عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کا تعلق روز بروز دلچسپ صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس تعلق کو سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہے اور رہے گی، اس تعلق کو قطع کرنا نہ پیپلز پارٹی کے لیے سہل ہے نہ یہ پی ڈی ایم کے لیے کوئی مباح بات ہے۔
اس موقع پر ذرا سی لغزش ق لیگ جیسی پارٹی کر سکتی ہے مگر کوئی جمہوری قومی پارٹی اس موقع پر غیر جمہوری حرکت کر کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کا وجود ایک دوسرے سے مشروط ہے۔
گو کہ پیپلز پارٹی اب ماضی کی پیپلز پارٹی نہیں رہی، اب چاروں صوبوں کی زنجیر نہیں رہی لیکن سندھ میں اس کا راج ہے اور اس حقیقت سے انکار حماقت ہے۔ پیپلز پارٹی اگر اس موقع پر چاہے تو ایک دفعہ پھر قومی دھارے میں شامل ہو سکتی ہے۔
نواز شریف کی بھی یہی خواہش ہے کہ جمہوری قوتوں کے اس پلیٹ فارم میں کوئی رخنہ نہ پڑے، ووٹ کو عزت دینے کی یہ جدوجہد اسی طرح جاری رہے، اس کا عَلم یوں ہی بلند رہے۔ اس کے سائے میں جمہوریت کا چراغ جلتا رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی، نقطہ نظر کو سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ مولانا سے ان کے مذاکرات کا دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
اب بھی وہ جمہوریت کے نام پر سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، کسی کو مجبور نہیں کرنا چاہتے نہ کسی سے زبردستی کرنا چاہتے ہیں، نہ کسی کو رد کرنا چاہتے ہیں نہ کوئی اختلافی بات کرنا چاہتے ہیں۔ اختلاف نظریے پر ہے بھی نہیں، مسئلہ سارا حکمت عملی کا ہے۔
پیپلز پارٹی کے خیال میں موجودہ حکومت کو پارلیمان میں شکست دی جا سکتی ہے، عددی برتری اچانک بڑھ سکتی ہے، حکومت کی حلیف جماعتیں اچانک حکومت سے منہ موڑ بھی سکتی ہیں۔ ق لیگ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اور باپ جیسی پارٹیاں بھی بدل سکتی ہیں۔دیکھا جائے تو یہ منصوبہ غلط نہیں ہے۔ عمران خان کو لانے والے اب عمران خان کی پشت پناہی سے اجتناب کرنے لگے ہیں۔ اب لانے والوں پر بات آنے لگی ہے، لوگ انھیں موردِ الزام ٹھہرانے لگ گئے ہیں۔
ایسے میں ’گیم پلان‘ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک نئی حکومت کے آنے سے ایک نیا طوفان آئے گا، میڈیا کچھ عرصہ ان کے ساتھ چہلیں کرے گا، منظر بدل جائے گا۔ اتحادی جماعتیں کسی آوارہ پنچھی کی طرح ان کو بھی اڑان کی دھمکی دیں گی اور تماشہ چلتا رہے گا۔
اس منصوبے میں چند ایک بنیادی سقم بھی ہیں۔ ایک تو اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے کچھ قوتوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ اس بات کا عندیہ مریم نواز بھی ایک پریس کانفرنس میں دے چکی ہے۔ پی ڈی ایم کا ایجنڈا کچھ اور ہے، یہ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں، حکومت کی نہیں۔ یہ حال کی نہیں مستقبل کی بات کر رہے ہیں، یہ نئے سرے سے تاریخ لکھنا چاہتے ہیں، ان کو اب کسی کے تسلط کی پرواہ نہیں ، کسی مدد کا انتظار نہیں، یہ عوام کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر ایسی کوئی سیاسی چال جس سے سانپ تو مر جائے مگر لاٹھی سر پر لٹکتی رہے، انھیں قبول نہیں۔
نواز شریف لانگ مارچ چاہتے ہیں، تمام جمہوری قوتوں کا تاریخی لانگ مارچ۔ پھر استعفے چاہتے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن کے بعد لانگ مارچ ہو اور اس کے بعد کم از کم قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے جائیں، صوبائی حکومتیں بھلے کام کرتی رہیں۔
اس کے بعد لانگ مارچ کیا جائے، عوام کی طاقت کو آزمایا جائے، اسلام آباد ہو یا راولپنڈی عوام کو آزمایا جائے کیوں کہ ان کے خیال میں یہ جنگ اقتدار کی نہیں بلکہ عوام کے حقوق کی جنگ ہے۔ اس میں حتمی اور اٹل فیصلہ عوام ہی کر سکتے ہیں۔
آصف زرداری کی سوچ سے نواز شریف کی سوچ متصادم تو نہیں لیکن وہ اسمبلی میں کوئی حل چاہتے ہیں۔ ایک لمحے کو فرض کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکمتِ عملی کامیاب ہوتی ہے، تحریک ِعدم اعتماد میں حکومت کو شکست ہوتی ہے، عمران خان رخصت پاتے ہیں، نئی حکومت بنتی ہے تو کیا اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی؟ بالکل نہیں۔ اس سے صرف چہرے بدلیں گے، نظام اور سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی۔
ہو گا کیا کہ ایک طرف تو نئی حکومت بیساکھیوں پر ڈگمگاتی رہے گی اور دوسری طرف عمران خان اپوزیشن میں ہوں گے۔ اس طرح امکان ہے وہی ماحول آ جائے گا جو 1988 سے 1997 کے درمیان ہوا کرتا تھا۔
حکومتوں کو باریاں دی جائیں گی اور پیچھے بیٹھ کر حلوہ کھانے والے ہر دور میں خوب حلوہ کھائیں گے۔ ایک دوسرے پر مقدمات بنائیں گے، کرپشن کے کیسز کی فائلیں کھلوائیں گے، سیاست دانوں پر گالی گلوچ میں سیاست دان ہی شامل ہوں گے اور پھر نہ عوام کو کوئی سکون ملے گا نہ جمہوریت کو کوئی تقویت نصیب ہوگی۔
پی ڈی ایم کا قیام جن جمہوری روایات کی بنا پر عمل میں لایا گیا ہے ان سے ہٹنا اس ملک کے لیے اور جمہوریت کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت حالات کی سختی کو برادشت کر کے اس ملک کے مستقبل کو سنورا جا سکتا ہے، اس وقت عوام کے حقوق ان کو لوٹا کر ان کی حیثیت کو حرمت دی جا سکتی ہے۔
بنیادی جمہوری روایات سے اس نازک موقع پر ذرا سی لغزش سارا کھیل بگاڑ سکتی ہے، تحریک ِعدم اعتماد ناکام بھی ہو سکتی ہے، پیپلز پارٹی کی سیاسی چال کو مات بھی ہو سکتی ہے۔
ایسا پہلے بھی ہوا ہے جہاں اکثریت کے باوجود سینیٹ چیئرمین نہیں بن سکا، جہاں قدم قدم پر ایسے اندیشے ہوں وہاں تحریکِ عدم اعتماد سے بہت زیادہ خوش گمان رہنا دانش مندی نہیں ہے کیوں کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک بار اگر تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو یہ حکومت کے لیے نئی زندگی کی مانند ہو گی۔
پھر یہ ناکامی صرف پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کی نہیں ہو گی، یہ ناکامی پی ڈی ایم کی بھی ہو گی، جمہوریت کی بھی ہو گی اور اس ملک کے عوام کی امنگوں کے لیے بھی یہ مایوس کن تصور کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر