نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کی صبح نسبتاََ دیر سے اُٹھ کر یہ کالم مکمل کرنے کی فکر میں اُلجھا ہوا تھا کہ رانا جواد کا فون آگیا۔ وہ ’’جیو‘‘ ٹیلی وژن کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ گھر کے فرد کی مانند ہیں۔ کوئی ’’تازہ ترین‘‘ خبر آجائے تو مجھے آگاہ کرنا لازمی شمار کرتے ہیں۔ دُکھی آواز کے ساتھ انہوں نے اطلاع دی کہ ’’سینیٹر(مصطفیٰ کھوکھر) کے ساتھ ٹریجڈی ہوگئی ہے۔‘‘ مزید تفصیلات جاننے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا۔ مصطفیٰ ہمارا مشترکہ دوست ہے۔ اس کے والد حاجی نواز کھوکھر صاحب گزشتہ کئی دنوں سے ہسپتال میں داخل تھے۔ شبہ تھا کہ کرونا کی زد میں آگئے ہیں۔ بے شمار ٹیسٹوں نے مگر آگاہ کیا کہ نمونیہ اور شوگر کا پرانا مرض پیچیدہ ہوکر انہیں جہان فانی سے بالآخر لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔
حاجی صاحب سے شناسائی کا سلسلہ 1985 میں شروع ہوا تھا۔ اس طویل عرصے میں ان سے دس سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ انہوں نے میری بابت مگر ہمیشہ احترام بھری گرم جوشی برقرار رکھی۔ اکثر میرے کئی جونیئر ساتھیوں کو بہت فخر سے آگاہ کرتے رہے کہ ذاتی تجربے سے وہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ میں ایک ’’ملنگ صحافی‘‘ ہوں۔ حکمرانوں اور طاقت ور لوگوں سے تعلقات کو ذاتی مفادات کے حصول کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ آپ کی غیر حاضری میں ہمارے سیاستدان متحرک رپورٹروں کے بارے میں ایسے کلمات ادا کرنے کے عادی نہیں۔ مجھے جب بھی علم ہوا مارے شرم کے فون کے ذریعے شکریہ بھی ادا نہ کرپایا۔
حاجی صاحب ’’دھڑے‘‘ اور ’’ڈیرے‘‘ کی روایت سے وابستہ سیاستدان شمار ہوتے تھے۔ ایسے افراد کو شہری متوسط طبقہ جھوٹے سچے واقعات پر مبنی غیبت اور تنقید کا نشانہ بنائے رکھتا ہے۔ اتوار کے روز یہ کالم لکھتے ہی مصطفیٰ سے دُکھ کا اظہار کرنے اسلام آباد کے ایف-8سیکٹر کی سڑک پر موجود ان کے گھر پہنچا تو دیہاتی لباس پہنے کئی بوڑھے افراد دھاڑیں مارکر روتے ہوئے اس میں داخل ہو رہے تھے۔ میرا کمزور دل یہ مناظر برداشت نہ کرسکا۔ مصطفیٰ کو ملنے کے فوراََ بعد وہاں زیادہ دیر بیٹھ نہ سکا۔ واپس لوٹتے ہوئے مگر ایک بار پھر سمجھ آگئی کہ ’’دھڑے اور ڈیرے‘‘ سے جڑی روایات کو نبھانے والے سیاست دان کی اصل Baseدوستوفسکی کے بیان کردہ ’’ذلتوں کے مارے‘‘ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے درد کا ہم ’’پڑھی لکھی مڈل کلاس‘‘ کے ’’دانشوروں‘‘ کو ہرگز کوئی اندازہ نہیں۔ حاجی صاحب کی اصل قوت بھی ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے چھوٹے کاشت کار تھے جو نہایت چھوٹے رقبوں پر دن رات کی مشقت سہتے اور نا مہربان موسموں کا مقابلہ کرتے ہوئے زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ حاجی صاحب جیسے سیاستدان انہیں شفقت کی علامت نظر آتے ہیں۔
مسلم لیگ (نون) کے ’’انتہا پسند‘‘ شمار ہوتے پرویز رشید زمانہ طالب علمی میں بائیں بازو کے انقلابی تھے۔ گارڈن کالج اورشہر داری کی وجہ سے کھوکھر برادران کے قریبی دوست رہے ہیں۔ بسا اوقات میرے ساتھ اکیلے میں بیٹھے پرویز صاحب نے بہت فخر سے کئی واقعات سنائے ہیں جو اس امر کی گواہی دیتے کہ کئی غریب و بے آسرا طالب علم اپنی ’’انقلابی جدوجہد‘‘ کے دوران حاجی صاحب کی بدولت راولپنڈی کے ایک مشہور اور مہنگے ریستوران میں ’’نیپکن اور چھری کانٹے‘‘ کے ساتھ چائے پینے یا کھانے کی ’’عیاشی‘‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ان واقعات کی بدولت میں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں بالآخر دریافت کرلیا کہ وہ میرے ساتھ احترام بھری گرم جوشی کیوں دکھاتے تھے۔
طالب علمی کے دوران بائیں بازو سے وابستگی کی بدولت میرا دل بھی روایتی سیاستدانوں سے تقریباََ نفرت میں مبتلا ہوچکا تھا۔1980 کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی رزق کمانے کی مجبوری نے ’’سیاسی رپورٹنگ‘‘ کی راہ پر ڈالا تو احساس ہوا کہ ان سے روابط بڑھائے بغیر ’’خبر‘‘ ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں ہر وہ سیاست دان ویسے بھی ریاستی جبر اور عذاب کا ’’حقدار‘‘ تھا جو آمریت کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں تھا۔ ایسے سیاستدانوں سے ’’درد کے رشتے‘‘ گہرتے ہوتے چلے گئے۔
دریں اثناء جنرل ضیاء نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے ’’جمہوریت‘‘ بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔ ایم آر ڈی نامی اتحاد میں یکجا ہوئے سیاسی افراد نے ان انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو میرے اخبار کے تمام سینئر افراد مصر رہے کہ مذکورہ انتخابات میں عوام کی بے پناہ اکثریت اپنا ووٹ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوگی۔ جنرل کے رچائے ’’ریفرنڈم‘‘ کی طرح انتخابات کے روز بھی پولنگ اسٹیشن ویران رہیں گے۔ فیلڈ میں جائے بغیر میں قطعی رائے دینے کو تیار نہیں تھا۔ میرے مدیر مشاہد حسین سید نے کمال مہربانی سے میری درخواست کو قبول کرلیا کہ مجھے بڑے شہروں سے دور آباد قصبات اور دیہات میں جانے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ پرانے دور کی اذیت زدہ لاریوں میں بیٹھ کر میں نے کوہاٹ سے میانوالی ،چکوال، تلہ گنگ، سرگودھا اور جھنگ جیسے اضلاع کا طویل دورہ کیا۔ میرے مشاہدہ کے مطابق عوام کی بے پناہ اکثریت اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کو بے تاب تھی۔ ریاستی حکام سے معاملات طے کرنے کے لئے بے وسیلہ افراد کو ’’رابطوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں دھڑے اور ڈیرے والے سیاستدان حتمی کردار ادا کرتے ہیں۔ ’’برادری‘‘ بھی اس تناظرمیں اہم ترین اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اپنے مشاہدات کو میں ہوبہو اپنے اخبار کے لئے فیلڈ سے بھیجتا رہا۔ میرے کئی قابلِ احترام بزرگوں نے الزام لگایا کہ میں 1985کے انتخابا ت کو ’’قابل اعتماد‘‘ دکھانے کے لئے ضیاء ا ٓمریت کے ’’سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشنوں پر گہماگہمی نے تاہم میرے مشاہدے کو درست ثابت کردیا۔
