا۔
ٹوڈرمل نے کہا میرے رات کو سونے سے کیا ھوتا اور کیسے قرضہ اترے گا۔ماں نے کہا بس تو ایک رات میرے بستر کے ساتھ چارپائی ڈال کے سو جا میرا قرضہ اتر جائیگا۔ خیر ٹوڈرمل راضی ھو گیا اور رات کو ماں کے ساتھ ایک چارپائی پر سو گیا۔ جب اسے آہستہ آہستہ نیند آنے لگی تو ماں نے سر سے پکڑ کے ہلایا اور کہا پیاس لگی ھے پانی لاو۔ ٹوڈرمل بڑے ادب سے اٹھا پانی کا کٹورا بھرا اور دونوں ہاتھ آگے کر کے کہا ماتا جی یہ پانی حاضر ھے آپ جی بھر کے پی لیں۔
ماں نے ایک گھونٹ پانی پیا اور باقی پانی ساتھ ٹوڈرمل کے بستر پر پھینک دیا۔۔ٹوڈرمل دیکھ کر بولا یہ کیا۔۔ماں نے کہا بیٹا بڑھاپا ھے غلطی ھو گئی خیر ھے بس تو سو جا ایک رات کی تو بات ھے گزر جائیگی۔۔ اب کہاں ٹوڈرمل کا ریشمی بستر اور اب گیلا اوپر ٹوڈرمل لیٹ تو گیا مگر نیند اچاٹ ھو گئی۔ کڑ کڑ کرتے بڑی مشکل سے آنکھ لگی کہ ماں نے اٹھا دیا اور کہا بیٹا پانی۔۔اب تو ٹوڈرمل کو بڑا غصہ چڑھا کہا ماں ابھی تو پانی پیا تھا۔ماں نے کہا بیٹا پیاس لگی ھے اب تو پانی پی بھی پہرہ لگاے گا کیا؟
وہ تیزی سے اٹھا پانی کا کٹورہ بھرا اور ایک ہاتھ سے آگے کر کے ماں سے کہا لے پانی۔۔اب ماتاجی بھی گئی دو ہاتھ بھی گئے صرف ایک ہاتھ آگے بڑھا۔ ماں نے پھر ایک گھونٹ بھرا اور باقی پانی اس کے بستر پر پھینک دیا۔ اب تو ٹوڈرمل غصے سے بے قابو ہو گیا کہنے لگا ماں تُو تو ھوگئی ھے پاگل تیرا دماغ خراب ھو گیا ھے میں نے قرضہ کیا اتارنا میں نے تو موت خرید لی۔
ستر باتیں ماں کو سنا دیں۔۔۔ماں ساری باتیں سہہ گئی اور پیار سے کہا کوئی بات نہیں بیٹے تو اب سو جا ۔۔ اب بستر اور زیادہ گیلا ہوا تو ٹوڈرمل کروٹیں بدلنے لگا آخر کافی دیر کے بعد نیند نے گھیرنا شروع کیا اور آنکھ لگنے لگی تو ماں نے آواز دی بیٹے ۔۔۔۔پانی۔۔۔۔اب ٹوڈر مل آپے سے باھر ھو گیا اور چیخ کےکہنے لگا ماں تُو کیا کھا کے سوئی تھی جو بار بار پیاس لگ رہی ھے۔۔۔۔کھوہ میں جاے تیرا قرضہ ۔۔۔میں نے نہیں اتارنا۔۔۔
میں اپنے کمرے جا رہا ھوں۔۔۔ماں نے ہاتھ کھینچ کے ایک لپاٹے دار تھپڑ ٹوڈرمل کے چہرے پر مارا اور کہا۔۔۔ تو میرا قرضہ اتارنے چلا ھے۔توُ ایک بار میرے کمرے میں سو گیا اور میں دو بار پانی مانگ لیا اور تیرا بستر گیلا کیا تو کیا ھوا۔۔ارے جب تو چھوٹا تھا تو میں نے تو پانی سے تیرا بستر گیلا کیا تو اپنی گندگی سے میرا بستر گیلا کر دیتا تھا اور میں تجھے سوکھے پر سلاتی خود گندگی پر سوتی۔پھر تو ادھر بھی گندگی کر دیتا تو میں تجھے سینے پر سلاتی اور خود تیری گندگی پر سوتی۔تو میرے دو دفعہ پانی مانگنے پر خفہ ھو گیا مگر تو رات کو بار بار کبھی دودھ مانگتا کبھی پانی میں تجھے چوم چوم کے پلاتی۔تُو کبھی تو ساری ساری رات نہیں سوتا تھا تو میں تجھے سینے سے لگاۓ ساری رات آنگن میں ٹہلتی رہتی ۔ تو ماں کا قرضہ اتارنے چلا ھے ۔۔۔لے سن تو اگر کئی اور جنم بھی لے لےتو ماں کا قرضہ نہیں اتار سکتا۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر