نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جاگ امریکی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ !۔۔۔ آصف علی بھٹی

پہلی مرتبہ طاقتورامریکی اسٹبلشمنٹ نےجمہوری نظام کی بقا،اقتدارکی پرامن منتقلی کیلئےمقتدرشخص کی بجائےنومنتخب صدر کی پشت پرکھڑےہونےکوترجیح دی،آج تقریب حلف برداری کوانتہاپسندنسل پرستوسےبچانےکےلئےڈی سی کوآہنی قلعےمیں بدل کرعراق اورافغان جنگ سےزیادہ فوجی تعینات کردئیے

آصف علی بھٹی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

‎امریکہ کو عظیم جمہوری روایات کا امین سمجھا جاتا ہے جہاں رواداری ،برداشت ،برابری اور آزادی اظہار کو معاشرے کی بےمثال خاصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ تاریخ چند دہائیوں نہیں، سوا دو سو سال پر محیط ہے تاہم پوری دنیا نے دیکھا کہ گزشتہ چند برسوں بلکہ محض چار برسوں میں امریکہ کی اس سنہری تاریخ کو اعلی ترین منصب پر براجمان شخصیت نےداغدار کرنے میں کوئی تامل نہیں برتا،تبھی تو کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی سوا دو سالہ جمہوری تاریخ میں ٹرمپ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
‎مسٹر ٹرمپ نےایک غیر روایتی اور غیر سیاسی شخصیت کےباوجود نعروں اور دعوں سےپاپولر لیڈر کی حیثیت حاصل کی اور اقتدار حاصل کرلیا،یوں امریکی تاریخ بدل گئی۔ٹرمپ کےحامی گذشتہ چار برسوں میں معاشی استحکام ، روزگار میں اضافے،اقتصادی ترقی اور بیرونی ملکوں سے فوجیوں کی واپسی سمیت نئی جنگ نہ چھیڑنے اور بلخصوص پاکستان ودیگراسلامی ملکوں پرڈرون حملے بند کرانے کوتاریخی کارنامہ گردانتےہیں تاہم نقاد ٹرمپ کی سفارتی سطح پر یکطرفہ وغیرمنصافانہ تباہ کن پالیسیوں کو امریکہ کے متعلق عالمی سطح پرنفرت انگیز جذبات بھڑکانے کا مؤجب سمجھتے ہیں،ان کی رائےمیں امیگرینٹس سے نفرت،، لسانی ، مذہبی اور رنگ و نسل کی بنیاد پر معاشرتی خلیج میں اضافہ ٹرمپ دور کےبدترین تحفے ہیں ۔ امیگرینٹس کی سرزمین کہلانے والے ملک میں پہلی مرتبہ دوسرے ملکوں سے آنے والوں پر پابندیاں اور عالمی سطح پر سرخ پاسپورٹ کا بےوقت ہونا شاید امریکہ کی عزت پر شرمناک اور ان مٹ داغ ہے ۔
‎صدرٹرمپ نہ صرف 30سال بعد دوسری مدت کا صدارتی انتخاب ہارے بلکہ ڈیڑھ سو سال بعد نومنتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سےانکار کرنیوالے مجموعی طور پر چوتھے صدر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ہے ، صدرٹرمپ چارسالہ مدت میں دو مرتبہ مواخذہ کرانےوالےپہلےامریکی صدر توبنے ہی دور اقتدار میں ہی اپنےدوست دشمن بنا لئے ،رائےشماری میں حکمران جماعت کے10 ارکان نے اپنے صدر کےمواخذے کی تحریک کی حمایت کرکے سیاسی پنڈتوں کے اندازے بدل دئیے۔ غیرپائیدار جمہوریتوں اورتیسری دنیا کے ممالک میں پارلیمنٹ کی بے توقیری کےواقعات معمول کاحصہ ہیں مگر ۶1814 میں دشمن فوج کےحملےکے دو سو سال بعد یہ کارنامہ بھی صدر ٹرمپ کے حصے میں آیا ، جنہوں نےاپنےمسلح حامیوں کو اکسا کر پارلےمنٹ کےوقار کو تباہ کرکے انجام دیا، یہ امریکی جمہوری روایت کا وہ اہم ترین اور تاریخی دن ہوتاہے (6جنوری )جب امریکی کانگریس نومنتخب صدر کے حاصل کردہ الیکٹرول ووٹوں کی تصدیق کرکےمنتخب صدر کی توثیق کرتی ہے۔دلچسپ بات ہےکہ پاکستان و بھارت سمیت کئی ترقی پذیر ملکوں میں سیاستدانوں کوانکےنظریات اورطریق سیاست پر اعتاب کا نشانہ بننےکےمظاہرےعوامی مقامات پر نظر آتے ہیں مگر اب یہ نئی روایت امریکی تاریخ کے اضافی باب کےطور پر شامل ہوچکی ہےجہاں ٹرمپ کےحامی حکومتی اور اپوزیشن کے منتخب ارکان پارلےمنٹ کو راستوں میں روک کربدتمزی کا نشانہ بنا رہے ہیں اور جان سے ماردینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔امریکی عوام کے باعث شرم بننے والے امریکی صدر روزانہ چار ہزار امریکیوں کی جان لینے والے کرونا وائرس کا بھی مذاق اڑاتے رہے،نتیجتا امریکا کرونا سےاموات والا نمبر ون ملک بن گیا۔تمام عمر میڈیا کو جھوٹا اورجعلی کہنے والا کرسی صدارت پر ہوتے ہوئے آزادی اظہار کاحق گنوا بیٹھا ہے ،عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹویٹر فیس بک سنیپ چیٹ اورانسٹاگرام نے اکاؤنٹس بند کردئیے ہیں ،بنکوں نے لین دین بند،قانونی فرمز نےرابطےختم،فریڈم ایوارڈ سمیت تمام اعزازت واپس ،تجارتی کنٹریکٹس منسوخ ہو چکے ہیں مگر ہٹ دھرم وانتہاپسند ٹرمپ روایات کے خاتمے کی بجائے مزید اضافے کےخوفناک سائے امریکا پر بدستور منڈلا رہے ہیں۔
‎امریکی سیاست کے تجربہ کار پارلیمنٹرینز موجودہ سیاسی بدحالی کی صورت حال اچانک پیدا ہونے کادعوی بھی سچ تسلیم نہیں کرتے، ان کےخیال میں جمہوریت کےلبادےمیں لپٹی امریکی معاشرے اور سیاست کی خامیاں اچانک عریاں نہیں ہوئیں بلکہ ایک غیرروایتی و غیر سیاسی کردار نےاپنی غیر دانشمندانہ حکمت سے انہیں بےنقاب کردیاہے، دراصل معاشرے میں دائیں بازو کےانتہا پسندوں نے اپنی سوچ کو موثر دباو کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں بونے کی حکمت عملی اختیار کی اور مکالمے کی بجائےمحض طاقت کی بنیاد پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کا خطرناک طریقہ استعمال کیاگیا،بدقسمتی سے امریکی صدر اس آئیڈیالوجی کےسر خیل رہے۔صدر ٹرمپ جو ہمیشہ غلطیاں کرکے پتلی گلی سے بچ نکلنے کےعادی رہے ہیں ، نے2019 میں کہا تھا کہ ان کے پاس سخت جان لوگ موجود مگر وہ ابھی کچھ کر نہیں رہے مگرجب لمحہ خاص آئےگاتوان کا ایکشن بہت برا، بہت ہی برا ہوگا ،بالآخر انہوں نے6جنوری کواپنا کہا پورا کردیا مگر اس مرتبہ پیسے اور چالاکی بنیاد پر ان کا بچ نکلنا ناممکن لگ رہاہے۔ ،
‎یہ نقطہ بھی بہت اہم ہےکہ پہلی مرتبہ
‎طاقتور امریکی اسٹبلشمنٹ نےجمہوری نظام کی بقا اور اقتدار کی پرامن منتقلی کےنام پرمقتدرشخص کی بجائے نومنتخب صدر کی پشت پر کھڑے ہونے کا غیر معمولی فیصلہ کیاہےاور 20 جنوری کو نئے صدر کی تقریب حلف برداری کو انتہاپسند مسلح نسل پرست جتھوں سے بچانے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگادی ہے،بعض میڈیا رپورٹس کےمطابق عراق اور افغان جنگ کےلئے بھجوائے گئے ٹروپس سےکہیں زیادہ مسلح سیکیورٹی وانٹیلی جنس اہلکار( 20 سے30 ہزار)صرف وفاقی دارالحکومت کی حفاظت پرتعینات کردئیے گئے ہیں۔بعض ہم وطنوں کی جانب سے امریکی کی سیاسی صورت حال کا تقابلی جائزہ 73سالہ پاکستان کی چند سالہ جمہوری سیاسی تاریخ اور موجودہ اقتدار کی رسہ کشی سے کرنا شاید اتنا مناسب نہیں تاہم گذشتہ انتخابات کے انتخاب اور انداز حکمرانی کےنئے تجربے نے عوام سمیت ہر طبقے کو پریشان اور ہیجان کاشکار کررکھاہے تاہم وطن عزیز کے دشمن ہمسائیہ کا مودی ٹرمپ کے نقش قدم پر چل کر انتہاپسندانہ عزائم کی انجام دہی میں مصروف ہے جس کا انجام اس کےامریکی Mentor
‎سے مختلف نہیں ہوگا۔تجزیہ کاروں کی نظر میں چار دہائیوں سے امریکی سیاست کےاہم کردار نومنتخب صدر جوبائیڈن سے امریکی عوام کو بلاشبہ بہت توقعات ہیں اور وہ بہت کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں ،ٹرمپ کے سیاہ دور میں نفرتوں کے جو بیج بوئےگئے انہیں جڑ سےاکھاڑ پھیکنا شاید جلدی ممکن نہیں ہوگا، عالمی سطح پر امریکا کی بطور طاقتور لیڈر کے طور پر کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی ایک بڑا مشکل ٹاسک ہے، ان کے خیال میں
‎جمہوری ، سیاسی اور معاشرتی تاریخ کے روشن و دمکتےامریکی چہرے کےداغدار ہوجانے کےگہرےگھاو کو بھرنےکےلئے امریکی قوم کو خود اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ
‎ٹرمپ نظریہ کی شدت پورے معاشرے کو لپیٹ میں لےکرمعاشی چیلنجر میں گھرےامریکہ کوبدترین انتہا پسند ملک میں تبدیل کرسکتی ہے۔شایدامریکیوں کو بھی ایک نئے جذباتی نعرے کی اشد ضرورت ہے،،جاگ امریکی جاگ ،، تیری پگ کو نوں لگ گیا داغ۔۔۔!

یہ بھی پڑھیے:

امریکہ میں مارشل لا کے خدشات ؟۔۔ آصف علی بھٹی

بے رحم سیاست اور کورونا کے وار(مکمل کالم)۔۔۔ آصف علی بھٹی

About The Author