1985سے 2018تک اس ملک میں کئی قومی اسمبلیاں آئیں اور فارغ ہوگئیں۔1985 کے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ کے ذریعے قائم ہونے والی اسمبلی میں انتہائی جاندار دِکھنے والی Energy مگر کسی اور اسمبلی میں نظر نہیں آئی۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ 1985کی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اراکین فقط اپنی ذاتی Steam کی بنیاد پر وہاں پہنچے تھے۔ انہیں اپنی ’’خودمختاری‘‘ پر ناز تھا۔ وہ اسے کھونے کو تیار نہیں تھے۔ اسی وجہ سے مئی میں جنرل ضیاء ’’اپنے ہاتھوں‘‘ بنائی اسمبلی کو فارغ کرنے کو مجبور ہوا۔
حاجی نواز کھوکھر صاحب بھی 1985میں فقط اپنی Steamکی بنیاد پر مذکورہ اسمبلی کے اسلام آباد سے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے ’’نیویں نیویں‘‘ رہتے ہوئے اقتدار کے کھیل کو طے کرتی کلیدی ’’حرکیات‘‘ (Dynamics) کو کمال مہارت سے اپنی گرفت میں لانے کی کوشش شروع کردی۔ میڈیا میں دھواں دھار بیانات کے ذریعے ’’شہرت‘‘ کمانے کے بجائے انہوں نے مذکورہ حرکیات پر گہری توجہ مرکوز رکھی۔ 1950کے آغاز سے وطنِ عزیز میں یہ طے ہوچکا ہے کہ ہماری سیاست کا اصل منظرنامہ ریاست کے دائمی ادارے ہی طے کریں گے۔ حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ درحقیقت حکمران اشرافیہ کے باہمی اختلافات اور Turf Wars کی بدولت رونما ہوتی ہے۔ خلقِ خدا کے ’’جذبات‘‘ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
اقتدار کے کھیل کے بارے میں حتمی قرار پائی حرکیات پر کامل گرفت کی بدولت انتہائی خاموش طبع حاجی نواز کھوکھر صاحب کو ’’اندر‘‘ کی بے شمار خبروں کا علم ہوا تھا۔ میں خود کو کسی زمانے میں اس حوالے سے ’’پھنے خان‘‘ رپورٹر شمار کرتا تھا۔ بہت محنت اور لگن سے اقتدار کے کھیل سے جڑی کسی کہانی کو دھواں دھار انداز میں اپنے اخبار کے لئے لکھتا تو کمال مہربانی سے حاجی صاحب مجھ سے رابطہ کرتے اور مہذب انکساری سے اشاروں کنایوں میں کئی ایسے پہلو بیان کردیتے جنہیں دیکھنے سے میں ہرگز قاصر رہا تھا۔ اس تناظر میں بے تحاشہ واقعات ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے کالم نہیں کتاب لکھنا درکار ہے۔
مجھے اکثر یہ گماں ہوتا ہے کہ اقتدار کے ظالم کھیل کی کلیدی حرکیات کو بخوبی جان لینے کے بعد ہی حاجی نواز کھوکھر نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ان کے فرزند مصطفیٰ کھوکھر نے عاجزانہ ثابت قدمی سے مگر انسانی حقوق کے دفاع کا علم بلند کررکھا ہے۔ مصطفیٰ میرے چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔ میں اکثر اس کی ’’انتہا پسندی‘‘ سے گھبراجاتا ہوں۔ ہمیشہ حیران ہوا کہ حاجی صاحب نے اسے کبھی ’’ٹھنڈا‘‘ رہنے کو مجبور نہیں کیا۔ غالباََ اس کی صورت میں انہیں اپنی جوانی یاد آتی ہوگی۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ مصطفیٰ کو صبر عطا فرمائے اور ثابت قدمی سے اپنے نظریات پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ بخشے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر