ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں بجلی کا بدترین کریک ڈائون ہوا اور پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا۔ وزیر توانائی عمر ایوب کے مطابق ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں سسٹم کی فریکوینسی 50 سے صفر پر آئی۔ تاریخ میں یہ بجلی کا بد ترین بریک ڈائون تھا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ گھروں میں تکلیف رہی، پانی کی قلت ہوئی اور موبائل سروس بھی متاثر ہوئی۔ اس سے بڑھ کر ملک کو ایک ہی رات میں اربوں کا پیداواری نقصان اس بناء پر ہوا کہ وہ انڈسٹری بارہ گھنٹے سے زائد مکمل طور پر بند رہی جس کے پاس بجلی کے متبادل ذرائع نہ تھے۔
بجلی کی بندش سے مختلف تبصرے ، تجزیے ہوتے رہے اور چہ مگوئیاں کی جاتی رہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنی اور حکومت کے درمیان معاہدوں کی تجدید پر جو تنازعہ چل رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کمپنیوں نے ٹریلر دکھا کر باور کرایا ہو کہ ہم ایسا بھی کر سکتے ہیں۔ بہر حال وارننگ نہ بھی ہو تو حکومت کو وارننگ سمجھنا چاہئے اور اس طرح کے اقدامات کرنے چاہئیں کہ آئندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وزیر اعظم عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میں مافیاز کے خلاف لڑ رہا ہوں اور جو کچھ بھی ہو جائے مافیا کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکوں گا۔ ہزار اختلاف کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ بجلی کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدے کئے گئے وہ تباہ کن تھے اور سابق حکومت نے اپنا حصہ وصول کرکے مہنگی بجلی کی شکل میں قوم کا بیڑہ غرق کر دیا۔ بجلی کریک ڈائون پر (ن) لیگ کے رہنما مریم نواز کا یہ کہنا اس بناء پر درست نہیں کہ نوازشریف کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ملک کو وافر بجلی پیدا کر کے دی۔ دراصل اسے کارنامہ اس بناء پر نہیں کہا جا سکتا کہ کون ایسا تاجر ہے جو زیادہ منافع والی چیز تیار کرکے نہیں دے گا۔
اسی معاہدے پر تو اس سے چار گنا زائد بجلی تیار کرکے دینے کیلئے سب تیار ہوں گے۔ موجودہ بحران بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے درمیان قانونی جنگ ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ قیمتوں میں کمی ہو اسی بناء پر اگست 2020ء میں حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا جسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں پاکستان کو اپنا ملک سمجھیں اور پاکستان کے غریب طبقات پر رحم کریں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کے حالات صحیح نہیں ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے غریبوں کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ بجلی کے شعبے میں واپڈا کی طرف سے کرپشن بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔
عام لائن مین سے لے کراوپر تک سب کرپشن کرتے ہیں جو کہ سالانہ کھربوں میں ہوتی ہے اور اس کا تمام بوجھ عام صارف یعنی غریبوں پر پڑتا ہے۔ حکومت کو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ اپنی’’ منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنا ‘‘ہو گی اور اپنے محکمے میں پائی جانیوالی بے اعتدالیوں کو درست کرنا ہو گا۔ حکومت نے آئل مافیا پر ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ چوری کے تیل کی خریدوفروخت سے خزانے کو دو سو ارب روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایرانی تیل کے غیر قانونی خریدو فروخت میں کیا حکومتی مشینری ملوث نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر تمام مجرموں کو کٹہرے میں لانا ہو گا ورنہ اس مسئلے پر بھی شفافیت کا تاثر قائم نہیں ہو سکے گا۔
سانحہ مچھ کے زخم ابھی تازہ ہیں لواحقین کی چیخیں اب بھی سنائیں دے رہی ہیں۔ اُن میں سے بہت سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جب بھی سانحہ کا نقشہ سامنے آتا ہے تو دل کانپ اُٹھتا ہے۔ سب کو اپنے اپنے پیارے یاد آجاتے ہیں۔ وسیب میں سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جہاں اسی طرح کی دہشت گردی کے نتیجے میں میتیں آئیں تھیں۔ اُن کے بھی ابھی تک قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ ہر موقع پر غیر ملکی سازش کا نام دے کر حکومت جان چھڑا لیتی ہے۔
اگر غیر ملکی سازش بھی ہو تب بھی حکومت ذمہ دار ہے کہ شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرے۔ سانحہ مچھ کے حوالے سے تحقیقاتی ایجنسیوں کو یہ پہلو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ آیا یہ آئل مافیا کی کارستانی تو نہیں؟ حکومت ہر طرح کی کرپشن اور دہشت گردی پر قابو پائے اور امن و امان قائم کرنے کا صحیح طریقہ یہ بھی ہے کہ ریاست شہریوں کو انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار مہیا کرے۔
بلوچستان امیر ترین صوبہ ہے اس کے معدنی وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر اُن وسائل کا نصف بھی بلوچستان پر خرچ ہو تو کوئی شخص بیروزگار اور بھوکا نہیں رہ سکتا۔ معدنی وسائل مرکز کے تصرف میں ہیں۔ جبکہ عام روزگار کیلئے بلوچستان میں نہ تو زراعت ہے اور نہ انڈسٹری لگائی گئی ہے۔ بلوچستان کے دورے کے دوران مجھے کوئٹہ پریس کلب کے دوستوں نے بتایا کہ اگر یورپ ایران پر پابندیاں ہٹا دے اور ایران کا تیل عالمی منڈی میں فروخت ہونا شروع ہو جائے تو اس کے بلوچستان کی معیشت پر برے اور تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی عام معیشت کا انحصار تیل اور دوسری چیزوں کی سمگلنگ پر ہے۔ اسی بناء پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ملک کے تمام پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے مساویانہ اور منصفانہ پالیسیاں ترتیب دے تاکہ قومی سطح پر ملک کرپشن کی لعنت سے پاک ہو سکے۔ بلوچستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اسے صوبے کا درجہ دے دیا۔
اس کے مقابلے میں وسیب آج بھی طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے مسئلے حل نہیں ہو رہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ملتان کی انجینئرنگ یونیورسٹی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورہ ملتان کے موقع پر ملتان انجینئرنگ یونیورسٹی کی منظوری دی۔ میاں نوازشریف برسراقتدار آئے تو انہوں نے اسے محمد نوازشریف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا نام دے دیا اور چک 14 فیض میں 6 مربع اراضی مختص کر دی گئی اور ساتھ ہی کامرس کالج ملتان کے دو کمروں میں یہ یونیورسٹی قائم ہو گئی۔
سرائیکی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے مقامی اکابرین بھی اسے مذاق قرار دیتے رہے اور کہتے رہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیں گے مگر افسوس کہ اڑھائی سال گزرنے کے بعد بھی ملتان کی انجینئرنگ یونیورسٹی ابھی تک مذاق بنی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر